کہنے کو بہت کچھ ہے مگر۔ ۔ ۔


اسی کی دہائی میں امیتابھ بچن اور ریکھا کی ایک مووی ”سلسلہ“ کے ایک گانے میں اشعار کچھ یوں تھے ”۔ کہنے کو بہت کچھ ہے مگر کس سے کہیں، کب تک یونہی خاموش رہیں اور سہیں ہم۔“ یعنی شاعر بالآخر باغیانہ رویہ اختیار کر لیتا ہے۔ (میرا خیال ہے کہ اس بات کو بھی وہ لوگ زیادہ انجوائے کر سکیں گے جنہوں نے یہ گانا سنا ہوا ہے، اور جنہوں نے نہیں سنا وہ ایک دفعہ سن لیں تو انجوائے کر سکتے ہیں ) ۔

سوچتا ہوں کہ مجبور تو حالات ادھر بھی بہت ہیں مگر کس سے کہیں ہم؟ کب تک خاموش رہیں اور سہیں ہم؟ ہم کب یہ باغیانہ رویہ اختیار کریں گے؟ حالانکہ ضبط کے تمام بندھن ٹوٹ چکے ہیں اور عوام کے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ سڑکوں پہ آ کے یہی کہنے کو باقی رہی گیا ہے کہ ”جو بچا تھا وہ لٹانے کے لئے آئے ہیں“ ۔ لیکن کیا ہے کہ نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔ کیونکہ وطن عزیز میں حالات کچھ ایسے ہیں کہ صاحب حیثیت پارٹیز کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہی تو ہم جیسے بے حیثیت لوگوں کی کیا حیثیت کہ کوئی پوچھے کہ ہاں! کہنے کو کیا ہے؟ ارباب اختیار تو خود کو ہی عقل کل سمجھتے ہیں، نہ کسی کو کسی قابل سمجھتے ہیں نہ خاطر میں لاتے ہیں اور نہ ہی اہل دانش سے مشورہ کرنا پسند کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنے ہم پلہ پارٹیز جو آج اپوزیشن کہلاتی ہیں ان سے بات کرنا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں۔

نتیجتاً حالات اس سٹیج پر آ گئے کہ آئے روز آسمان سے باتیں کرتی اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں عوام سے جینے کا حق بھی چھین لینے کے درپے ہیں۔ عوام نے کتنی امیدیں لگائی تھیں اس حکومت سے، اور کیوں نہ لگاتے، خان صاحب نے باغ ہی اتنے سبز سے سبز تر دکھائے تھے کہ عوام ان باغات کا پھل چکھنے پہ مجبور ہو گئے۔ وہ الگ بات ہے کہ اس کا پھل چکھ بھی رہے ہیں خواہ کسی صورت میں۔ البتہ عوام کے ساتھ ہاتھ کچھ یوں ہو گیا کہ بقول شاعر ”نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے“ ۔ اب تو پرانی سیاسی پارٹیز کو منہ دکھانے قابل بھی نہیں رہے۔ وہ بھی طعنے دیں گے کہ چکھ لیا نئے پاکستان کے باغات کا پھل؟

قابل غور بات یہ ہے کہ سال میں بجٹ ایک دفعہ پیش ہوتا ہے جب تنخواہوں میں اضافے کی سرسری سی بات ہوتی اور سرسری سا ہی عمل درآمد بھی ہوتا ہے، لیکن آئے روز کوئی نہ کوئی ادارہ اشیاء مہنگی کرنے کی سمری وزیر اعظم کو بھیج دیتا ہے اور وزیراعظم صاحب تھوڑی حیل و حجت کے ساتھ پہلے عوام کے لئے لالی پاپ کا اعلان کرتے ہیں کہ عوام پر مزید بوجھ نہیں ڈالنا، پھر چپکے سے اس پر سائن کر کے مہنگی کرنے کی مہر ثبت کر دیتے ہیں۔

پھر اگلے دن صبح اٹھتے ہی علم ہوتا ہے کہ فلاں فلاں چیز کا آج یہ ریٹ ہو چکا ہے۔ تب دل خون کے آنسو رو دیتا ہے کہ کاش کوئی ایسا ادارہ بھی ہو جو اشیاء کے مہنگی ہونے کے ساتھ ہی عوام کی تنخواہوں اور مزدوروں کی مزدوری بھی بڑھانے کی سمری پیش کر دیا کرے اور وزیر اعظم صاحب اس پہ بھی سائن کر دیا کریں۔ مگر لگتا ہے یہ کھلی آنکھوں سے خواب دیکھنے کے مترادف ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب تنخواہ سال میں ایک دفعہ بڑھے تو قیمتیں آئے روز کیونکر بڑھتی ہیں؟

یہ بے حسی اور بے رحمی کی انتہا ہے جو عوام مدت سے جھیل رہے تھے اور اس حکومت سے امیدیں لگا بیٹھے تھے کہ شاید اب کے ہماری قسمت سنور جائے گی، مگر کسے خبر تھی حالات پہلے سے بھی بدتر ہو جائیں گے۔ کہتے ہیں نا کہ پرانے سیاستدان بیوقوفوں کو ہی بیوقوف بناتے رہے مگر خان صاحب میں یہ خوبی نمایاں ہے کہ انہوں نے اچھے خاصے سیانوں کو بھی الو بنا دیا اور ایسے ایسے وعدے کیے اور کہانیاں سنائیں کہ اچھے خاصے سمجھدار لوگ بھی ان کے جھانسے میں آ گئے۔

اب وہ لوگ بھی پچھتا رہے ہیں، مگر اب پچھتائے کیا ہوت؟ خان صاحب نے کیا کیا وعدے نہ کیے ، آئی ایم ایف کے پاس گیا تو خود کو گولی مار لوں گا (بقول ایک پارلیمنٹیرین کہ پتہ نہیں وہ کون سی بندوق ہے جس کی گولی چلتی ہی نہیں ) ، کرپٹ سیاستدانوں سے لوٹا ہوا پیسہ نکلواؤں گا، غریبوں کے لئے گھر بناؤں گا، ان کو رلاؤں گا (اب ”ان“ سے نا جانے ان کی کیا مراد تھی، کیونکہ رلا تو عوام کو رہے ہیں ) ۔ ایک کروڑ نوکریاں دوں گا وغیرہ وغیرہ۔

یہیں تک محدود نہیں بلکہ فرماتے تھے کہ جب مہنگائی بڑھ جائے تو سمجھ جاؤ کہ وزیراعظم چور ہے، اب سمجھ نہیں آتی کہ یہ بیانیہ اس وقت تک محدود تھا یا آج بھی وہی فارمولہ اپلائی ہوتا ہے۔ مزید ایک بیانیہ یہ بھی تھا کہ روزانہ کی بنیاد پر ایک ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔ تو خان صاحب ہم آپ سے کسی سے پیسہ نکلوانے کا نہیں کہتے صرف اتنی سی خواہش ہے کہ گزشتہ تین سال سے آپ کی حکومت میں تو وہ کرپشن نہیں ہو رہی نا، مطلب وہ ایک ارب روپیہ یومیہ بچ رہا ہے تو برائے مہربانی وہی پیسہ عوام پر لگا دیں تو بہت نوازش ہوگی۔ یا پھر کوئی ایک بات مان جائیں کہ یا تو وہ ایک ارب یومیہ کرپشن کا بیان پی ٹی آئی کی طرف سے الزام تراشی اور غلط بیانی تھا، یا پھر آپ بھی ویسی ہی کرپشن کر کے وہ پیسہ خود کھائے جا رہے ہیں۔

بہرحال، ثابت یہی ہوا ہے کہ یہاں جو بھی سیاستدان آتا ہے، پہلے بڑے بڑے وعدے کر کے حکومت بناتا ہے پھر لارے لپے کے لالی پاپس سے عوام کا دل بہلاتا رہتا ہے، سیاستدانوں کے وعدوں پہ اعتبار پہ غالب کا وہ شعر یاد آ جاتا ہے ؛

تیرے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments