تحریک انصاف حکومت، دعوے اور کارکردگی


مملکت خداداد پاکستان میں سن 2018 میں انتخاب کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی۔ یہ بہت سارے زاویوں سے ایک غیر معمولی تبدیلی تھی۔ آج اس حکومت کو تین سال اور تین ماہ ہو چلے ہیں اور ماہ و سال کی گنتی جاری ہے۔ حکومتی ٹیم کے دعوے اور بیانات کو سننے کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے اور بہت جلد بڑے بڑے اعلانات متوقع ہیں۔ قوم کو یہ امید دلائی جا رہی ہے کہ جلد ہی پاکستان معاشی قوت بن کے ابھرے گا۔

وزراء اور خود جناب وزیراعظم صاحب تکرار سے یہ فرما رہے ہیں کہ معاشی ترقی کے تمام اشاریے مثبت ہیں۔ جبکہ دوسری طرف حزب مخالف کی تمام جماعتوں کا اصرار ہے کہ پاکستان کی اقتصادی اور معاشرتی نیا ڈوبنے کے قریب ہے بلکہ ڈبو دی گئی ہے۔ اور وہ تمام اس موجودہ حکومت کو ایک فاشسٹ انتظام کا نام دیتے ہیں۔ اس پیدا کردہ غیر یقینی صورت حال میں تمام تر سوالات کے، حقائق پر مبنی، اعداد و شمار کے ساتھ جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ موضوع کی طوالت کے اعتبار سے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ سارے موضوع کا ایک کالم میں احاطہ ممکن نہ ہو گا۔ کسی بھی حکومت کی کارکردگی جانچنے کے لئے رائج پیمانے، زاویہ نگاہ کی تبدیلی سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ مگر سب سے اہم زاویے درج ذیل ہو سکتے ہیں

معاشی کارکردگی
معاشرتی کارکردگی
قانونی اور انتظامی کارکردگی
اخلاقی اور سماجی کارکردگی
صحت، تعلیم و امن عامہ
اقوام عالم اور خارجی تعلقات

زاویے اور پیمانے تو اور بھی ہوسکتے ہیں لیکن اس سے موضوع بہت طویل ہو جائے گا۔ فی زمانہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ معاشی کارکردگی اور معاشی ترقی ہی کسی بھی ملک میں جاری حکومت کی کارکردگی کو جانچنے کا سب سے موثر پیمانہ ہے۔ لہذا ہم سب سے پہلے موجودہ حکومت کی معاشی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں۔

مجموعی قومی پیداوار

جون 2018 میں پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار 312 ارب ڈالر تھی۔ اور یہ پانچ اعشاریہ چھ 5.6 فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی تھی۔ یہ اگر اسی شرح سے بڑھتی تو جون 2021 تک پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار 368 ارب ڈالر ہوتی۔ لیکن بد قسمتی سے اس وقت حقیقتاً پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار کم ہو کر 280 ارب ڈالر (حکومتی اعداد و شمار) ہو چکی ہے۔ اس طرح صرف مجموعی قومی پیداوار میں 88 ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے۔ پاکستانی روپوں میں یہ نقصان لگ بھگ 15 ہزار ارب روپے کا ہے۔ پاکستان کی فی کس سالانہ آمدنی تقریباً 1200 ڈالر ہے۔ اس حساب سے صرف اور صرف مجموعی قومی پیداوار میں کمی کا نقصان لگ بھگ سات کروڑ پاکستانیوں کو مکمل ایک سال کے لئے بے روزگار کرنے کے مترادف ہے۔

مجموعی بیرونی قرضہ

جون 2018 میں پاکستان کا مجموعی بیرونی قرضہ 91 ارب ڈالر تھا جو کے اب بڑھ کر 121 ارب ڈالر ہو گیا ہے۔ اس طرح مجموعی بیرونی قرض میں تقریباً 30 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی اور اضافی قرض کی وجہ سے اضافی بوجھ جو قوم پر پڑا ہے وہ لگ بھگ ساڑھے تیرہ ہزار ارب روپے ہے۔ مجموعی قومی پیداوار میں کمی کا نقصان، روپے کی قدر میں کمی اور اضافی قرض کی وجہ سے بیرونی قرض میں اضافے کو اگر ہم ملا لیتے ہیں تو یہ قومی نقصان لگ بھگ 28 ہزار 570 ارب روپے بنتا ہے۔

اشیائے ضرورت کی دستیابی اور قیمتیں

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق سن 2020 میں تقریباً ساڑھے چھے کروڑ پاکستانی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے تھے۔ موجودہ بے روزگاری اور کمر توڑ مہنگائی کی وجہ سے تقریباً دو ( 2 ) کروڑ مزید پاکستانی خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔ اور اگر کم آمدنی والے متوسط طبقے کو بھی اس میں شامل کر لیا جائے تو یہ تقریباً سوا 14 کروڑ ہو جاتی ہے۔ بلاشبہ یہ غربا اور متوسط طبقے کا ہی ملک ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں اشیائے ضرورت کی بلا تعطل اور مناسب قیمتوں پر دستیابی کسی بھی حکومت کی سب سے اولین ذمہ داری اور کارکردگی جانچنے کا سب سے موثر پیمانہ ہوتا ہے۔

جون 2018 میں آٹا 32 روپے کلو تھا جو آج 73 روپے کلو ہے اس طرح آٹے کی قیمت میں 129 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ چینی 2018 میں 52 روپے کلو تھی جو آج 145 روپے کلو پر بھی دستیاب نہیں ہے۔ اس طرح چینی کی قیمت میں ایک سو اسی 180 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پٹرول 2018 میں 70 روپے لٹر تھا جو آج ایک سو چھیا لیس 146 روپے لیٹر ہے مگر جناب وزیر خزانہ صاحب نے فرما یا ہے کہ پٹرول مزید مہنگا کرنا پڑے گا۔ گھریلو بجلی 2018 میں صارفین کے لئے دس 10 روپے یونٹ تھی جو آج 24 روپے فی یونٹ ہے۔

ڈالڈا گھی اور کھانے کا تیل 2018 میں 170 روپے کلو تھا جو آج 409 روپے کلو ہے۔ تمام طرح کی دالیں، اجناس اور سبزیاں دو گنا سے بھی زیادہ مہنگا ہونے کی وجہ سے عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔ بجلی کے بل اوسطاً 100 سے 150 فیصد بڑھ گئے ہیں جبکہ گیس کی قیمت لگ بھگ 400 فیصد بڑھ گئی ہے اور ایل این جی یعنی سلنڈر گیس 220 روپے کلو ہے مگر گیس دستیاب نہیں ہے۔ اسی طرح تمام ادویات کی قیمتیں 100 فیصد سے 542 فیصد تک بڑھا دی گئی ہیں۔ روزمرہ اشیاء اور بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی کے ساتھ ساتھ ان کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ موجودہ حکومت کے لیے سب سے بڑا اور سب سے مشکل امتحان ہے۔

محمد سجاد آہیر xxx

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد سجاد آہیر xxx

محمد سجاد آ ہیر تعلیم، تدریس اور تحقیق کے شعبے سے ہیں۔ سوچنے، اور سوال کرنے کا عارضہ لاحق ہے۔ بیماری پرانی مرض لاعلاج اور پرہیز سے بیزاری ہے۔ غلام قوموں کی آزادیوں کے خواب دیکھتے اور دکھاتے ہیں۔

muhammad-sajjad-aheer has 38 posts and counting.See all posts by muhammad-sajjad-aheer

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments