ریاست اور مولوی کا گٹھ جوڑ


ٹوکیو یونیورسٹی کی اینتھروپالوجی کی پروفیسر جاپانی ذہن کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ جاپانی انسان کی ذہنی ساخت کو مختصر طور پر اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ اس بات کی مسلسل خواہش کہ وہ اوسط سے اوپر اٹھ سکے۔

The constant desire to rise a little higher than the average.

ریاست نے پوری کوشش کی کہ جاپانی ذہن کو اوسط سے اوپر اٹھایا جائے اور یہ اسی کوشش کا نتیجہ ہے کہ جنگ سے تباہ حال ملک صرف کچھ عشروں میں ہی دنیا کی اقتصادی طاقت بن گیا۔

لیکن اپنے ہاں اس سے بالکل متضاد ہے یہاں پر ریاست پوری کوشش کرتی ہے کہ انسانوں کا ذہن اوسط سے اوپر نہ اٹھ سکے بلکہ اوسط سے بھی نیچے رہے۔ تاکہ ہمارا دھندا چلتا رہے۔

اپنا نظام تعلیم دیکھ لیجئیے۔ جس سے صرف رٹو طوطے پیدا ہوتے ہیں۔ ایسا ذہن تیار کیا جاتا ہے جو سوال کرنا جانتا ہی نہ ہو جو بس بلا چوں چرا جو ہے، جیسا ہے، کی بنیاد پر سر جھکائے مانتا چلا جاتا ہے۔ اس کے ذہن میں سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ اگر ایسا ہے تو کیوں ہے۔

ریاست اور مولوی کا گٹھ جوڑ ہے یہ دونوں مل کر شاہ دولے کے چوہے پیدا کیے جا رہے ہیں۔ یہ کام بچپن سے شروع کیا جاتا ہے اور بیس بائیس سال کی مسلسل محنت شاقہ سے پروڈکٹ تیار ہوجاتی ہے۔

ایک ویڈیو میں ایک ہری پگڑی والا پانچ پانچ سال کے بچوں کو جنہوں نے سر پر ہری پگڑیاں باندھی ہوئی تھیں پڑھا رہا تھا کہ غوث اعظم مادر زاد ولی تھے۔ ان کی ماں کو چھینک آتی تو ماں الحمدللہ کہتی تو اس کے جواب میں ماں کے پیٹ میں غوث اعظم یرحمکِ اللہ کہتے۔ جو کہ عورت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ( ک کے نیچے زیر ہے ) ان کو ماں کے پیٹ میں بھی پتہ تھا کہ میں ایک عورت کے پیٹ میں ہوں سبحان اللہ۔

یہ زومبیز ایسے ہی نہیں پیدا ہو جاتے۔ ان کو ایسا بنانے کے لئے بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔ ان کو بتایا جاتا ہے کہ یہ دنیا فانی ہے۔ اصل دنیا اگلا جہان ہے۔ یہ امتحان گاہ ہے، یہاں پر اگر برا وقت گزارو گے، تکلیفوں پر صبر شکر کرو گے۔ تو اگلے جہاں میں حوریں، شراب اور دودھ و شہد کی نہریں تمہاری منتظر ہوں گی۔ یہاں پر اگر کوئی خراب سڑک کی وجہ سے حادثے میں مر جائے تو اللہ کی رضا ہے۔ صبر کرو۔ اگر کوئی صحت کی ناکافی سہولتوں کی وجہ سے اگلے جہان سدھار جائے تو اللہ کی مرضی ہے۔ صبر کرو۔

اول تو وہ کوئی سوال ہی نہ کریں اور اگر کوئی سوال ان کے ذہن میں غلطی سے پیدا ہو جائے تو اس کو اللہ کی رضا سمجھ کر صبر شکر کر لیں۔

انہوں نے غربت کو عظمت بخشی ہوئی ہے۔ یہ صحابہ اور انبیاء کے بھی غربت کے ہی جھوٹے سچے قصے سنائیں گے۔ ان کو سن کر لگے گا کہ غریب ہونا کتنی بڑی نعمت ہے۔ اللہ کا کتنا عظیم احسان ہے۔ اور بندہ بے اختیار کہنے پر مجبور ہو جائے گا کہ اے اللہ! مجھے بھی غریب کردو۔

لوگ غریب ہوتے ہیں، دو وقت کی روٹی کو ترستے ہیں۔ سسک سسک کر بغیر علاج کے خون تھوکتے مر جاتے ہیں۔ اور یہ سب غم و الم ہنسی خوشی سہتے ہیں کیونکہ مولوی نے بتایا ہے کہ یہ دنیا فانی ہے اور غربت تو اچھی ہوتی ہے، یہ تو خدا کی طرف سے آزمائش ہے۔ ان کے اذہان کو اس حد تک قابو کر لیا جاتا ہے کہ یہ سوچنے سمجھنے کے قابل ہی نہیں رہتے وہ نہیں سوچتے کہ یہ جو بندہ ہمیں ایسا کہہ رہا ہے اس کے پاس تو پجارو ہے، یہ ایک عالیشان گھر میں رہتا ہے، ہر سال باہر کے سفر کرتا ہے اگر غربت اتنی ہی اچھی چیز ہے تو یہ خود کیوں نہیں غریب ہو جاتا۔

سکول و مدرسے میں یہ تقلیدی ذہن پیدا کرتے ہیں۔ جہاں سوال کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ سوال اٹھانے کو برا سمجھا جاتا ہے۔ نظام تعلیم ایسا ڈیزائن کیا گیا ہے کہ اوسط سے کم درجے کا ذہن تیار کیا جا سکے۔ امتحانات لینے کا ایسا نظام وضع کیا گیا ہے کہ جس میں تخلیقی ذہن پروان ہی نہ چڑھ سکے۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ صحیح معنوں میں تبدیلی آئے تو ہمیں اپنا نظام تعلیم بہتر بنانا ہو گا۔ کوشش کرنی ہوگی کہ تخلیقی ذہن تیار کیے جائیں۔

سوال کرنے اور سوچنے کی آزادی دینی ہوگی۔ مقدسیت کو ختم کرنا ہو گا۔ سچ بولنا اور سچ ہی پڑھانا ہو گا۔ تاریخ کو تروڑنا مروڑنا بند کرنا ہو گا۔ مذہبی انتہا پسندی کو جو کہ ڈالروں کے عوض ایک مخصوص ایجنڈے کے لئے پیدا کی گئی تھی کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنا ہو گا۔

کوئی مسیحا نہیں آئے گا۔ مسیحا کا انتظار بند کرنا ہو گا اس ذہنی کیفیت سے باہر نکلنا ہو گا کہ کوئی مسیحا آئے گا وہ جادو کی چھڑی گھمائے گا اور سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ ایسا کچھ نہیں ہوتا، قدرت کے نظام میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔ ایک جہد مسلسل ہے۔ ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کر جانا ہے۔

قوم کے ذہن میں مسلسل یہ خواہش پیدا کرنی ہوگی کہ وہ اوسط سے اوپر اٹھ سکے۔ اگر ایسا کر سکے تو پھر ساری رفعتیں قدموں میں ہوں گی۔ پورا نیلا آسمان اپنا ہو گا۔ ابھی تو خیر دور دور تک گھور اندھیرا ہی نظر آتا ہے۔

ہم نہیں تو شاید ہماری نسلیں دیکھیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments