بلوچستان کے لئے بڑھتے ہوئے ماحولیاتی خطرات


ایک ایسے موڑ پر جب صوبہ غربت، بیروزگاری، مہنگائی، موسمیاتی تبدیلیوں اور معاشی کمزوریوں کی لپیٹ میں ہے ماحولیاتی خطرات نے لوگوں کی زندگیوں کو اپنے شکنجے میں لے رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے ایک طرف خطرناک بیماریاں جنم لی رہی ہے تو دوسری طرف لوگوں کے ذریعہ معاش پر بھی اثر پڑ رہا ہے۔

صوبائی حکومت قواعد و ضوابط کی منظوری میں اگرچہ تیزی سے کام کر رہی ہے جبکہ عمل درآمد میں سست ہے۔ بلوچستان ماحولیاتی تحفظ ایجنسی نے پاکستان ماحولیاتی ایکٹ 1997 کے تحت کام کرنا شروع کیا تھا۔ اس کے بعد سے، صوبائی حکومتوں نے درجنوں ایکٹ نافذ کیے ہیں جیسے کہ بلوچستان ماحولیاتی تحفظ (موٹر وہیکل) رولز 2020، بلوچستان کا ماحولیاتی معیار مائع کے علاج اور بائیو کیمیکل فضلے کو جلانے کے، آٹو کلیونگ، مائیکرو ویونگ، اے ایم ڈی ڈیپ بریری رولز 2020، بلوچستان خطرناک مادہ قاعدہ 2020، بلوچستان ماحولیاتی تحفظ (پولٹری) رولز 2020، اور سب سے اہم بلوچستان انوائرنمنٹ پروٹیکشن ایکٹ 2012 تھا۔ جو کہ بدقسمتی سے صرف کاغذات تک محدود ہیں۔ اگر ان پر حقیقی روح کے ساتھ عمل درآمد کیا جائے تو ماحولیاتی مسائل سے موثر طریقے سے نمٹا جا سکتا ہے۔

پانی کولیفارم بیکٹیریا، زہریلی دھاتوں اور کیڑے مار ادویات سے آلودہ ہو رہا ہے جو کہ مختلف بیماریوں جیسے الرجی، تپ دق، ہیپاٹائٹس، گیسٹرو اینٹرائٹس، اور آنتوں کے کیڑے کی ایک بڑی وجہ بن رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کوئٹہ میں 7 سے 8 سو میٹرک ٹن کچرا اٹھایا جاتا ہے جسے ری سائیکلنگ کے بغیر شہر کے نواحی علاقوں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ کچرے کو تلف کرنے کے جگہوں کی کمی، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ، اور ہسپتالوں کے فضلے کی تلف کرنے کے انتظام کی عدم موجودگی اور خراب طرز حکمرانی کی وجہ سے آلودگی کے سنگین مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

صوبے میں ہوا کے معیار کا پیمانہ خطرناک سطح پر ہے۔ 2010 میں IUCN (انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر) نے خبردار کیا تھا کہ کوئٹہ میں ہوا کے معیار کا انڈیکس خطرناک سطح پر پہنچ گیا ہے۔ بلوچستان کے ماحولیاتی تحفظ کے ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق کوئٹہ میں 30 کرشنگ پلانٹس ہیں جو کہ شہر میں فضائی آلودگی کا ایک بڑا عنصر ہیں۔ مزید برآں، صوبے میں اینٹوں کے سیکڑوں بھٹیاں بغیر قواعد و ضوابط کے کام کر رہے ہیں، جو انتہائی تیز رفتاری سے ہوا کو آلودہ کر رہے ہیں۔

محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن بلوچستان کے مطابق کوئٹہ میں 2004 میں 99320 گاڑیاں تھیں جو کہ 2018 میں 496646 تک پہنچ گئی۔ اس ہوش ربا اضافے نے ماحولیات کو دو گنا نقصان پہنچا ہے ایک طرف یہ گاڑیاں فضائی آلودگی کا سبب بن رہی ہیں تو دوسری طرف شور کی آلودگی میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ سائنس پبلشنگ گروپ کے مطابق کوئٹہ میں شور کی آواز 93 ڈی بی اے تک پہنچ گئی ہے جو پہلے ہی ڈبلیو ایچ او کی مقررہ حد کو عبور کر چکی ہے جو کہ دن کے وقت 65 ڈی بی اے ہے۔

جنگلات ماحولیاتی خطرات کے خلاف ایک اچھا ہتھیار رہا ہے۔ ایف اے او کے مطابق صوبے کا صرف 1.7 فیصد رقبہ جنگلات سے ڈھکا ہوا ہے جو کہ بین الاقوامی معیار سے کم ہے۔ جب کہ دوسری طرف صوبے میں بغیر کسی سرکاری جانچ کے جنگلات کی کٹائی اپنے عروج پر ہے۔ زیارت، ژوب، خضدار اور صوبے کے دیگر علاقوں میں کئی وجوہات کی بنا پر ہزاروں کی تعداد میں درخت کاٹ دے گئے ہیں۔

ماحولیاتی نظام کا تحفظ اور حیاتیاتی تنوع پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ٹریفک ہارن کے مسلے پر ایک جامع گورننس سسٹم، ایک مضبوط شہری منصوبہ بندی، زیگ زیگ بھٹیوں کی تعمیر، جس سے کاربن کے اخراج کو 70 سے 90 فیصد تک کم کیا جا سکتا ہے، جنگلات کی حفاظت، درخت لگانے کے خصوصی حوالے سے آگاہی مہم شروع کرنا، او ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے اقدامات کرنے سے صوبے میں ماحولیاتی خطرات کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ صوبائی حکومتوں کی جانب سے جو قواعد و ضوابط وضع کیے گئے ہیں ان کا نفاذ ایک مضبوط گورننگ سسٹم کے ذریعے کیا جائے۔

ایک ایسے وقت میں جب موسمیاتی تبدیلی صوبے کے ہر دروازے پر دستک دے رہی ہے، جہاں پانی کی کمی صوبے کے ماحولیاتی نظام کو خطرناک حد تک متاثر کر رہی ہے، وہیں صوبے کے زراعت اور لائیو سٹاک کے شعبے۔ جو تقریباً دو تہائی آبادی کی زندگی گزارنے کی شہ رگ ہیں۔ آبادی اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے پہلے ہی متاثر ہو رہی ہے۔ ماحولیاتی خطرات صوبے کے باسیوں کی زندگیوں کو مزید تباہ کر دیں گے۔ اب بھی ہوش سے خام لینے کا وقت ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ سیاسی رہنماؤں کو بحرانوں کی شدت کو محسوس کرنا چاہیے اور صوبے میں ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے اتفاق رائے پر مبنی نقطہ نظر کے لیے اکٹھے بیٹھنا چاہیے۔ اس حوالے سے رکن صوبائی اسمبلی جناب نصراللہ خان زیرے کی قرارداد سیاسی قائدین کے اتحاد کے لیے اہم موڑ ثابت ہو سکتی ہے۔ جو انہوں نے کوئٹہ شہر کے اسپنی روڈ، سمنگلی سڑکوں اور شہر کے آس پاس کے علاقے میں مضر صحت پانی کے ذریعے سبزیوں کی کاشت کے حوالے سے صوبائی اسمبلی میں پیش کی تھی۔

اسپنی۔ حالانکہ اس بل کو اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کر لیا تھا جس پر حقیقی روح کے ساتھ عمل درآمد ہونا چاہیے تھا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے، کہ صوبائی اور ضلعی انتظامیہ قرارداد پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہی ہے، جو کہ ماحولیاتی قوانین اور ایکٹ کے حوالے سے بڑے طرز حکمرانی کی صرف ایک مثال ہے۔ لہذا وقت کا تقاضا ہے کہ اچھی طرز حکمرانی کو زینہ بنا کر اس مسلے سے نمٹا جائے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments