میرے دل میرے مسافر (لاہور کے دوست)


جیسے دو سال پہلے یہاں کینیڈا پہنچنے پر بہت عرصہ حیران رہے کہ یا خدا کہاں سے اٹھا کر کہاں رکھ دیے گئے، ویسے ہی لاہور واپس پہنچ کر شروع میں تو بے یقینی سی کی کیفیت رہی۔ کہ واقعی ہم اپنے گھر لوٹ آئے ہیں۔ اس کیفیت سے وہ سب پردیسی زیادہ واقف ہوں گے جو ملک چھوڑنے کے بعد پہلی بار گھر لوٹتے ہیں۔ ایک عجیب سی خوشی اور اپنے پن کا احساس۔ کبھی تو یوں لگتا کہ یہاں سے کبھی گئے ہی نا تھے۔

پاکستان روانگی سے پہلے پورے تین ماہ کی دوڑ دھوپ کھانے پینے کی احتیاط اور ورزش وغیرہ سے وزن کو واپس اس حال لانے میں کامیاب ہو چکے تھے کہ کم از کم تولا جا سکے۔ اس مجاہدانہ طرز عمل کو پاکستان جا کر جاری رکھنے کی کوشش بھی کی مگر ایک طرف تو شدید گرمی نے واک یا رننگ سے توبہ کروا دی اور دوسری طرف توبہ شکن دعوتوں نے ہر طرح کی احتیاط کا دامن چھڑوا دیا۔ پھر تو یہ حال تھا کہ اپنا قومی لباس جو ہر طرح کے موٹاپے کو اپنے اندر سمانے کی اہلیت سے مالامال ہے اس نے بھی دبے لفظوں احتجاج شروع کر دیا۔

آج کی تحریر بھی انہی اخلاص بھری یا یوں کہیے کہ اناج بھری ملاقاتوں کے احوال کے بارے میں جس نے اس لاہوری مفرور کو واپس اس کے حال میں پہنچا کر چھوڑا۔

لاہور پہنچنے کے اگلے دن عطاء الحق قاسمی صاحب سے فون پر بات ہوئی تو حکم صادر ہوا کہ پہنچ گئے ہو تو فوری ملاقات ضروری ہے۔ عید کا غالباً تیسرا روز تھا اور اکثر ریستوران بند ایسے میں فلیٹیز ہوٹل کا ریستوران پرانے وقتوں کا بھرم رکھتے ہوئے ہماری محفل سجانے کو تیار تھا۔ ملاقات میں ہمارے پی ٹی وی کے پروگرام، کھوئے ہوؤں کی جستجو کی ٹیم موجود تھی، جن میں قاسمی صاحب کے ساتھ، پروگرام کی میزبان فائزہ بخاری اور ہمارے شاعر دوست اور ابھرتے ہوئے کالم نگار ابرار ندیم بھی شامل تھے۔

ابرار کو کینیڈا سے بے انتہا اور بے وجہ عشق ہے۔ بے وجہ اس لئے کہا کہ جو وجہ تھی وہ کینیڈا آنے کے بعد کسی اور کے دکھ سکھ کی وجہ بن چکی ہے۔ سنا ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد وہ کابل ائرپورٹ پہنچ کر خود کو کینیڈین ایمبیسی کا ملازم ظاہر کرتے رہے۔ بقول ابرار وہ صرف انگریزی میں کینیڈا کے ہجے صحیح طرح نا کر سکے ورنہ سیٹ پکی تھی۔

قاسمی صاحب سے مل کر ہمیشہ ہی حیرانی ہوتی ہے کہ زندگی کی اتنی بہاریں دیکھنے کے بعد بھی طبیعت نوجوانوں جیسی باغ و بہار ہی ہے۔ ان کی بے شمار خوبیوں میں سے ایک یہ ہے کہ جو بھی فرد ان کی شفقت کے دائرے میں داخل ہو گیا اسے ہمیشہ کے لئے اپنا لیتے ہیں۔ پچھلے دو سال سے مستقل رابطے میں ہیں اور ہر موڑ پر ان کے مشورے اور ہدایات ملتی رہتی ہیں۔ پاکستان پہنچ کر دو ہی ملاقاتیں ہو سکیں مگر ان کا ذائقہ دیر تک قائم رہے گا۔ ان سے ملاقات کے بعد اگلا مرحلہ پاکستان ٹیلی ویژن لاہور پر اپنے پرانے ساتھیوں سے ملنے کا تھا۔ خدا کا شکر، جن معاملات کو جیسا چھوڑ کر نکلے تھے وہاں سے ایک قدم آگے نہیں بڑھے۔ جن مسائل اور وسائل کی کمی کا سامنا دس سال رہا، آج بھی ویسی ہی شدت سے موجود تھے۔

اور ہمیں جس ملاقات کا شدت سے انتظار تھا وہ یعنی عارف یونس بھی وہیں موجود تھا۔ عارف، پروڈکشن کے حوالے سے میرا استاد بھی ہے اور بہترین دوست بھی۔ پی ٹی وی میں روز اول سے آج تک مجھے کوئی عارف یونس سے زیادہ پیارا نہیں لگا۔ سر پر چند ہی بال اور چہرے پر پریشانی کے ہلکے سے آثار لیے عارف ہمیشہ سب کی مدد کے لیے تیار رہتا ہے۔ کتنے ہی پروگرام میں نے عارف کے ساتھ بطور اسسٹنٹ کیے ۔ یہ عادت اتنی پختہ ہو گئی تھی کہ اگر بطور پروڈیوسر بھی کوئی پروگرام مل جاتا تو میں اس میں عارف یونس کا نام شامل کروا کے اس کا اسسٹنٹ بن جاتا۔

پی ٹی وی میں ہمارا گزشتہ دفتر ہماری پرانی کولیگ اور دوست مریم شاہ کو الاٹ ہو چکا ہے تو اکثر وہیں محفل جم جاتی۔ مریم نے ایک مہربانی یہ کہ ہر چکر میں لکشمی کے وہ تمام روایتی ذائقے جن سے زبان آشنا تھی ان سے تواضع کرتی رہی۔ اور ظاہر ہے کہ رزق کو نا کرنے کی جسارت میں کرتا نہیں، مگر جس بٹ کڑاہی کو کھاتے ہم گئے دنوں کی یادیں تازہ کرتے رہے چند ہی روز بعد مردہ مرغیاں کھلانے پر اسے بند کر دیا گیا۔ بس دل کو تسلی دیتے رہے کہ مردہ مردہ ہوتا ہے، ذبح کیا جائے یا طبی موت مرے۔ شعبہ حالات حاضرہ اور پی ٹی کے دیگر دوستوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ واپس آنے تک گاہے بگاہے جاری رہا۔

ہمارے دوست قیصر شریف اب پروگرام مینیجر بن چکے ہیں اور شعبہ حالات حاضرہ کی ذمہ داری شکیل اعوان سے ہوتی ہوئی اب سہیل احمد کے ہاتھ میں ہے۔

شہرہ آفاق پروگرام ایک دن جیو کے ساتھ کے پروڈیوسر بلال رزاق، میرے واحد دوست ہیں جن سے تعلق بنانے کی خاطر دو چار لاکھ کا خرچہ ہو گیا۔ یعنی ایم فل میں داخلہ لیا تھا اور یونیورسٹی نے ہمیں ڈگری کی بجائے بلال تھما دیے۔ اب ڈگری اور بلال میں ایک یہ قدر بھی مشترک تھی کہ دونوں بولتے کم اور سنتے زیادہ ہیں تو میں نے بھی ہنسی خوشی قبول کر لیا۔ بلال کی پلاننگ کمال کی ہوتی ہے۔ یعنی ایک بار انہیں ماڈل ٹاؤن سے ڈیفینس فیز 8 کسی دفتری ملاقات کے لیے جانا تھا تو بیگم پر احسان ڈالا کہ چلو تمہیں تمہارے میکے لے چلوں، اسے ڈیفینس فیز 1 میں اتار کر مجھے بولے کہ آپ سے ملاقات کا بہت دل ہے۔ مجھے گاڑی میں بٹھا کر کہا کہ باتیں اور کھانا تو چلتا ہی رہتا، آئیے آج آپ کی ملاقات ایک قومی ہیرو سے کروائی جائے۔ قومی ہیرو کو سنایا کہ یہ کینیڈا رہتے ہیں، لکھتے وکھتے ہیں اور آپ سے ملاقات کے شوق میں چلے آئے۔ مگر خوبصورت انسان اور پیارا دوست ہے اور شروع سے آخر تک بلال سے کئی ملاقاتیں رہیں۔

میری خوش قسمتی ہے کہ اہل خانہ کے علاوہ کچھ ایسے دوست ملے جو واقعی میری واپسی کا انتظار دن گن کر کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک ہمارا بھائیوں جیسا دوست عبد الرحمان ہے۔ کینیڈا روانہ ہوئے تھے تو رات کے آخری پہر شہر کے دوسرے کونے سے آیا اور خود ائرپورٹ چھوڑنے گیا۔ واپسی پر استقبال بھی اس کے ذمے تھا مگر اس کے سخت بیماری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے چند دن تک ملاقات نا ہو سکی۔ پھر جو رحمان صحت مند ہوا تو بے شمار ملاقاتیں اور لاہور کے ہر کونے سے کھابے کھانے کا شرف ہم نے اکٹھے حاصل کیا۔ تعلق ایسا شدید ہے کہ ہماری بیگمات اور بچے بھی ایک دوسرے سے دوستی رکھنے کے پابند ہیں۔ ہماری دوستی کی تکون کا تیسرا کونا نوید یہیں کینیڈا ایک دوسرے صوبے میں آباد ہے۔ اور ہمارے اکیلے جانے پر بہت زور لگا کر خوشی کا اظہار کرنے کی کوشش کرتا رہا۔

پنجاب یونیورسٹی سے ہی ہمارے ایک دوست عدیل احمد عامر ہیں۔ پاکستان پہنچنے کے بعد پہلا فون انہی کا آیا یہ الگ بات کہ انہوں نے ملاقات کا شرف میری کینیڈا روانگی سے دو دن پہلے ہی بخشا تھا۔ وہ بھی یوں کہ ہماری پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے تنظیمی دوستوں نے کہیں سوشل میڈیا پر الوداعی ملاقاتوں کی پوسٹ پڑھیں تو راتوں رات ملاقات کا وقت اور جگہ مقرر کر کے مجھے پابند کر دیا کہ کل سب اکٹھے ہوں گے۔ میں نے دھیمے سروں سمجھانے کی کوشش کی کہ اب اگلے روز میرا کرونا ٹیسٹ ہے اور اس سے پہلے جم غفیر سے جپھیاں ڈالنا اپنی فلائٹ کو خطرے میں ڈالنے جیسا ہو گا۔

مگر ایک پروڈیوسر کی پہلی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ پروگرام میں بٹھانے کے لیے مہمان کو ان کی شادی سے کھینچ لاتے ہیں ہمارے پاس تو یہ چھوٹا سا کرونا کا رونا تھا۔ خیر ایمپرا کے دو سابق صدور، آفتاب چوہدری اور قیصر شریف کی قیادت میں تقریباً سبھی دوستوں سے اکٹھی ملاقات بہت خوبصورت محفل بن گئی اور کئی نئے پرانے قصے تازہ ہوئے۔ عدیل عامر نے پچھلے شکوے مٹانے کو ہمیں لانے کے جانے کی ذمہ داری خود اٹھائی اور راستے میں ایک دوسرے کی عزت پر ہلکے پھلکے حملوں کے دوران سارے گلے دور ہو گئے۔

ان سب ملنے ملانے میں ایک ملاقات ایسی ادھوری رہ گئی کے اب کبھی ممکن نا ہو سکے گی۔ ہوا یوں کہ میرے بچپن کے گرو، دوست اور رشتے کے ماموں مظفر خان نے اپنے گھر سب خاندان کو کھانے پر بلایا تھا۔ مظفر اور میری ملاقات تو ہو چکی تھی مگر اس کے والدین یعنی میری امی کے خالہ اور خالو سے ملاقات نا ہو سکی تھی۔ کھانے سے ایک دن پہلے فون آیا کہ دعوت مؤخر کرنا پڑے گی کہ اس کے والد، والدہ، بھابھی اور خاندان کے دو یا تین بچے اکٹھے کرونا کی زد میں آ گئے ہیں۔

مظفر خود کچھ ماہ پہلے ہی اس عفریت میں اپنے دو دوستوں سمیت مبتلا ہو چکا تھا اور بمشکل صحت ہوا تھا۔ اس بار وہ خود تو محفوظ رہا مگر ایک ڈیڑھ ہفتے میں اس کے والد اور ہم سب کے پیارے، خالو ناظر کا اس وبا کے باعث انتقال ہو گیا۔ ایک بار پھر ان کے خاندان پر ان مشکل دنوں کے دوران شدید بے بسی محسوس کی کہ کیسی بلا کا سامنا ہے کہ نا تو بیمار کی عیادت ممکن ہے نا ہی سے تعزیت ہو سکی کہ بالکل واپسی کے دن تھے اور خود مظفر بھی میرا آنا محفوظ محسوس نہیں کر رہا تھا۔ ایسی قریبی رشتے داری اور اتنی مضبوط دوستی کے باوجود صرف جنازے پر مسجد پہنچنا ممکن ہوا۔ واپسی پر اس سے بات ہوئی تو بولا کہ آج کسی کام سے فریزر کھولا تو تمہاری دعوت کی لیے تیار کیا گیا سامان سامنے فریزر میں پڑا تھا۔

اور آخر کار ستم گر ستمبر کے آدھ میں، دو سال بعد خاندان اور دوستوں سے ملنے کی خوشی اور پھر بچھڑنے کی اداسی لے کر ہر پردیسی کی طرح اس امید پر واپس لوٹ آئے کے اب اگلا چکر بہت جلد لگے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments