والدین ہی رہیں، خدا نہ بنیں


اگر آپ کا بچہ آپ کا مکمل فرمانبردار ہے، اگر آپ کا بچہ آپ کی حکم عدولی کا تصور نہیں کر سکتا، اگر آپ اپنے بچے کو آنکھوں ہی آنکھوں میں متنبہ کرتے ہیں اور وہ آپ کا اشارہ ابرو سمجھ کر متنبہ ہوجاتا ہے تو مبارک ہو آپ اپنی اولاد کو خوفزدہ کر کے اس کی روح فنا کر لینے میں کامیاب ہوچکے ہیں، آپ کامیاب ہوچکے ہیں اس کو ذہنی طور پر مفلوج کر لینے میں، آپ اپنی اولاد کو عزت و احترام کے نام پر غلام بنانے میں کامیاب ہوچکے ہیں، آپ فرمانبرداری کا خوش کن نام دے کر خدا کے بندے کو اپنا بندہ بنانے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔

اگر آپ کا بچہ آپ کے احکامات بلا چوں و چراں بجا لانا سعادت سمجھتا ہے، اگر آپ کا بچہ آپ کو مقدس سمجھتا ہے، اگر آپ کی اولاد کے اذہان میں یہ بات راسخ ہے کہ اماں / ابا (والدین) کی حکم عدولی گناہ ہے، اگر آپ کی اولاد کو یہ ذہن نشین کرایا گیا ہے کہ والدین کی ناراضگی خدا کی ناراضگی ہے تو مبارک ہو آپ تقدیس کے لبادے میں اپنی خامیاں چھپا کر اپنی اولاد کی شخصیت تباہ کرنے اور ان کی انفرادیت کا گلا گھونٹنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔

ذرا سی تفصیل ملاحظہ کیجئے اس صورت میں والدین کی ناراضگی خدا کی ناراضگی ٹھہری۔ ظاہر ہے خدا کی ناراضگی کا مطلب جہنم ہے یعنی بالفاظ دیگر آپ کی نافرمانی کا مطلب آگ میں جلنا، خون اور پیپ پینا، سانپوں اژدھے اور بچوؤں کا ڈسنا ہوا۔ اور اس سے بچاؤ کا ایک ہی راستہ ہے آپ / والدین کو مقدس سمجھنا، والدین کتنے ہی بڑے جاہل کیوں نہ ہوں کفر کے علاوہ ان کے ہر حرف کو حرف آخر سمجھتے ہوئے آمنا و صدقنا کہنا، والدین کتنے ہی خود غرض۔

حریص اور لالچی کیوں نہ ہوں ان کے ہر با معنی و بے معنی حکم کے آگے سر تسلیم خم کرنا لازم ہے بصورت نافرمانی خدا ناراض۔ خدا ناراض معنیٰ جہنم۔ اگر کوئی اس طرح سے تقدیس کے خطوط پر بچوں کی ذہن سازی کرتا ہے تو بچے تو معصوم ہیں وہ اسی طرح ڈھل جائیں گے خدا اور رسول کے بعد والدین کا ہی ان کے ذہن میں نہ صرف مقام بن جائے گا بلکہ وہ بلا چوں و چرا ان کے ہر حرف کو حکم مان کر تعمیل بھی کریں گے مگر ان کی شخصیت مسخ ہو کر رہ جائے گی ان کی سچے جذبات پاکیزہ احساسات جو والدین جیسے مقرب رشتے کے حضور میں ظہور پذیر ہونے تھے دب کر، گھٹ کر رہ جائیں گے اور بچے تاعمر انجانے گھٹن میں مبتلا ہوں گے اور انجانے گھٹن کی یہ گتھی کبھی نہ کسی کو سمجھ آئے گی نہ کوئی اس کو سلجھا سکے گا یہ بچے اس گھٹن کی وجہ سے نہ صرف پوری زندگی ایک انجانے قفس میں محبوس محسوس کریں گے، بلکہ ان کے اظہار کی صلاحیت بھی برے طریقے سے قطع ہوگی۔ آپ مقدس بھی ہوجائیں گے، خدمت بھی ہوگی، احترام بھی ملے گا، (بے وقت) ذمہ داری بھی یہی اولاد اٹھا لے گی، آپ کے احساس تفاخر کو بھی تسکین ملے گی۔ مگر۔ افسوس اولاد آدھی ادھوری رہ جائے گی۔ وہ مکمل طور پر جی ہی نہیں پائیں گے کہ وہ تو تقدیس کے شکنجے میں آپ کا بوجھ ڈھو رہے ہوں گے۔

اسی طرح اگر آپ کا بچہ / اولاد احسان مند ہیں کہ آپ نے انہیں پیدا کیا۔ ماں کی صورت میں ان کو مہینوں پیٹ میں رکھا، دودھ پلایا، پرورش کی، راتوں کو اٹھ اٹھ کر اپنی نیند حرام کی، اپنی خوشیاں اور آرام قربان کیا جبکہ باپ کی صورت میں دنیا کے سرد و گرم سہ کر ان کے نان نفقہ کا بندوبست کیا، اپنی جان کی قیمت پر ٹھکانہ فراہم کیا، جوانی قربان کر دی اولاد کو آرام پہنچانے کے لئے۔ دونوں (ماں باپ) نے اپنی اپنی جگہ بے تحاشا قربانیاں دی ہیں اولاد کے لئے۔

اگر آپ / والدین نے اپنے بچے / اولاد کو اپنی ایسی اور اس جیسی دوسری قربانیاں بتائی اور جتائی ہیں کسی بھی طریقہ سے ڈائریکٹ خود یا کسی اور کے ذریعے، کسی موٹیویشنل سپیکر، استاد، قاری صاحب، ماموں، چچا، خالہ، پھوپھی کے ذریعے ان تک یہ بات یہ احساس پہنچا یا ہے کہ خیر سے ان کو پیدا کرنے اور پرورش کرنے میں آپ نے بہت جوکھم سہے ہیں، یہ سب جتلا کر انہیں احسان تلے روندا ہے اور اب آپ کی اولاد کی آنکھوں میں اتنی حیا ہے کہ وہ آپ کا لحاظ کرتے ہیں، اب وہ احسان مندی کے احساس تلے اپنی پسند آپ کی پسند پر قربان کرتے ہیں، اب آپ کے مرغوب کام کر کے آپ کو خوش دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، ہر اس کام سے احتراز برتتے ہیں جو آپ کو ناگوار ہے، اب آپ کے بچے آپ کے احسانات کا احساس کرتے ہوئے (آپ کی تعریف کے مطابق) اچھے اور فرمانبردار بچے ہیں اور آپ کو ان پر فخر ہوتا ہے۔

تو جناب والا میں ناچیز ایک دفعہ پھر عرض کرنے کی جسارت کرتا ہوں کہ ایک بار پھر آپ کو مبارک ہو آپ اپنے بچے کو خوب تباہ کر چکے ہیں، آپ اپنے بچے کی شخصیت کو دشمنوں سے بڑھ کر اچھے سے مسخ کر چکے ہیں، آپ اپنے بچے کی فیصلہ کرنے کی قوت، انتخاب کرنے کی صلاحیت اور خود اعتمادی کو خوب تسلی اور تسلسل سے تباہ کر چکے ہیں۔ آپ اپنے بچے کے ’پر‘ جو خداوند کریم نے اسے اڑنے کے لئے عطا کیے تھے وہ آپ بڑی مہارت سے کاٹ چکے ہیں، اب یہ آپ کا پیارا پالتو پرندہ ہے جو کسی پرواز کے قابل نہیں رہا۔ یہ اب محض آپ کے دست مبارک سے دانہ چگے گا اور تاعمر آپ کا مقید و آبھاری ہو گا۔

ہمارے ہاں یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ والدین اپنی اولاد کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں، والدین یہ تصور نہیں کر سکتے کہ یہ ایک الگ علیحدہ مکمل انسان ہے (خاص کر بچوں کی نوعمری میں ) ، والدین یہ بات ہضم نہیں کر پاتے کہ ان کے اولاد کی اپنی علیحدہ شناخت و شخصیت ہے، ان کا اپنا بھی کوئی مزاج ہو سکتا ہے۔ والدین سمجھتے ہیں کہ چونکہ انہوں نے اولاد کی نسبت دنیا ء رنگ و بو میں چند دن زیادہ گزارے ہیں (بے شک سیکھا کچھ نہ ہو) اس لئے وہ بہت بہتر سمجھتے ہیں کہ اولاد کو کیا کرنا چاہیے، والدین کے لاشعور میں یہ بات ہوتی ہے کہ چونکہ اولاد کو اس دنیا میں لانے کا سبب وہ ہیں اس لئے انہیں نہ صرف ہر طرح کی فضیلت حاصل ہے بلکہ اولاد کی زندگی کا ہر فیصلہ کرنے کا اختیار بھی حاصل ہے۔

اس زعم، غلط فہمی اور فکری خناس کی وجہ سے والدین بچوں کے ذات کی مکمل نفی کر کے اپنی آدھی ادھوری عقل سے، اپنی تشنہ تکمیل خواہشات کے زیر اثر، اپنی محرومیوں ناکامیوں کے زیر اثر یا کامیابی کے افتخار میں، اپنے تلخ تجربات کی تلخیوں کے زیر اثر اور زمانے کی دست برد کی وجہ سے اپنے انتہائی غلط تشکیل شدہ مزاج کے مطابق زبردستی بچے کو ڈھالتے ہیں ایک لمحہ بھی یہ سوچے بنا کہ بچے کی شخصیت کے کیا تقاضے ہیں، اس کا مزاج کیسا ہے، اس کی پسند نا پسند کیا ہے، اس کی ذات، اس کا من۔

اندر کیا ہے۔ اول تو والدین بچے کے جداگانہ تشخص کو پنپنے نہیں دیتے مگر وقت تو اپنا کام کرتا ہے وقت بچے کے جذبات، احساسات، سمجھ بوجھ، نقطہ نظر، رائے، ذات، اندر اور باہر، چیزوں کو دیکھنے اور سمجھنے کا ڈھنگ (اچھا۔ برا) سکھا دیتا ہے، تب بچے کے ذات کی نفی اس طرح سے کرتے ہیں کہ اولاد کو تسلیم نہیں کرتے بحیثیت ایک وجود کے (اس کے اپنے نفسیاتی پہلو ہیں جس میں عدم تحفظ سے لے کر، انا، کم فہمی وغیرہ شامل ہیں ) والدین بچوں کو پال پوس کر بڑا ضرور کریں گے، تعلیم دلوائیں گے، اخراجات برداشت کریں گے، پیار کریں گے، منہ کا نوالہ دیں گے مگر تسلیم کبھی نہیں کریں گے برابر کی حیثیت اور عزت کبھی نہیں دیں گے، مشورہ کے قابل ہونے پر بھی مشاورت کے قابل نہیں سمجھیں گے۔

ایک اور پہلو یہ ہے کہ والدین بچوں کے بڑا ہونے پر بھی انہیں بچہ تصور کریں گے (یہ بات فخریہ کی جاتی ہے کہ بچے چاہے کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں والدین کے لئے ہمیشہ بچے ہی رہتے ہیں اگرچہ یہ انتہائی غلط تصور ہے ) بچوں کے بڑا ہو جانے اور والدین کے بوڑھا ہو جانے پر ریٹائرمنٹ لینے کے لئے کبھی تیار نہیں ہوں گے۔ والد کبھی بھی بخوشی بیٹوں کو ایسا نہیں کہیں گے کہ آج کے بعد خاندان، گھر اور معاملات تمھارے حوالے ہیں اور میں ریٹائرڈ زندگی گزاروں گا اور صرف سپرویژن کروں گا۔

نہ۔ خدا کا بندہ ایسا کبھی نہیں کرے گا، بلکہ ان سے ہو نہ ہو، عمر رسیدگی کی وجہ سے غیر درست فیصلے کریں گے، معاملات بنانے کی بجائے بگاڑیں گے مگر (گھر کے مختصر ترین) اقتدار سے ہر صورت چمٹے رہیں گے پھر چاہے کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو رہا ہو کتنی ہی زندگیاں تباہ کیوں نہ ہو رہی ہوں یہی صورتحال ماؤں کی ہے وہ کتنی ہی عمر رسیدہ کیوں نہ ہوں، اعصاب ساتھ دیں نہ دیں مگر انہوں نے اقتدار اپنے پاس رکھنا ہے ان کی نظر میں بیٹی اور بہو (چاہے جتنی بھی لائق ہوں ) کبھی بھی گھر کو درست طور پر چلانے کے قابل نہیں ہوں گی (گھریلو ناچاقی، تلخیاں، زندگیاں اجیرن ہونا، طلاقیں، چولہے پھٹنے کے واقعات اسی ہٹ دھرمی اور انانیت ہی کا شاخسانہ ہوتیں ہیں ) ۔

یاد رکھیں کہ ایک وجود کو جب خداوند عظیم الشان نے آپ کے وجود سے وجود بخشا تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ وہ آپ کی ملکیت ہے، آپ اپنے اولاد کی پرورش کر رہے ہیں تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اب وہ آپ کا زرخرید غلام ہے، آپ اپنے اولاد کی تعلیم و تربیت کے لئے دن رات ایک کر رہے ہیں، کھپ رہے ہیں تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اب آپ کو اختیار حاصل ہو گیا کہ آپ دل کھول کر نہ صرف ان کے ذات کی نفی کریں بلکہ پورا زور لگا کر انہیں اپنے ذہنی سانچے کے مطابق ڈھالنے کے لئے ان کے شخصیت کو خوب مسخ کریں۔

نہیں ایسا کوئی بھی لائسنس کسی بھی والدین کو کسی بھی صورت عطا نہیں ہوتا۔

خدا را اپنی اولاد کو فرمانبردار اور تابعدار بنانے، اپنی نا آسودہ خواہشات کی تکمیل ان کے ذریعے کرنے، معاشرے میں خود کو کامیاب اور احسن ثابت کرنے کے چکر میں اولاد کے ذات کی نفی نہ کریں ان کی شخصیت کو مسخ نہ کریں۔ والدین بن کر رہنمائی ضرور کریں مگر خدا بن کر اولاد کو اشارہ ابرو پر چلانے کی کوشش ہر گز نہ کریں۔ ممکن ہے کہ آپ ملکیت اور حاکمیت کے نا آسودہ خواہشات کے مارے ہوں مگر اپنے ان ناآسودہ خواہشات کو اولاد کی زندگیوں کو داؤ پر لگا کر پورا کرنے کی غلطی نہ کریں۔

بچوں کی حفاظت، پرورش، تعلیم، تربیت والدین کا فرض ہے اپنا فرض ضرور نبھائیں بطریق احسن نبھائیں۔ اس کی مناہی نہیں۔ مناہی ہے تو خدا بننے کی، مالک بننے کی ہے۔ بچوں کو بھلے برے کی تمیز ضرور سکھائیں مگر انہیں اپنے تجربات بھی ضرور کرنے دیں، درست انتخاب کا گر ضرور بتائیں مگر حق نہ چھینیں، جملہ فیصلوں کے ممکنہ نتائج سے ضرور آگاہ کریں مگر اپنا فیصلہ آپ کرنے کے حق سے محروم نہ کریں، نفع و نقصان کی نشاندہی ضرور کریں ذاتی آزمائش کا دروازہ بند نہ کریں، غلطی پر تنبیہ ضرور کریں مگر غلطی کو گلے کا طوق نہ بنائیں، ایک یا چند غلطیوں کی بنیاد پر ہمیشہ کے لئے ہر کام کے حقوق سلب نہ کریں۔

والدین بچوں کی پرورش، تعلیم، تربیت کچھ ایسی ذہنیت کے ساتھ کریں کہ تم نے غلط کیا چھوڑ دو، کی بجائے، دوسری کوشش کر کے دیکھ لو۔ تم نہیں کر سکتے، کی بجائے، تم ہی تو کر سکتے ہو۔ تم جیسا پھوہڑ، نالائق اور سست کہیں نہیں دیکھا، کی بجائے، تم جیسا ڈسپلنڈ، قابل اور مستعد اور کون ہو سکتا ہے۔ خدا جانے یہ کچھ بن بھی پائے گا کہ نہیں، کی بجائے، یہی تو بن کے دکھائے گا۔ میرا بچہ میرے خواب پورے کرے گا، کی بجائے، میرا بچہ اپنے خواب پورے کرے گا۔ میرا بچہ عین میرے کہنے کے مطابق کام کرتا ہے، کی بجائے، میرا بچہ کاموں کو اپنے ڈھنگ سے کرنے کی سعی کرتا ہے۔

میرا بچہ بہت زیادہ غلطیاں کرتا ہے، کی بجائے، میرا بچہ بہت زیادہ تجربات کرتا ہے۔ میرا بچہ پوچھ پوچھ کے ناک میں دم کر دیتا ہے میں ڈپٹ کے خاموش کر دیتا / دیتی ہوں، کی بجائے، میرا بچہ بہت متجسس ہے میں بہت سکون سے تسلی بخش جواب دیتا / دیتی ہوں۔ میرے بچے بڑے ہو گئے اب مجھ سے اختیار ہتھیانا چاہتے ہیں، کی بجائے، میرے بچے بڑے اور باشعور ہو گئے ہیں میں اپنے اختیارات انہیں تفویض کر کے سکون کی ریٹائرڈ زندگی کی طرف جانا چاہتا ہوں۔ میرے بچے بڑے ہو کر ہاتھ سے نکل گئے، کی بجائے، میں نے بچوں کو ان کے بنیادی حقوق دے کر انہیں اپنے طور پر جینے کا موقع فراہم کیا۔

یاد رکھیں۔ والدین اولاد کی پہلی محبت ہوتے ہیں، پہلے آئیڈیل ہوتے ہیں بلکہ اگر اس حد تک کہوں کہ والدین اولاد کے ایمان و یقین کا حصہ ہوتے ہیں تو غلط نہیں ہو گا مگر انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ والدین کی غلط پالیسیاں، غلط اقدامات، خودغرضیاں، نا انصافیاں۔ اولاد کی معصومیت اور ناسمجھی، کمزوری، ان کی غیر مشروط محبت، اندھا اعتماد، مکمل تسلیم و رضا، اور تابعداری کا غلط استعمال جب اولاد کو بڑا ہونے پر سمجھ آجاتی ہے تو نہ صرف وہ والدین سے نفرت کرنے لگتے ہیں بلکہ ردعمل کے طور پر وہ ایسے اقدامات کے محرک بن جاتے ہیں جو نافرمانی، ظلم اور زیادتی کے زمرے میں آتے ہیں اور پھر رونا رویا جاتا ہے ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے ہمدردی سمیٹی جاتی ہے کہ اولاد نے والدین کو بے توقیر کر دیا یہ ظلم ڈھا دیا وہ ظلم ڈھا دیا جبکہ دراصل یہ شاخسانہ ہوتے ہیں ان پر ڈھائے گئے ظلم کا، ان کی گئی نفی اور تذلیل کا۔

اپنے اور اپنی اولاد کے بہترین باہمی مفاد میں والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کو انسان سمجھیں، ان کی ذات کو پنپنے دیں، ان کی شخصیت کو تعمیر ہونے دیں، ان کی انفرادیت کو بننے اور سنورنے دیں، ان کی عزت کریں، ان کی عزت نفس کا خیال رکھیں، ان کو ہمیشہ ان کا جائز مقام و مرتبہ دیں، خوف زدہ کر کے، عزت و احترام کے نام پر، تقدیس کے نام پر، احسانات کے شکنجے میں دبوچ کر ان کے حقوق سلب نہ کریں، ان کے پر کاٹ کر انہیں اپنے پالتو پرندے نہ بنائیں، مجبور محض اور غلام نہ بنائیں۔ آپ اپنی اولاد کے والدین ہیں۔ والدین ہی رہیں، خدا نہ بنیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments