کیا عدت کی ضرورت ختم ہو چکی ہے؟


جب جہاز اور جدید سہولیات نہیں تھیں اور حج و عمرے کے لیے خاتون کو اکیلے جانے کی اجازت نہیں تھی وہ ساتھ محرم کو لے کر جاتی تھی کیونکہ وہ سفر مہینوں پر محیط تھا پھر جہاز اور جدید سہولیات آئیں تو بہت سے فقہ میں محرم کی شرط ختم کردی گئی اور خاتون اکیلے بھی حج و عمرہ ادا کرنے لگی۔ یہ وقت اور حالات کی ضرورت تھی۔ اسی طرح سے بہترین سواریوں کا حکم ہے شریعت میں، رسول اللہ ﷺ کے دور میں بہترین سواریوں کا استعمال ہوتا رہا اور اب آج کی بہترین سواریوں پر سفر کیا جاتا ہے۔ ایسے ہی اسلام میں عدت ہے۔ عدت فقط عورت کے لیے ہوتی ہے جب اس کا شوہر انتقال کر جائے یا طلاق دے دے۔ شوہر کے طلاق یا انتقال کے بعد تین بار عورت کو پیریڈز آنا عدت ہے جس میں تین ماہ سے لے کر چار ماہ دس دن تک کا عرصہ شامل ہے مختلف حالات میں۔

عدت کے دو بنیادی مقاصد ہوتے ہیں۔ ایک یہ معلوم کرنا ہوتا ہے کہ جس شوہر نے اس کو طلاق دی ہے یا اس کا انتقال ہو گیا ہے تو خاتون اس شخص سے تو حاملہ نہیں ہوئی ہے اور اس دوران وہ کسی دوسرے شخص سے شادی کرتی ہے تو حمل کی صورت میں بچے کی ولدیت مشکوک ہو جانی تھی۔ دوسرا اس عرصے میں عورت ذہنی دباؤ سے باہر نکل آئے۔

میرے خیال سے عدت بہت ضروری تھی لیکن تب تک جب تک سائنس نے ترقی نہیں کی تھی اور وہ نتائج نہیں دیے تھے جن کے لیے عدت کی جاتی تھی۔

پہلا مقصد جو عدت کا ہے وہ یہ کہ اس دوران اگر عورت کا حمل ٹھہرا ہو تو وہ واضح ہو جائے تاکہ جلد شادی کرنے سے بچے کی ولدیت مشکوک نہ ہو جائے۔ تو اس اب تک کی سائنس نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ وہ چند منٹوں کے میڈیکل چیک اپ پر آپ کو سو فیصد نتیجہ دے دیتی ہے کہ عورت حاملہ ہے یا نہیں اور اگر فرض کریں کہ عورت عدت پوری نہیں کرتی اور اسی دوران کسی اور مرد سے شادی کر لیتی ہے اور حاملہ بھی ہوجاتی ہے تو پھر ایک سوال اٹھتا ہے کہ آیا یہ بچہ طلاق دینے والے مرد یا انتقال کر جانے والے شخص کا ہو گا یا پھر جو موجودہ ہے تو میرا خیال سے یہ بھی آج کل کے دور میں مشکل نہیں رہا ڈی این اے جیسی جدید سہولت آپ کو آپ کے خاندان کے نسلوں تک کا پتہ بتا دیتا ہے کہ کون کس کا بچہ ہے اور کس نسل سے ہے۔

تو حمل معلوم کرنے کے لیے اب جدید سہولیات کا سہارا لینا چاہیے جبکہ دوسرا اعتراض ہے کہ کیونکہ عورت جو ہے وہ ایک کمزور اور حساس ہوتی ہے اس لیے اس کو ذہنی دباؤ سے نکلنے کے لیے کچھ عرصے اکیلے رہنا چاہے ناکہ دوسرے رشتے میں منسلک ہو جائے تو جناب یہ کیسا ذہنی دباؤ ہے جو صرف عورت کے لیے بھی ہے۔ میں اپنی وکالت کی پریکٹس کے دوران ایسے لاتعداد مردوں سے مل چکا ہوں جو لڑکی کے خلع لینے کی وجہ سے شدید ذہنی دباؤ میں رہتے ہیں اور لڑکی اپنے احساسات اور جذبات پر مکمل قابو رکھتی ہے تو ایسے میں تو مرد کو بھی عدت کی ضرورت ہونی چاہیے۔

اسلام نے جتنی عزت اور مقام عورتوں کو دیا ہے اتنا ہی ہمارے معاشرے اور مولویوں نے مشکل بنا رکھا ہے کہ عدت کے نام پر عورت کو گھر میں قید کرنا، اس دوران کسی سے نہ ملنے اور باہر نہ جانے دینا۔

آج کل کا بچہ سوال کرنا جانتا ہے وہ ہر چیز کو سائنس پر پرکھ کر یقین کرتا ہے اگر ہم نے اپنے والی نسلوں کے جواب عقل اور سائنس سے نہیں دیے تو چاہے۔ اگر آپ سوال پوچھنے سے روکیں گے تو نسلیں جاہل پیدا ہوں گی اور یہی وجوہات ہیں کہ ہمارے معاشرے میں انتہاپسندی کے ساتھ ساتھ الحاد کی فکر بھی تیزی سے پھیل رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments