پی ٹی آئی حکومت اور مہنگائی کا طوفان


پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے عوام کی زندگی اجیرن کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے کیونکہ جتنی مہنگائی اس حکومت میں ہوئی ہے اتنی کسی بھی حکومتی دور میں نہیں ہوئی ہے۔ دو ہزار اٹھارہ میں جب عمران خان کنٹینر پر کھڑے ہو کر بجلی کے بلز پھاڑتے تھے اور پیٹرول مہنگا ہونے پر وزیر اعظم چور کی کی باتیں کرتے تھے تو لگتا تھا کہ واقعی کوئی تبدیلی آئی گی، عام آدمی میں ایک امید سی جاگ اٹھی تھی کہ ہاں کوئی ہے جو عوامی باتیں کرتا ہے اور بس سال سے زائد عرصے سے اپنی جدوجہد کر رہا ہے تو شاید اس کو عوام کا دکھ ہو۔

انتخابات ہوئے جس طرح سے پورے پاکستان سے پی ٹی آئی نے ووٹ لئے اس سے اندازہ ہوا کہ جو باتیں عمران خان کنٹینر پر بیٹھ کر رہا تھا وہ محض صرف عوام کو لالی پاپ دینے کے لئے تھیں، حقیقت سے اس کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے، یہ حکومت بھی انہیں کا تسلسل ہے جو عوام کے پیسوں سے ووٹ لے کر ہمیشہ اقتداری ایوانوں میں تو بیٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں مگر عوام کے لئے نہیں سوچتے اور نا ہی ان کے معاشی حالات کے لئے کچھ کرنے کی جستجو ہوتی ہے۔

ہوتی ہے تو بس اپنی خواہشات کو پورا کرنے، مزید پاور فل ہونے کی جستجو ہوتی ہے اور آئندہ انتخابات کے لئے پیسے جمع کرنے کے لئے ہوتی ہے بس۔ عوام بیچاری وہ لولی لنگڑی اور گونگی بکری ہے جس کو جہاں کھینچو گے وہیں چل پڑے گی جیسا کہ 74 سالوں میں عوام کو لالی پاپ کھلایا جاتا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کی اس حکومت میں جتنا معاشی بحران ہوا ہے اتنا کسی حکومت میں نہیں ہوا، پیٹرول مہنگا، آٹا مہنگا، روز مرہ کی تمام ضروریات زندگی کی اشیاء اتنی مہنگی ہیں کہ عام آدمی قیمتیں سن کر خاموش ہوجاتا ہے اور یاد کرتا ہے عمران خان کی وہ تقاریر جس میں وہ عوام کو رلیف دینے اور عوام کو پاور فل کرنے کی باتیں کرتے تھے۔

پیٹرول کی قیمت اس وقت 145.67 ہو گئی ہے پاکستان کی تاریخ میں اتنی قیمت کبھی نہیں ہوئی، یہ تو پیٹرولیم مصنوعات نوٹیفیکشن کے مطابق اتنی قیمت ہوئی ہے باقی فروخت تو ایک سو سینتالیس سے ایک سو اڑتالیس روپے ہو رہا ہے پیٹرولیم مصنوعات بڑھنے سے ہر چیز پر مہنگی ہوتی ہے، دال، چاول، گندم، چینی، گھی، دودھ، سبزی تمام چیزیں جو روز مرہ میں کام آتی ہیں، کیونکہ پاکستان کی روایت رہی ہے کہ جب بھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی بڑھا دیے جاتے ہیں، پیٹرول بڑھتا نو روپے ہے اور اگر خوش قسمتی سے کم ہونے کا وقت آتا ہے تو پھر پچاسی پیسے کم کر دیے جاتے ہیں یا پھر پندرہ پیسے کم ہوتے ہیں، مگر اس کے باوجود خان صاحب فرما رہے ہیں کہ پاکستان میں اتنی مہنگائی نہیں ہوئی ہے جتنی دیگر ممالک میں ہوئی ہے۔

ہمارے پڑوس کا ہی مثال لے لیں، کچھ دن قبل انہوں نے بیس روپے فی لیٹر پیٹرول پر کمی کا اعلان کیا ہے اور اس کے برعکس پاکستان نے رات کے اندھیرے میں ایک نوٹیفیکشن جاری کیا کہ آٹھ روپے چودہ پیسے پیٹرول بڑھا دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان تیس اکتوبر کر فرماتے ہیں کہ پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا اور عین چار دن بعد پیٹرول بڑھادیا جاتا ہے۔ کیا سمجھا جائے کہ عمران خان پیٹرول کی قیمت بڑھانے اور کم کرنے جیسے معمولی اختیارات بھی خود نہیں اٹھا سکتے تو پھر ایسی پی ایم شپ کس کام کی ؟

مہنگائی نے عوام کی قمر توڑ دی ہے ہر جانب مہنگائی کی آوازیں آ رہی ہیں مختلف شہروں میں لوگ بھوک اور افلاس سے خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں اور کر رہے ہیں مگر حکومت کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے پاکستان کو اپنے تابع کر دیا ہے جیسا وہ چاہتے ہیں ویسا ہمارے حکمران کرتے ہیں مگر کوئی رلیف عوام کو دینے کا پروگرام نہیں ہے، پی ٹی آئی حکومت کے پاس اگر کوئی پروگرام ہے تو وہ صرف ہر چیز کو مہنگی سے مہنگی تر کرنا ہے باقی عوام کو رلیف دینے کا کوئی پروگرام نہیں ہے اور نا پہلے تھا بس عوام نے بیٹ پر تپا مار کر اپنے لئے موت کے کاغذ پر دستخط کئے تھے۔

عوام کی بے بسی، چیخ و پکار کا عالم پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ باقی ایک سال ہے اور اس کے بعد انتخابات کی تیاریاں شروع ہوجائیں گی مگر ہو گا کچھ نہیں یہ ہی عوام پھر سے اپنے درد بھول کر ان کو اقتدار میں لے آئی گی اور پھر سے وہ ہی چیخ و پکار شروع ہوگی کیونکہ اس چوہتر سالوں میں عوام کے ساتھ تو یہ ہی ہوتا آ رہا ہے کہ اپنے لئے نہیں حکمران طبقے کے لئے سوچو تاکہ حکمران طبقہ خوش رہ سکے، غریب عوام کو تو خوش رہنے کا کوئی حق جیسے ہے ہی نہیں۔

عوام اگر اپنا حق رائے دہی استعمال کر بھی لیتی ہے تو اس کے اس حق پر ایسا ڈاکا ڈالا جاتا ہے جو عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ پھر اتنا پیسا انتخابات میں کیوں خرچ کیا گیا ایسے ہی کہہ دیتے کہ فلاں کو اقتدار دیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments