انسانیت کیا ہے؟


انسان کو مختلف دانشور اور فلسفی مختلف انداز میں بیان کرتے ہیں۔ انسان اور دیگر جانوروں میں بنیادی فرق شعور اور ذہن کا ہے۔ انسان سب ایک جیسے ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک جیسا بنایا ہے، سب کی ضروریات ایک جیسی ہیں اور سب کی اوصاف بھی ایک جیسی ہیں۔

تہذیب و تمدن کی ابتدا میں انسان اس بات کو نظرانداز کرتا تھا، وہ اپنی طاقت اور قوت کے زور پر ایک دوسرے کو مات دینے کی خواہش رکھتا تھا۔ نتیجہ یہ نکلتا کہ ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ ۔ یعنی طاقتور خود کو کمزور سے بالاتر تصور کرتا تھا اور اس طرح لوگوں کو غلام بنانے کے تصور نے بھی جنم لیا۔

جب بھی کبھی انسانیت طبقات اور ذات پات میں تقسیم ہونے لگی انسانی کردار اور رویے فنا ہونے لگے تب اللہ تبارک و تعالی نے اپنے خاص اور ہدایت یافتہ بندوں کو انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے بھیجا۔ اللہ تعالی کے ان مقرب و محترم، پاکیزہ نفوس نے بھی انسانوں کو اس بات کی تعلیم دی کہ انسان ایک ہیں، ایک جیسے ہیں اور انہیں ایک دوسرے سے مثبت برتاؤ رکھنا چاہیے۔

جس طرح اسلام نے یہ درس دیا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ایک ہے اسی طرح اسلام کی تعلیمات میں یہ بھی ہے کہ سارے انسان مٹی سے پیدا کیے گئے ان میں نہ گورے کو فضیلت ہے کالے پر اور نہ عربی و عجمی کو ایک دوسرے پر فضیلت ہے۔ قرآن حکیم انسانی اقدار کے دروس سے بھرا ہوا ہے، قرآن حکیم میں سورہ لقمان میں بھی اللہ تبارک و تعالی نے حضرت لقمان علیہ السلام کے قصہ کا ذکر فرمایا جنہوں نے اپنے فرزند کو شرک، غرور سے بچنے اور انسانیت کی درس دی۔

تمام انسان یکساں ہے مگر اللہ تعالی انسانوں کی آزمائش کے لیے ان میں سے کسی کو ظاہری طاقتور کسی کو کمزور، کسی کو عالم کسی کو جاہل، کسی کو صحت مند کسی کو بیمار، کسی کو سرگرم کسی کو کاہل بناتا ہے۔ ایسی صورت حال میں اچھا انسان بلکہ حقیقی انسان وہ ہے جو نفرت سے دور رہے، تکبر اور غرور سے پاک رہے۔ انسانیت تو یہ ہے کہ امیر غریب سے اور سمجھ دار نا سمجھ سے ہمدردی رکھے اور ان کی مدد کرے۔

انسانیت تب قائم رہ سکتی ہے جب ہم ایک دوسرے کو اپنے برابر کا انسان تصور کریں گے۔ اپنے دل سے اپنے دوسرے بھائی کے لیے بغض، حسد اور نفرت کو باہر نکال پھینکیں کے۔ ایک دوسرے کے جذبات اور احساسات کا احترام کریں گے۔

نفرت، حقارت، غرور اور تکبر انسان کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ یہ چیزیں انسانی تقسیم کا باعث ہیں۔ اس سے یہ ہوتا ہے ایک طبقے کو دنیا کی تمام سہولیات میسر آتی ہیں تو دوسرا شخص روٹی کے ایک نوالے کو ترستا ہے۔ اسی سے وجہ اگلے پہر انتشار بھی جنم لینے لگتا ہے۔ اللہ تعالی کے انبیاء، علماء اور صوفیاء نے بھی انسانوں کے برے افعال اور اعمال سے بچانے کی کوشش کی۔ کوئی بھی سچا مذہب نفرت کی درس نہیں دیتا۔ نفرت مذہبی تعلیم نہیں بلکہ ایک قسم کی انا پرستی ہے۔ اسلام نے بھی ہمیں مذہبی رواداری کا درس دیا ہے۔

ہمیں بھی چاہیے کہ ہم کسی کا حق ضبط مت کریں، کسی پر ظلم مت کریں، کسی انسان کو خود سے کمتر مت سمجھیں اور اپنے اندر ایثار والے اوصاف پیدا کریں۔ اسی میں ہماری آنے والی نسلوں اور قوم کی شادمانی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments