پاکستانی عوام بادشاہت کر رہے ہیں اور اوور سیز پاکستانی فاقے


ضیا الدین یوسفزئی صاحب نے ٹویٹ کی ”اوورسیز پاکستانیوں کے مہنگائی پر صبر کے بھاشن انتہائی مضحکہ خیز ہیں۔ انہوں نے پاؤنڈز/ ڈالر میں کما کر روپوں میں خرچ کرنے کا مزہ تو دیکھا ہے مگر روپوں میں کما کر ڈالر کی قیمتوں سے اشیاء خریدنے کا دکھ نہیں جانتے۔ مہنگائی سے گھائل، افلاس زدہ پاکستانیوں کے زخموں پر نمک پاشی نہ کریں۔“ اس پر ایک سوشل میڈیا بریگیڈ حسب معمول ان پر لعن طعن کرنا شروع ہو گیا۔

تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم یا ہمدردوں کی طرف سے خصوصاً بعض خواتین کی ویڈیوز بھی آ رہی ہیں۔ دیگ کا ایک دانہ چکھیں۔ یہ خاتون کہتی ہیں کہ کہاں ہے مہنگائی، سب لوگ کھا رہے ہیں، پی رہے ہیں، برانڈڈ کپڑے پہن رہے ہیں، ہم یہ سب انگلینڈ میں نہیں کر سکتے، آپ لوگوں کی تو بادشاہت ہے، آپ بادشاہوں کی زندگی گزار رہے ہو۔

ہماری دیسی روایات میں میراثیوں کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ جب کسی طاقتور کے جبر کے سامنے کسی عام آدمی کا بے بسی آمیز موقف ہنستے کھیلتے بیان کرنا ہو تو اسے عموماً کسی میراثی کی زبان سے کہلوایا جاتا ہے۔ اسی روایت کی پیروی میں ہم بھی ایک میراثی کو یاد کرتے ہیں۔

مشہور حکایت ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران تاج برطانیہ بے بس ہوا اور فوجی بھرتیاں کرنے پنجاب پہنچا۔ ہوا یہ کہ چوہدری صاحب نے ایک میراثی کو بھی ڈرا دھمکا کر بھرتی ہونے پر مجبور کر دیا۔ میراثی کی ماں کو خبر پہنچی تو اس کا دل دہلا۔ وہ بھرتی کرنے والے برطانوی افسر کے پاس پہنچی اور اسے مشورہ دیا ”اگر نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ لڑنے کے لیے اب دوسری قوموں کو چھوڑ کر میرے بیٹے تک کو بھرتی کرنا پڑ گیا ہے تو بادشاہ سے کہو ہٹلر سے صلح کر لے“

پٹرول اور مہنگائی کے دفاع کے لیے بیرون ملک مقیم خواتین و حضرات کے بھاشن سن کر یہ قصہ یاد آیا۔ اب خطہ پاکستان کے اندر سے کوئی تیار نہیں ہو رہا اور اوور سیز باجیوں کو لڑنے کے لیے بھرتی کرنا پڑ گیا ہے تو بہتر ہے کہ کرپٹ سیاست دانوں سے صلح کر لیں اور کوئی متفقہ قومی معاشی پالیسی بنائیں۔

یہاں ایک اور سوال اٹھتا ہے۔ امریکہ یورپ میں بیٹھے پاکستانی جو وہاں کی شہریت لے چکے ہیں، کتنی ریمٹنس بھیجتے ہیں؟ کپتان نے جب اقتدار سنبھالا تو ملک کی حالت بہتر کرنے کے لیے ان سے ہزار ہزار ڈالر مانگے۔ کپتان کے سب اوور سیز حامی یہ اپیل سن کر گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو گئے اور اب ہمیں بھاشن دے رہے ہیں کہ ہم کپتان کے سونامی میں بادشاہت کر رہے ہیں اور وہ بچارے انگلستان، امریکہ اور کینیڈا وغیرہ میں بیٹھے مہنگائی کی گوری چکی میں پس رہے ہیں۔

یہ سوال بھِی اٹھتا ہے کہ ادھر ایک گھنٹے کی جاب کے بدلے جو پیسے ملتے ہیں، اس میں کتنا پٹرول اور کھانے پینے کا سامان خریدا جا سکتا ہے۔ کیا پاکستان میں بھی اسی تناسب سے ایک مزدور یہ خرید سکتا ہے؟ یا پھر وہ ایک دن کی کمائی سے بمشکل زندہ رہنے کے قابل کھانا خرید سکتا ہے۔

ہمارے اعداد و شمار شاہد ہیں کہ زیادہ ریمٹنس مشرق وسطیٰ سے آتی ہے جہاں ورکرز کے پاس ابھی بھی پاکستانی شہریت ہے اور وہ اپنے گھر پیسے بھیجتے ہیں۔ ان کا مستقبل پاکستان سے وابستہ ہے اور انہوں نے پاکستان پلٹ کر واپس آنا ہے۔ جس نے واپس ہی نہیں آنا اور باہر کی شہریت لے چکا ہے وہ اپنے اس ملک کے بارے میں سوچے جس سے وفاداری کا حلف وہ اپنی مرضی سے اٹھا چکا ہے اور پاکستان کی حکومت کے بارے میں فیصلوں کو یہاں رہنے والوں پر چھوڑ دے تو اس کی مہربانی ہو گی۔

جہاں تک مغرب میں رہنے والے پاکستانیوں کا تعلق ہے، تو ان میں سے اکثر تو اپنا سب کچھ بیچ کر یہاں سے گئے ہیں۔ وہ اپنے پیسوں سے یہاں کاروبار کیوں کریں گے؟ یہیں کاروبار کرنا ہوتا تو یہاں سے جاتے ہی کیوں؟ اور جو یہاں موجود بڑے بڑے افسران اور اصلی حکمران ہیں، وہ اپنا سرمایہ یہیں لگا رہے ہیں یا آسٹریلیا، انگلینڈ اور امریکہ میں جائیدادیں اور کاروبار خرید رہے ہیں؟

یہاں مہنگائی اور بے روزگاری سے پریشان لوگوں کو یہ بتانا کہ وہ سب بادشاہت کر رہے ہیں اور برانڈڈ کپڑے پہنتے ہیں، ان کے زخموں پر نمک پاشی کرنا ہے۔ ہم ان انگلستان والی باجی کو تو خصوصاً اور تحریک انصاف کے باقی اوور سیز پاکستانیوں کو عموماً دعوت دیتے ہیں کہ وہ دیار غیر میں غربت اور فقر و فاقے کی زندگی کو خیر باد کہیں اور پاکستان آ کر بادشاہت کریں۔ لیکن وہ جھیل والے ڈاکٹر صاحب یاد آ جاتے ہیں جو کپتان کی حکومت آنے کے بعد فوراً سب کچھ بیچ باچ کر امریکہ سے پاکستان آنے کا اعلان کر بیٹھے تھے مگر ابھی تک ان کی یہاں وصولی کی رسید نہیں مل پائی۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments