اقبال میرا ہمسایہ ہے


مجھے اپنے سیالکوٹی ہونے پہ فخر ہے اور اس سے بھی بڑا فخر یہ ہے کہ علامہ اقبال میرا ہمسایہ رہ چکا ہے۔ یہ الگ بات کہ مجھ سمیت ہم سارے محلے دار اس کے ایسے ہمسائے نہیں جو ہمسائے کا لال منہ دیکھ کر اپنا منہ تھپڑوں سے لال کر لیں۔ یقین کریں ہم نے اس کی پیروی کرنے کی ہرگز کوشش نہیں کی۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں وہ ایک عظیم شاعر ہے، سب چاہتے ہیں کہ اس کا نام سلامت رہے تا قیامت رہے۔ اسی واسطے اردگرد کے کسی رہنے والے نے کسی ایک بھی فرد نے شاعری میں طبع آزمائی کی کوشش نہیں کی کہ اگر خدانخواستہ اس میں کامیاب ہو گئے تو کہیں اقبال سے بڑے شاعر نہ بن جائیں۔ لہذا عقل اور ادب کا تقاضا یہی ہے کہ شاعری سے دست درازی نہ کی جائے۔

اقبال منزل جس علاقے میں ہے اس کو اقبال روڈ کہتے ہیں، لیکن اس کے گھر کے ساتھ رہنے والے مرحوم طفیل نائی نے یہ نام کبھی تسلیم نہیں کیا تھا۔ علاقہ مکینوں کے مردوں کی اکثریت کے رنڈوا ہونے کی وجہ سے اس نے اسے ہمیشہ بیوہ روڈ کہا۔ بقول اس کے اقبال خود چلے گئے لیکن یہاں کے مردوں کو بیوگی کی چادر اوڑھا گئے۔

اقبال کا گھر میرے گھر سے چند فٹ کہ فاصلے پر ہے۔ اپنی بالکونی میں بیٹھ کر چائے پیتے اکثر اقبال کی یاد ستاتی ہے کہ اگر وہ ہوتے تو ہم دونوں روز اسی بالکونی میں ایک دوسرے کو آداب کہتے۔

اقبال منزل دیکھنے کو لوگ دور دور سے آتے ہیں، نزدیک والے اس سے پرہیز کرتے ہیں۔ کبھی کبھی کوئی وزیر بھی اخبار کے لیے فوٹو بنانے آ جاتا ہے، اور جب آتا ہے تو علاقہ مکینوں کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ یہ کبھی پچھلے دروازے سے بھی اندر داخل ہوں تو انھیں گھر اور علاقہ مکینوں کی حالت کا بخوبی اندازہ ہو سکے۔ لیکن ہر بار ان کی خواہش حسرت ہی ری کہ کبھی کسی وزیر با تدبیر یا بے تدبیر نے اس کا تردد نہیں کیا۔ نو نومبر کو ادھر اتنی رونق ہوتی ہے۔ کہ پورے سال کی کسر ایک ہی دن پوری ہوجاتی ہے۔ میری ایک جاننے والی ہیں انھیں گزشتہ پچاس برسوں سے شوق تھا کہ وہ بھی دیکھیں علامہ اقبال کا گھر کیسا ہے۔ بہت سمجھایا بس ادھر سے پتھر اتار دو تو اپنے جیسے حالات ہیں ادھر بھی۔ لیکن انھیں کبھی یقین نہ آیا۔ وہ جانے پر بضد تھی وہ بھی اقبال ڈے پر۔ ہم اقبال ڈے پر اقبال منزل کے مہمان بنے۔ لائیبریری جانے کی وجہ سے میری لائیبریرین سے اچھی علیک سلیک ہو چکی ہے۔ اسی وجہ سے اس نے ہمیں دیکھ کر خاصا منہ بنایا۔ اوپر والی منزل پر پہنچے تو خارجی راستے سے نکلتے دیکھ کر سیکورٹی والے چاچا نے بھیڑ کی وجہ سے کہا کہ ’تسی وی اج ای آنا سی‘ اور ہم ہنستے ہوئے واپس آئے، کہ ہوا شوق پورا۔

خیر آپ آئیے تھوڑا اندر کا منظر دیکھتے ہیں۔ سرخ رنگ کا لکڑی کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوں تو ایک ہال نما کمرہ ہے، جس میں لائبریری آنے والوں کے لیے میز اور کرسیاں رکھی ہیں۔ اس ہال کے آخر میں داہنی طرف ایک چھوٹا کمرہ ہے، جو لائیبریری کہلاتی ہے۔ اس لائیبریری کی خاص بات کہ یہاں سے پڑھنے کو کوئی خاص کتاب کبھی نہیں ملی۔ لائیبریری ہال عبور کر کے اندر کی طرف جائیں تو سرخ اینٹوں کے فرش والا صحن ہے۔ صحن کے دائیں طرف دو کمرے ہیں۔ ایک کمرے میں اقبال کا جھولا ہے۔ پاس ہی ایک تخت رکھا ہے۔ جن پر سفید چادریں بچھی ہیں، ان چادروں پر داغ ویسے ہی موجود ہیں جیسے گھر کے مکین چھوڑ کر گئے تھے۔ اس کے ساتھ والے کمرے میں کیا ہے، یہ ایک راز ہے۔ ان دو کمروں کے ساتھ ایک تیسرا کمرہ بھی موجود ہے۔ یہاں بھی ایک تخت اور صندوق ہے۔ میں نے صندوق کھول کر دیکھا اس میں کچھ نہیں تھا۔ سب کمروں کا ایک ایک دروازہ دوسرے کمرے میں اور ایک دروازہ صحن میں کھلتا ہے۔ وزیٹرز کے گزرنے کے لیے مخصوص راستہ بنا ہے اور اس مخصوص راستے پر ایلومینیم کا ریمپ بنایا گیا ہے۔ اس گھر کا ایک دروازہ دوسری طرف ایک میدان میں کھلتا ہے۔ جہاں گرتی دیواروں کو سٹیل کے گارڈر لگا کر سہارا دیا گیا ہے۔ اوپر کو جاتی سیڑھیاں خاصی بوسیدہ ہیں۔ یہاں کیمیکل کا استعمال کیا گیا ہے۔ اوپر کی منزل خاصی ہوادار ہے اور روشن ہے۔ اور پورا گھر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے

لیکن یہ کیا سب کچھ میں نے ہی بتانا ہے؟
جس کو اقبال سے محبت ہے وہ خود آ کر دیکھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments