پپو سائیں کو ڈھول ڈھمکوں سے وداع کیا گیا


پاکستان کا مشہور ترین ڈھولچی پپو سائیں پپو سائیں کا انتقال ہوا تو سوگ، غسل، کفن، کاندھا دینے اور جنازے نماز تک وہ تمام روایات پوری کی گئیں جو ہمارے سماج میں مروج ہیں۔ لاہور کے علاقہ اچھرا میں مشہور درگاہ حضرت شاہ جمال میں نماز جنازہ کے بعد پپو سائیں کے سینکڑوں شاگرد اور چاہنے والے اکٹھے ہو کر اپنے محبوب کو ایک اور شاندار انداز سے رخصت کرنے لگے۔ جنازے کے چاروں طرف پپو سائیں کے عاشق اپنے اپنے ڈھول گلے میں ڈال کر بجانے لگے۔

ان کی آنکھوں سے آنسوں رواں تھے اور ڈھول کی تھاپ پر ایک سرمستی کا عالم تھا، ہر ڈھولچی روتا بھی رہا، آنسو بہا کر چلاتا بھی رہا اور تیزی سے ڈھول بھی بجاتا رہا۔ پپو سائیں کے عاشق اس کے جنازے کے اوپر پھر پھولوں کی پتیاں اور نوٹ نچھاور کرتے رہے۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے کسی ہیرو کو سب کے سامنے پیش کیا جا رہا ہو، یا کسی عاشق کو اپنے محبوب سے ملنے سے پہلے تیار کیا جا رہا ہو۔ اس شام کے دولہے پپو سائیں تھے۔

پپو سائیں کو یہ جو خراج عقیدت پیش کیا گیا ایسا اس سماج میں پہلی بار نہیں ہوا، سچ بات یہ ہے عشق کے اس انداز کو سمجھنے کے لیے ہم کو اپنے نصاب، نظریات، سوچوں اور علم و عقل سے بہت اوپر جاکر سوچنا پڑے گا۔

لاہور کے علاقے باغبانپورہ سے تعلق رکھنے والے شہرہ آفاق ڈھول نواز پپو سائیں کا اصل نام ذوالفقار علی تھا، انہوں نے 12 سال کی عمر میں ڈھول بجانا شروع کیا۔ پہلے والد سے سیکھا پھر باقاعدہ کلاسیکل تربیت بھی لی۔

پپو سائیں بچپن سے حضرت شاہ جمال کے مرید اور عاشق تھے وہ ہر جمعرات کو دربار حضرت شاہ جمال اچھرہ میں ڈھول بجایا کرتے تھے۔ پیو سائیں نے اسی کام کو اپنی روزی روٹی سے منسلک کر دیا تھا۔ پپو سائیں پہلے ”اوور لوڈ بینڈ“ کے ساتھ بھی وابستہ رہے۔ بعد ازاں ”قلندر بیس“ کے نام سے اپنا بینڈ متعارف کروایا۔ انہیں شاندار ثقافتی خدمات پر ملک کے بڑے صدارتی ایوارڈ تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔

پپو سائیں لاہور میں تو کافی مقبول تھے، مگر ان کو شہرت بی بی سی کی ایک رپورٹ کے بعد ملی جس میں پپو سائیں کو نئے انداز کا ڈھول بجانے والے کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس کے بعد پپو سائیں نے اپنے طرز موسیقی کو برطانیہ جرمنی، سوئٹزر لینڈ، امریکہ سمیت یورپی ممالک میں بھی متعارف کروایا۔ پپو سائیں دو ماہ سے جگر کے عارضے میں مبتلا اور پی کے ایل آئی میں زیرعلاج تھے۔ انہوں نے سوگواروں میں دو بیویاں، چار بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑی ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹس اور نجی محفلوں میں پپو سائیں کے انتقال کے بعد ان کے جنازے پر ان کو ڈھول سے ساتھ خراج عقیدت پیش کرنے والے واقعہ پر مختلف باتیں ہو رہی ہیں۔

سچ یہ ہے کہ سندھ اور پنجاب میں یہ کوئی نہیں بات نہیں ہے، یہاں پر کئی شخصیات کو مرنے کے بعد سوگ کے بجائے خوشی اور جشن کے ساتھ الوداع کیا جاتا رہا ہے۔

سندھ کے شہر کندھرا میں موجود صوفی شخصیت بابا میرل فقیر جاگیرانی کے درگاہ پر ہر گدی نشین کے جنازے کے ڈھول ڈھمکوں کے ساتھ یکتارو، چپڑی اور باجے کے ساتھ پورے قصبے سے گزارا جاتا ہے۔ جنازے کو اس کے خاص خلیفے اور جانشین کاندھا دیتے ہیں، جنازے کے آگے آگے گانے والے فقیر ٹولیوں کی صورت میں چلتے چلتے باجے، ڈھول، چپڑی اور دیگر سازوں کے ساتھ صوفیانہ کلام گاتے جاتے ہیں، جبکہ باقی عام لوگ جنازے کے پیچھے پیچھے چلتے رہتے ہیں۔ کچھ وقت پہلے جب درگاہ کے گدی نشین فقیر صوفی مولائی فقیر جاگیرانی کے انتقال پر ان کے جنازے کو روایتی صوفیانہ انداز میں گاتے بجاتے قبرستان لے جایا گیا تو یہ بات اخباروں میں شہ سرخیوں کے ساتھ چھپی اور سوشل میڈیا پر اس کا خوب چرچا ہوا۔

سندھ میں اگر کسی شخصیت کا شاندار جشن والے انداز سے جنازہ نکلا ہو گا تو وہ تھرپارکر کے راجپوت راجا رانا چندر سنگھ کا جنازہ تھا۔ جس میں ہزاروں لوگوں کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ سوگ والا لباس پہننے کے بجائے بن ٹھن کر جشن والا نیا لباس پہن کر، ہار سنگھار کر کے شرکت کریں۔ رانا چندر سنگھ کی میت کو چارپائی پر لٹانے کے بجائے ایک شاہی تخت بٹھایا گیا جس پر اعلیٰ قسم کے گدے رکھے گئے اور اوپر سے سنہری رنگ کی چھتری لگائی گئی۔

اس صوفے پر رانا چندر سنگھ کی میت کو ایسے بٹھایا گیا جیسے وہ زندہ ہوں۔ رانا چندر سنگھ کے جسد خاکی کو بھی سفید کپڑے میں ڈھاکنے کے بجائے شاہی لباس آراستہ کیا گیا، ہاتھوں میں سونے کے کنگن، انگلیوں میں ہیرے کی انگوٹھیاں، گلے میں نولکھے ہار، سر پر روایتی راجپوت پگڑی پہنا کر اس پر نہایت قیمتی تاج پہنایا گیا تھا۔

رانا چندر سنگھ کا جنازہ اس شان اور جشن سے اٹھایا گیا کہ لوگ عش عش کرتے رہ گئے، تھرپارکر کے لوگ تو اپنی جگہ پوری سندھ نے ایسا جنازہ پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

یہ تو رہے وہ جنازے جو مرنے کے بعد خراج حاصل کرتے ہیں، مگر اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے ایسے بھی ہیروز گزرے ہیں جنہوں نے پھانسی کے پھندوں کو چوم کر اپنے گلوں میں ڈالا ہے، انہوں نے زندگی کو اپنے مقاصد پر قربان کرتے دیر نہیں کی۔ مخدوم شہید بلاول، جرنیل ہوش محمد شیدی شہید، دلا بھٹی، بھگت سنگھ شہید، رائے احمد خان کھرل شہید، شاہ عنایت شہید، روپلو کولہی شہید سے لے کر ایسے ہیروز سے تاریخ بھری پڑی ہے جو چاہتے تو معافی مانگ کر جان بخشی کروا سکتے تھے۔ مگر انہوں نے اندھیروں پر روشنیوں کو قربان نہیں کیا۔ یہ ہی وجہ سے ان کی مزاروں پر اس وقت بھی عرس کے مواقع پر دف، دھمال اور دھول۔ بجا کر خراج تحسین و خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔

یہ خراج اصل میں دھرتی سے جڑی روایات کا حصہ ہے، جو لوگ اس کو مذہب کی عینک سے دیکھنے اور نصابی دماغ سے سوچ کر نتیجہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کو کچھ سمجھ نہیں آتا، عشق کے اس انداز اور اس بات کو سمجھنا بہت دشوار ہے۔

ایک سندھی شاعر نے اس بات کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کاش کہ کسی کو سمجھ آ جائے۔
صوفی کے سوز ساز کو سمجھنا ہے دشوار
اس عشق کے انداز کو سمجھنا دشوار
وہ کون ہے؟ اور کون بن کر آیا ہے یہاں؟
اس درد کے دمساز کو سمجھنا ہے دشوار
وہ کون کے جو ہمارے اندر سے ہے بولتا
اللہ کے آواز کو سمجھنا ہے دشوار
ہم نے تو کر دیا ہے اپنے یار کو سجدہ ’مٹھل‘
اس عشق کی نماز کو سمجھنا ہے دشوار


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments