اب تو ملالہ نے شادی بھی کی اور پیپر پر دستخط بھی کئے


یہ سال دو ہزار نو کی آخری سہ ماہی تھی ہم کابل ایک ادبی سیمینار میں گئے ہوئے تھے۔ اس وفد میں ہمارے ہمراہ ضیاء الدین یوسفزئی بھی تھے۔ ضیاءالدین پشتو ادب کے اچھے شاعر ہیں بلکہ ان کی نظمیں سن کر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ نظم جدید کے اچھے شاعر ہیں۔ ہفتہ دس دن ساتھ رہے۔ یہ وہ دن تھے جب ہم واپس آرہے تھے تو تورخم ڈیورنڈ لائن کو جب پار کیا تو پتہ چلا کہ طالبان نے سوات کی طرف پیش قدمی کی ہے اور پتہ اس لئے چلا کہ ضیاءالدین یوسفزئی اور، اور دوستوں کا تعلق سوات سے تھا جن کو اس حالات میں سوات جانا بھی تھا۔

خیر طالبان سوات پر اگے بڑھے بلکہ پورے سوات پر قابض ہوئے۔ وہاں قتل و غارت گری ہوئی، رائے عامہ کو سلب کیا گیا، لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کی گئی اور یہی محرک ان کے اور ان کے خاندان یعنی ملالہ یوسفزئی کے لئے وجہ تحریک بنی، یعنی لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے خلاف ملالہ نے آواز اٹھائی لیکن اس آواز کو دو ہزار بارہ میں خاموش کرنے کی کوشش کی گئی جو بمصداق مارنے والے سے بچانے والا بڑا ہے کے وہ بچ گئی اور علاج معالجے کے لئے پہلے ان کو خود اور بعد میں ان کے خاندان کو بھی انگلستان شفٹ کیا گیا۔

جہاں پر ان کا علاج معالجہ ہوا اور صحت یاب ہونے کے بعد انسانی حقوق کے لئے میدان عمل میں آئی اور ایک تاریخی جملہ ”ایک قلم، ایک کتاب اور ایک استاذ کسی کی زندگی بدل سکتا ہے کہا۔ میں پڑھوں گی، پڑھو گے ٍاور پڑھوں گی ایک اور تعلیم سے متعلق اس وقت ان کا ایک معصومانہ انداز تھا۔ پھر ان کی ذاتی زندگی پر ایک کتاب مرتب کی گئی جس کا ٹائٹل آئی۔ ایم ملالہ تھا۔ پھر ان کو نوبل ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ اس کے بعد آفیشل وزٹ پر پاکستان آئی، اپنے ابائی علاقے سوات میں اپنے گاؤں بھی گئی۔

اقوام متحدہ سمیت کئی ممالک گئی۔ انسانی حقوق کے حوالے سے افریقی ممالک سمیت کئی ممالک کا دورہ کیا۔ سیاست، سماجی کارکن اور سلیبریٹی کی حیثیت سے ان کی شخصیت بٹ گئی۔ اسی حیثیت سے تو وہ خبروں میں اکثر آتی رہتی تھی لیکن اسی سال جون میں اس وقت ایک تنازعے کی شکار ہوئی جس میں ملالہ نے شادی سے متعلق ایک متنازعہ بیان دیا گو کہ بعد میں اس کی وضاحت بھی ان کو کرنا پڑی۔ لیکن جن لوگوں کے ذہنوں میں وہ پہلے سے ہی متنازعہ تھی ویسے کی ویسے ہی متنازعہ رہی جبکہ جن کے ذہنوں میں وہ مثبت تھی تو ان کے ذہنوں میں مثبت ہی رہی۔

لیکن کل جب منگل کی رات ملالہ نے ایک بار پھر ٹویٹ کر کے اپنی شادی کی خبر کی اشاعت کی تو ان کے حوالے سے پھر لوگ دو دھڑوں میں بٹ گئے ایک دھڑا حق میں اور ایک دھڑا حسب معمول مخالفت میں اور شادی کے ساتھ ساتھ گزشتہ جون کے ان کے بیان کو دوبارہ بحث کی زد میں لایا گیا۔ لیکن میرے خیال میں ملالہ نے شادی کر کے اپنے گزشتہ بیان سے رجوع کیا ہے یعنی نکاح (شادی) بھی کی اور نکاح نامہ ( پیپر) پر دستخط بھی کیے لیکن مخالفین پھر بھی خوش نہیں ہیں۔

لیکن ملالہ خود اپنے اس فیصلے سے خوش ہے۔ ایک تو ملالہ نے یہ شادی اپنی مرضی یا پسند سے کی جو ان کا ذاتی معاملہ ہے لیکن دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو یہ فیصلہ شادی سے زیادہ ان کا اور ان کے خاندان کے مستقبل کے لئے ایک سیاسی فیصلہ بھی ہو سکتا ہے، جس کے دور رس نتائج پاکستان کی سیاست میں آنے والے وقتوں میں سامنے آسکتے ہیں۔ دلہا کا تعلق لاہور سے ہے جن کا نام عصر ملک ہے۔ ایچ۔ ای سن اور لمس کا فارغ التحصیل ہے۔ آسودہ حال، خوشحال اور دولت مند گھرانے کے خانوادے ہیں۔ کرکٹ کے آفیشل سائیڈ سے ان کا تعلق ہے۔ جن کی عمر اکتیس سال ہے اور ملالہ سے عمر میں آٹھ سال بڑے ہیں۔ ملالہ سے ان کی ملاقات دو سال پہلے ہوئی تھی اور یہ دو سال کا تعلق انگلستان کے شہر برمنگھم میں گزشتہ منگل کو دونوں خاندانوں کی موجودگی میں ایک سادہ لیکن پروقار تقریب میں رشتہ ازدواج میں تبدیل ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments