مقبوضہ مغربی کنارے پر نئی آبادیوں کی تعمیر کا فیصلہ


مقبوضہ مغربی کنارہ:

عرب اسرائیل کے درمیان سن 1967 میں، 5 سے 10 جون، یعنی چھ روز تک جنگ جاری رہی۔ بدقسمتی سے غاصب ریاست اسرائیل اپنے آقاؤں کی مدد سے جنگ جیتنے میں کامیاب رہی اور عرب ممالک کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اس جنگ میں اسرائیل نے فلسطین کے کئی علاقے پر قبضہ کر لیا۔ آج تک وہ علاقے اسرائیل کے قبضے میں ہیں۔ ان میں سے ایک علاقہ ”مغربی کنارہ“ بھی ہے۔ اسے عربی میں ”الضفۃ الغربیۃ“ اور انگریزی زبان West Bank کہا جاتا ہے۔

یہ فلسطین کا اہم حصہ ہے۔ یہ علاقہ دریائے اردن کے زمین بند جغرافیائی علاقے کا نام ہے۔ اس کے تین سمت: مغرب، شمال اور جنوب کی طرف غاصب اسرائیل واقع ہے ؛ جب کہ مشرقی جانب مملکت ہاشمی اردن ہے۔ اس مغربی کنارے میں تقریباً دو ملین سے زیادہ فلسطینی مسلمان آج بھی آباد ہیں۔ اس خطے کے زیادہ تر انتظامی امور کا کنٹرول، اسرائیلی حکومت کے قبضے میں ہے۔ عالمی برادری اسرائیل کے اس قبضے کو غیر قانونی تسلیم کرتی ہے ؛ کیوں کہ بین الاقوامی قانون کے مطابق یہ قبضہ غیر قانونی ہے۔

مقبوضہ مغربی کنارے پر یہودیوں کے لیے نئے مکانات کی تعمیر کی منظوری:

اس علاقے میں اسرائیلی حکومت یہودیوں کے لیے مکانات تعمیر کرتی رہی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، اسرائیل نے زور زبردستی سے مقبوضہ مغربی کنارے پر 253 اور مقبوضہ مشرقی بیت المقدس میں 13 /غیر قانونی یہودی کالونیاں بسا رکھا ہے۔ ان مقبوضہ اراضی پر بنائی گئی ان غیر قانونی کالونیوں میں، اسرائیلی حکومت تقریباً چھ لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد یہودیوں کو آباد کرچکی ہے۔ اسرائیل کا مقصد یہ ہے کہ وہاں کئی نسلوں سے آباد فلسطینی مسلمان اقلیت میں آ جائیں اور یہودی آبادکاروں کی اکثریت ہو جائے۔

ابھی گزشتہ مہینے یعنی 24 /اکتوبر 2021 کو ، اسرائیلی حکومت نے اپنی دشمنی اور ظلم و جبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقبوضہ مغربی کنارے پر یہودی آبادکاروں کے لیے ایک ہزار تین سو پچپن نئے مکانات کی تعمیر کی منظوری دی ہے۔ اسرائیل کی وزارت ہاؤسنگ اینڈ تعمیرات نے اپنے ایک بیان واضح کیا ہے کہ مغربی کنارے پر یہودی آبادیوں یہودہ اور سامرہ میں گھروں کی تعمیر کا ٹینڈر شائع کر دیا گیا ہے۔ اس وزارت کے بیان کے مطابق یہودیوں کے نئے گھر سات بستیوں میں تعمیر کیے جائیں گے۔ اس نئی آبادکاری کے بعد ، مقبوضہ مغربی کنارے پر یہودی آبادکاروں کے گھروں کی تعداد دو ہزار سے تجاوز کر جائے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسرائیل کے یہ اقدامات خطے میں امن وامان کو قائم رکھنے کے بجائے اشتعال انگیزی اور کشیدگی کو بڑھاوا دے گی، جو کسی کے بھی حق میں نہیں ہے۔

اسرائیل کی موجودہ حکومت:

بنجامن نیتن یاہو کی بارہ سالہ حکومت کو شکست دے کر ، 13 /جون 2021 کو ، ”نیو رائٹ“ پارٹی کی سربراہی میں، اسرائیل میں ایک نئی اتحادی حکومت بنی ہے۔ اس حکومت کی قیادت نفتالی بینیٹ کر رہا جو ایک آباد کار لابی گروپ کا سابق سربراہ بھی ہے۔ یہ شخص ”دو ریاستی حل“ کے منصوبہ کا مخالف ہے اور فلسطینی ریاست کے قیام کے تعلق سے گفت و شنید کو بھی پسند نہیں کرتا۔ جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ موجودہ حکومت بھی سابقہ حکومت سے کسی طرح کچھ کم نہیں ہے۔

یہ حکومت ہر وہ کام کرنا چاہتی جس سے آباد کاروں اور صہیونیوں کو خوش رکھا جا سکے۔ اس کا فائدہ اس حکومت کو یہ ہو گا کہ لوگ اس سے قریب ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اس حکومت نے یہودی آباد کاروں کے لیے مغربی کنارے پر ، عالمی برادری کی طرف سے بغیر کسی دباؤ کو محسوس کیے ہوئے، تیرہ سو پچپن نئے مکانات کی تعمیر کا فیصلہ کیا ہے۔

یورپی یونین کے ایک درجن ممالک کا رد عمل:

اسرائیلی حکومت کے اس فیصلے سے کئی ممالک ناراض ہیں۔ ان میں سے کچھ ممالک نے اس فیصلے کی کھل کر مخالفت کی ہے ؛ جب کہ بہت سے ممالک خاموش ہیں۔ جن ممالک نے اس فیصلہ کی کھل کر مخالفت کی ہے، ان میں یورپی یونین کے ایک درجن ممالک سر فہرست ہیں۔ وہ ممالک: جرمنی، فرانس، اٹلی، اسپین، ناروے، سویڈن، بیلجیم، ڈنمارک، فن لینڈ، آئرلینڈ، ہالینڈ اور پولینڈ ہیں۔ ان ممالک کی وزارت خارجہ کی جانب سے 28 /اکتوبر 2021 کو ایک میٹنگ منعقد کی گئی۔

پھر ان ممالک نے مشترکہ طور پر ایک بیان جاری کیا۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ ممالک مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کی جانب سے تعمیراتی کاموں کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس بیان میں اسرائیلی حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ مغربی کنارے میں مکانات کی تعمیر کے منصوبے کے اپنے فیصلے واپس لے۔ اس بیان میں مزید یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ممالک مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں، اسرائیلی حکومت کی طرف سے آبادکاری کی توسیع کی پالیسیوں کی سخت مخالفت کا اعادہ کرتے ہیں ؛ کیوں کہ اس سے جہاں ایک طرف بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے، وہیں دوسری طرف اس سے دو ریاستی حل کی کوششوں کو بھی کو نقصان پہنچتا ہے۔

امریکہ میں ایک بڑی پالیسی تبدیلی:

یہ بات قابل غور ہے کہ مغربی کنارے پر غیر قانونی نئی بستیوں کی تعمیر کے حوالے سے امریکی پالیسی گزشتہ ٹرمپ انتظامیہ کے مقابلے میں، تبدیل ہوتی نظر آ رہی ہے۔ موجودہ بائیڈن انتظامیہ نے پہلے تو گزشتہ انتظامیہ کی پالیسی سے یکسر انحراف کرتے ہوئے، 26 /اکتوبر کو وائٹ ہاؤس کی طرف جاری بیان میں یہ کہا ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے پر ، اسرائیل کی جانب سے نئی بستیوں کی تعمیر کے سلسلے میں، موجودہ انتظامیہ کو شدید فکر لاحق ہے۔

پھر امریکی امور خارجہ کے وزیر، مسٹر انٹونی بلنکن نے اسرائیل کے وزیر دفاع بینی گینٹز سے 28 /اکتوبر 2021 کو ، فون پر بات چیت بھی کی۔ امریکی وزیر نے اپنی گفتگو کے دوران شدید احتجاج کرتے ہوئے واضح لفظوں میں اسرائیلی وزیر دفاع کو کہا کہ مغربی کنارے میں مزید یہودی بستیوں کی تعمیر، امریکہ کے لیے ناقابل قبول عمل ہے ؛ اس لیے اسرائیلی حکومت اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان دونوں وزراء کے درمیان سخت جملے کا تبادلہ بھی ہوا۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکومت کے اس فیصلے سے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن کو نقصان پہنچے گا جو کہ ایک حقیقت ہے۔

موجودہ امریکی صدر مسٹر جو بائیڈن کا سیاسی تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔ اس پارٹی سے تعلق رکھنے والے بہت سے ممبران، اسرائیل کے تعلق سے وائٹ ہاؤس کی روایتی بلا شرط حمایت و تائید کی پالیسی کو پسند نہیں کرتے ہیں۔ اسی سال جون میں، ڈیموکریٹک پارٹی کے متعدد ممبران نے صدر کو خط لکھ کر ، یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ ایسی تمام اسرائیلی کارروائیوں کی مذمت کریں، جو خطے میں امن کے قیام کی کوششوں کے لیے نقصان دہ ہوں۔ یہ قدرے تسلی کی بات ہے کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کی گزشتہ ٹرمپ حکومت کے مقابلے میں، موجودہ حکومت کا موقف اس حوالے مختلف ہے۔

تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ ایک بڑی پالیسی تبدیلی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ امریکی انتظامیہ اسرائیل کے اس یہودی آبادیوں کے قیام اور اس کے اس توسیعی پروگرام کی مخالفت کر رہی ہے ؛ جب کہ ٹرمپ انتظامیہ اسرائیل کے اس طرح کسی بھی فیصلے کی کھل کر تائید و حمایت کرتی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے فلسطین کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا پورا پلان تیار کر لیا تھا اور اس کی نظر میں ”دو ریاستی حل“ کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ اس کا واضح ثبوت ٹرمپ کی طرف سے ”صدی کی ڈیل“ ہے۔ فلسطینیوں کو سلام کہ وہ کسی لالچ میں نہیں آئے، انھوں نے ہمت و جرات کا مظاہر کیا اور امریکی امداد کے روک دیے جانے پر ، ہر طرح کے مصائب کو برداشت کرنا منظور کیا؛مگر ٹرمپ کے ”صدی کی ڈیل“ کو سرے سے خارج کر دیا۔

جامعہ ازہر، مصر کا فلسطین کے لیے اپنی حمایت کا اعلان:

یہ خوشی کی بات ہے کہ عالم اسلام کی قدیم ترین درس گاہ، جامعہ ازہر، قاہرہ، مصر نے 26 /اکتوبر 2021 کو اپنے ایک بیان میں، اسرائیلی حکومت کی طرف سے مقبوضہ مغربی کنارے میں، یہودیوں کے لیے نئے مکانات کی تعمیر کی منظوری کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی اور اس فیصلے کو ایک جرم قرار دیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ بین الاقوامی قانون کے خلاف ہے۔ اسرائیلی حکومت کا یہ ایک جارحانہ اور اشتعال انگیز قدم ہے جسے فوراً روکا جانا چاہیے۔

اس سے فلسطینی علاقوں میں آبادیاتی شناخت بدل جائے گی۔ جامعہ ازہر نے فلسطینی قوم کے خلاف اسرائیلی فوج کی جارحیت کی بھی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ اس نے مہذب دنیا سے اپیل کی ہے کہ وہ ان اسرائیلی اقدامات کے خلاف اپنی خاموشی توڑے جو فلسطینیوں کو تاریک دور کی طرف لے جا رہی ہے۔ ازہر نے فلسطینی عوام کے لیے اپنی حمایت کی تجدید کا اعلان بھی کیا ہے۔

فلسطین کو ہضم کرنے کا اسرائیلی منصوبہ:

اسرائیلی حکومت کے سخت توسیع پسندانہ عزائم سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہ ”دو ریاستی حل“ (Two Nations Theory) کے حق میں بالکل نہیں ہے۔ اس کا ارادہ ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف ظلم و جبر جاری رکھا جائے، ان کی املاک کو زبردستی قبضہ کیا جائے اور ان کو مجبور کیا جائے ؛ تاکہ آج نہیں تو کل سہی؛ فلسطین کے موجودہ باشندے، دوسرے لاکھوں فلسطینی شہریوں کی طرح فلسطین سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوں اور اسرائیل پورے فلسطین کو ہضم کر جائے۔

یہی وجہ ہے کہ ظالم اسرائیلی حکومت دن بدن فلسطینیوں کے خلاف قسم قسم کا ظلم کرتی ہے۔ مگر فلسطینی باشندے خدائی نصرت و مدد کے ساتھ، بڑی جرات و شجاعت سے، ان ظالموں کے خلاف شیشہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے نظر آتے ہیں۔ ورنہ حقیقت تو یہ ہے ہر طرح کے مہلک اور عام تباہی کے ہتھیاروں سے مسلح اسرائیل کے سامنے فلسطینیوں کی کیا حیثیت!

عالمی برادری کی سرد مہری:

اس بات سے عالمی برادری بخوبی واقف ہے کہ اسرائیلی حکومت جب چاہتی ہے، فلسطینیوں کے خلاف ظلم و جبر اور دہشت گردانہ کارروائی شروع کر دیتی ہے۔ وہ صدیوں سے بسے ہوئے خاندانوں کو اجاڑ کر ، ان کی جگہ یہودی آبادکاروں کے لیے مکانات تعمیر کرتی ہے۔ مگر عالمی برادری اس غاصب ریاست کے خلاف کوئی موثر رد عمل نہیں کرپا رہی ہے۔ عالمی برادری کی سرد مہری جگ ظاہر ہے۔ ابھی مقبوضہ مغربی کنارے پر مکانات کی تعمیر کی منظوری کے حوالے سے ہی غور کیا جائے ؛ تو عالمی برادری موثر ردعمل کرنے میں ناکام نظر آ رہی ہے ؛ جب کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ اسرائیل کو اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کرتی اور اگر وہ نہیں مانتا؛ تو اس کے خلاف کچھ نہ کچھ کارروائی کی جاتی۔

عرب امن منصوبہ 2002 :

مسلم ممالک بھی اسرائیلی دہشت گردی اور توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف کوئی اقدام نہیں کر پا رہے ہیں۔ اگر ان کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے ؛ تو کم از کم ”عرب امن منصوبہ“ کے نام سے سن 2002 میں، عرب لیگ کے سربراہی اجلاس میں، جو منصوبہ منظور کیا گیا تھا، اسی کو لے کر ، ان کو آگے بڑھنا چاہیے تھا۔ عرب امن منصوبہ (یا سعودی عرب امن منصوبہ) کے تحت متحدہ عرب امارات اور بحرین (جنھوں نے بدقسمتی سے اب اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیے ہیں ) سمیت عرب لیگ میں شامل تمام ممالک نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ جب تک قضیہ فلسطین کا منصفانہ حل نہیں کر لیا جاتا، اسرائیل سے کسی قسم کے تعلقات قائم نہیں کیے جائیں گے۔ اس امن منصوبہ میں اسرائیل سے یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ فلسطین کے ان تمام مقبوضہ علاقوں کو خالی کرے جن پر اس نے 1967 کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ کے بعد قبضہ کیا تھا۔ مزید یہ کہ وہ ان علاقوں پر مشتمل ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم کرنے پر راضی ہو جائے جس کا دارالخلافہ مشرقی بیت المقدس ہو۔

اس ”عرب امن منصوبہ 2002“ کو لے کر ، مسلم ممالک آگے بڑھے اور اسرائیل پر دباؤ بنائے کہ وہ اس منصوبہ کو تسلیم کرے۔ اگر مسلم ممالک اسرائیل سے اس منصوبہ پر عمل کروانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ؛ تو اس سے بھی فلسطینیوں کو بہت حد تک ان کا حق مل جائے گا اور مسجد اقصی کی آزادی کے ساتھ ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم ہو جائے۔ پھر فلسطینیوں کو در بدر ہجرت نہیں کرنی ہوگی۔ وہ اپنے وطن میں عزت و سکون سے رہ سکیں گے۔ اگر اسرائیلی حکومت ان کے اس منصوبہ سے اتفاق نہیں کرتی ہے، فلسطینیوں کے خلاف ظلم و جبر جاری رکھتی، مقبوضہ علاقے واپس نہیں کرتی ہے اور اپنے توسیع پسندانہ عزائم سے باز نہیں آتی ؛ تو جن مسلم ممالک کے پہلے سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں یا جن ممالک نے حال ہی نام نہاد ”امن معاہدے“ کیا ہے، اسے ختم کردے اور عالمی سطح پر اس کے بائیکاٹ کی کوشش کرے۔ یہ بات سارے مسلم ممالک کو نوٹ کر لینی چاہیے کہ اسرائیل کے ساتھ خفیہ دوستی، امن معاہدے اور سفارتی تعلقات، مسجد اقصی اور قضیہ فلسطین کی کوئی خدمت نہیں ہے ؛ بلکہ مظلوم فلسطینیوں کے زخم پر نمک چھڑکنے اور قضیہ فلسطین کو دفن کرنے کے مترادف ہے۔ ⦁⦁⦁⦁


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments