پپو سائیں تتلیوں کے دیس روانہ ہو گیا



” پپو سائیں مر گیا
”اچھا؟ کون مر گیا؟“
”پپو سائیں! ۔ آج صبح جگر کے کینسر میں جان کی بازی ہار گیا۔“
”افوہ! ویری سوری! کون تھا وہ؟“
”پپو سائیں! ؟ نام تو کچھ سنا سنا سا لگتا ہے۔“
”ایں! کون تھا، کیا کرتا تھا؟“
”خیر، ہو گا کوئی۔ لوگ مرنے کے لیے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ وہ بھی مر گیا تو کیا؟“

یہ وہ ممکنہ ردعمل ہے جو حس لطافت اور خود آگہی سے تہی معاشرے میں کسی بھی فنکار، کسی بھی بڑے آدمی کی موت پر مروج ہے۔ سو پپو سائیں بھی مر گیا تو کیا انہونی ہوئی؟

جہاں ایک جانب اپنی وردیوں اور شیروانیوں میں کسے کسائے، گردنوں کو کسی مغرور بگلے کی طرح اکڑائے پھرتے اور حماقت زدہ نخوت کے بوجھ میں دبے دبائے پیر تسمہ پا وجودوں کے لیے یہ سوال بے معنی ہے وہاں اپنے پیٹ کے خلا کو بھرنے اور دوسروں کی گردن کو ناپنے کی فکر میں مبتلا انبوہ کثیر کے لیے بھی یہ سوال مذاق سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

پپو سائیں کی موت سے کسی کو کیا لینا دینا کہ فن کیا اور فنکار کیا؟

اس کا ڈھول خاموش ہو گیا تو کیا فضاؤں میں ”سر تن سے جدا“ کے دلفریب نعرے کی گونج تو بلند سے بلند تر ہے۔

اپنی روحانی اور جمالیاتی موت سے نمٹ چکنے کے بعد اپنی جسمانی موت کی جانب گامزن ہجوم میں پپو سائیں کی موت سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن بابا شاہ جمال کے کبوتروں پر قیامت ضرور ٹوٹی ہوگی۔ اور وہ ڈھول جو اس دور کے ایک بے مثل فنکار کے ہاتھوں میں آ کر شہنائی بن جاتا تھا، وہ ڈھول اپنے سائیں کی موت پر گم سم سا ضرور رہ گیا ہو گا۔

ہلاکت نصیب ہجوم نے پہلے کب کسی کو جانا جو وہ پپو سائیں کو جانے گا۔ البتہ چند ایسے دیوانے ضرور موجود ہیں جو خوب جانتے ہیں کہ پپو سائیں کا ڈھول صوفیانہ جمالیات کی روایت کا تسلسل تھا۔ اس نے ایک عام ڈھولچی سے سفر آغاز کیا لیکن ایک بار جب وہ کسی صوفیانہ واردات کے گھیرے میں آیا تو انجان روحانی کیف میں گم وہ اپنی روح کی گہرائیوں میں اترتا چلا گیا۔ اس کا ڈھول وہی تھا لیکن اس کی تھاپ میں سرمستی گھل گئی تھی۔ وہ نشاط انگیز کیف کے کسی خاص لمحے جب وجد میں آتا تو اس کی لمبی کالی زلفیں فضا میں لہرانے لگتیں اور اس کے دونوں ہاتھوں میں دبی ڈھول بجانے والی چھڑیاں ریاضی کی کسی نامعلوم سرمدی ترتیب میں بندھ جاتی تھیں۔

ریاضیاتی الہیات کے منطقوں کی جانب کسی نامعلوم سفر پر روانہ ہونے والا مستی کی چادر اوڑھ کر جب صدیوں کے تسلسل میں ضم ہو جائے تو شہرت اس پر کاٹھی ڈال سکتی ہے نہ دولت اسے ورغلا سکتی ہے۔ وہ بھی ایسا ہی تھا، مست الست اور اپنے من آنگن میں ہمہ وقت دھمال میں گم۔

پپو سائیں، وہ فقیر خوش خصلت جس کا خمیر اسی مزار کی خاک سے اٹھا تھا اور جو اپنے فن کی بنا پر آگے چل کر دنیا بھر میں چاہا گیا، دنیا بھر میں مانا گیا، وہ کہ جس کے دل میں مرشد کی جوت جگتی تھی، اس نے اپنے ڈھول کو دولت کمانے کی بجائے ہمیشہ اپنے بابا کو خوش کرنے کا ذریعہ جانا۔ اس کے لیے یہ سوہان روح تھا کہ کوئی جمعرات آئے اور وہ کیف آلود دھوئیں کے مرغولوں میں گم وہاں اپنے ڈھول پر تھاپ نہ دے پائے۔

من آنگن میں محو دھمال مست الست نہیں رہا تو اس کے آسودہ خاک مرشد پر قیامت ضرور گزر گئی ہوگی۔

پپو سائیں کا مرشد اور ڈھول جیسے بلند آہنگ اور بے ڈھب ساز کو اپنے صوفیانہ مسلک کا ذریعہ بنانے والا بابا شاہ جمال جس کی قبر ہر جمعرات کو چراغ جلے پر پپو سائیں کے ڈھول کی تھاپ پر مسکرا اٹھتی تھی، اب وہ قبر کس بہانے مسکرائے گی؟

لاہور کے قلب میں موجود وہ مزار جو ہزاروں خانہ خرابوں اور خاک نشینوں کا جذباتی سہارا ہے، اس مزار پر کئی جمعراتیں آئیں گی اور گزر جائیں گی۔ وہاں خانہ خرابوں اور خاک نشینوں کا ہجوم بھی حسب سابق ہو گا لیکن اس مزار کی ویرانی کو کون جانے گا کہ بابا شاہ جمال کی روایت سے بندھا بالکا اب کبھی وہاں اپنے بابا کو عقیدت کا نذرانہ پیش کرنے نہیں آئے گا۔ ڈھول کی صدا اب بھی وہاں گونجا کرے گی لیکن تھاپ دینے والے ہاتھ اس کے نہیں کسی اور کے ہوں گے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ اس تھاپ میں قلب کا گداز بھی شامل ہو۔

سو پپو سائیں مر گیا اور اس کا ڈھول خاموش ہو گیا۔

اس فقیر، اس مست الست کی موت سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا، شاید سیاست کی دلدل میں دھنسے اور رالیں ٹپکاتے، مکروہ اشراف کے تلوؤں کی چسائی میں مگن میڈیائی چکلوں تک یہ خبر پہنچ بھی نہ پائے مگر ایک ڈھول، چند کبوتر، ایک قبر اور ایک مزار بہت دن تک اداسی کی چادر اوڑھے رہیں گے۔

مرشد بابا شاہ جمال! اپنے بالکے کی موت پر مجھ فقیر کی تعزیت قبول فرمائیں کہ اداسی کا سایہ میرے دل پر سے بھی لمحہ بھر کو گزرا تو ضرور ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments