علامہ اقبال کی زندگی کے کچھ اہم واقعات کی ٹائم لائن


9 نومبر 1877 ء: پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں ایک کشمیری برہمن نسب سے منسلک خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام شیخ نور محمد تھا، جو پیشے کے لحاظ سے ایک درزی تھے۔ اور والدہ کا نام امام بیبی تھا۔

1892 ء: سکاچ مشن ہائی سکول، سیالکوٹ سے گریجوایشن کیا۔
1892 ء: والدین نے ان کی پہلی شادی کریم بی بی سے کروائی۔
1893 ء: سکاچ مشن کالج میں لبرل آرٹس کورس میں داخلہ لیا۔

1894 ء: داغ دہلوی کو اپنا استاد سخن مانا، اور بذریعۂ خط و کتابت ان سے اپنی شاعری کی اصلاح لینا شروع کی۔

1895 ء: کریم بی بی سے ان کو پہلوٹھی بیٹی، معراج بیگم (متوفی 1914 ) کی اولاد ہوئی۔
1895 ء: انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔
1895 ء: سیالکوٹ سے لاہور چلے آئے، اور گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔
1897 ء: بی۔ اے۔ کا امتحان سیکنڈ ڈویژن سے پاس کیا۔ جبکہ اسی امتحان میں عربی میں پہلے نمبر پر رہے۔
1898 ء: پروفیسر تھامس آرنلڈ کے پاس فلسفہ پڑھنا شروع کیا۔

1898 ء: کچھ عرصہ تعلیم کے حصول کے بعد ، قانون کا امتحان دیا، مگر اس امتحان میں ”فقہ“ کے پرچے میں پاس نہ ہو سکے۔

1899 ء: فلسفے میں ایم۔ اے۔ کا امتحان، تھرڈ ڈویژن میں پاس کیا، اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔ کیونکہ وہ فلسفے کے مضمون میں واحد کامیاب امیدوار تھے۔

1899 ء: لاہور میں اپنی اردو شاعری کی بدولت پہلے پہل شہرت پائی۔
1899 ء: کریم بی بی کے ہاں بیٹے ’آفتاب اقبال‘ کی پیدائش ہوئی۔
1899 ء: اورینٹل کالج، لاہور میں عربی کے ”ریڈر“ مقرر ہوئے۔

1900 ء: انجمن حمایت الاسلام میں اپنی نظم ”نالۂ یتیم“ (یتیم کا نوحہ) ترنم میں پڑھی۔ جس پر انہیں زبردست پذیرائی حاصل ہوئی، اور اس کی وجہ سے وہ ادبی حلقوں میں فوری طور پر مشہور ہو گئے۔

1901 ء: کریم بی بی کے ہاں تیسرے بچے کی پیدائش ہوئی، جو پیدائش کے فوراً بعد ہی چل بسے۔

1901 ء: ’ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر‘ کے عہدے کے لئے ملازمت کی درخواست دی، مگر نظر کے کسی معمولی نقص کی وجہ بتا کر انہیں یہ ملازمت دینے سے معذرت کر دی گئی۔

1900 ء تا 1905 ء: عبدالقادر کے نئے جریدے ”مخزن“ میں ان کی نظموں کی متواتر اشاعت ہوئی۔ جن میں حب الوطنی پر مشتمل ’ترانۂ ہندی‘ (شائع: اکتوبر 1904 ء) ، ’ہندستانی بچوں کا قومی گیت‘ (شائع: فروری 1905 ء) ، ’نیا شیوالہ‘ (شائع: مارچ 1905 ء) جیسی ان کی نظمیں، زبردست قومی نظموں کے طور پر قارئین میں مقبول ہوئیں۔

1903 ء: گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے اور انگریزی ادب کے اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے۔
1903 ء میں : ان کی معاشیات پر لکھی ہوئی اردو کی پہلی کتاب ”علم الاقتصاد“ شائع ہوئی۔

1905 ء میں : تعلیم کے سلسلے میں یورپ گئے، جہاں لندن میں ”لنکنز ان“ میں قانون پڑھا۔ ٹرینٹی کالج سے بی۔ اے۔ کیا۔ اس کے ساتھ ہی میونخ یونیورسٹی سے ’دی ڈویلپمنٹ آف میٹا فزکس ان فارس‘ کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ بھی لکھا۔

1907 ء: ان کی عطیہ فیضی سے ملاقات ہوئی اور ان کے ساتھ ”قریبی ذاتی تعلق“ کا آغاز ہوا۔
1907 ء: کیمبرج یونیورسٹی کے ٹرینیٹی کالج نے انہیں بی۔ اے۔ کی ڈگری سے نوازا۔
1907 ء: میونخ یونیورسٹی کی جانب سے انہیں فلسفے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا گیا۔
1908 ء: ’لنکنز ان‘ جیسے تاریخی ادارے نے انہیں ”بیرسٹر ایٹ لاء“ کی سند سے نوازا۔
1908 ء: ان کا تحقیقی مقالہ لندن سے شائع ہوا۔

1908 ء: آل انڈیا مسلم لیگ کی لندن برانچ میں ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے۔ یوں ان کی عملی سیاسی زندگی کا آغاز ہوا۔

1908 ء: یورپ سے وطن واپس آئے۔ انہیں مختلف تعلیمی عہدوں کی پیشکش کی جاتی رہی، مگر مالی ضروریات کی بناء پر تدریسی سرگرمیوں یا روزگار پر، قانون کی مشق کو اپنا ذریعۂ معاش بنانے کو ترجیح دی۔

1909 ء: سردار بیگم سے شادی کی۔ مگر (مبینہ طور پر) ان کو لکھے گئے کچھ گمنام خطوط کی بنا پر ان کے دل میں جلد ہی کچھ شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔ جس وجہ سے انہیں فوراً چھوڑ دیا۔

1909 ء: مختار بیگم سے شادی کی۔ یہ اقبال کی تیسری شادی تھی۔
1909 ء: قانون کی پریکٹس کے علاوہ گورنمنٹ کالج لاہور میں عارضی پروفیسر شپ کی پیشکش قبول کر لی۔

1909 ء: منشی غلام قادر فرخ کے نام ایک خط میں، اقبال نے لکھا کہ ان کے ذاتی خیالات کے برعکس، ہندوؤں اور مسلمانوں کے لئے مشترکہ پالیسی بنانا بہت مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ان کی ’بنیادی ثقافت‘ مختلف ہے، اور مسلمان، ہندو اکثریت میں اپنی شناخت کو ہرگز ختم نہیں کرنا چاہیں گے۔

1910 ء: باقاعدہ اپنا روزنامچہ (ڈائری) قلمبند کرنا شروع کی، جو بعد ازاں ’آوارہ عکاس‘ کے نام سے شائع ہوئی۔

1910 ء: بچوں کے لئے اپنی شہرہ آفاق نظم ”ترانۂ ملی“ تحریر کی۔

1911 ء: انجمن ہدایت الاسلام، لاہور کے سالانہ اجلاس میں اپنی مشہور زمانہ نظم ”شکوہ“ پڑھی۔ کہا جاتا ہے کہ مجمع نے انہیں یہ نظم ترنم میں پڑھنے کا اصرار کیا، لیکن اقبال نے یہ کہہ کر نظم تحت اللفظ میں پڑھی، کہ اس کا موضوع بہت اہم ہے۔

1911 ء: گورنمنٹ کالج لاہور کی عارضی پروفیسر شپ سے استعفیٰ دے دیا، لیکن کالج کے ممتحن (ایگزامینر) کے طور پر کام جاری رکھا۔

1911 ء تک: انہوں نے ایک شاعر اور فلسفی کے طور پر ہند گیر شہرت حاصل کر لی۔
1912 ء: عطیہ فیضی نے فیضی رحمان سے شادی کر لی۔

1913 ء: موچی گیٹ، لاہور میں ایک مشاعرے میں اپنی مشہور نظم ”شکوہ“ کے تسلسل کے طور پر اپنی دوسری نظم ”جواب شکوہ“ پہلی مرتبہ پڑھی۔

1913 ء: سردار بیگم سے دوبارہ شادی کی اور دونوں بیویوں کو ساتھ ساتھ رکھا۔
1915 ء: ان کی کتاب ”اسرار خودی“ شائع ہوئی۔

1916 ء: اقبال کی شریک حیات، کریم بی بی نے الگ رہنے کا فیصلہ کیا، البتہ ان کے اخراجات پھر بھی اقبال ہی کے ذمے تھے۔

1918 ء: ان کی کتاب ”رموز خودی“ شائع ہوئی۔
1919 ء: انجمن حمایت الاسلام کے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔

1920 ء: انگلینڈ میں کیمبرج یونیورسٹی کے رینالڈ نکلسن نے ”دی سیکرٹس آف دی سیلف“ کے عنوان سے اقبال کی کتاب ”رموز خودی“ کا ترجمہ کر کے وہیں سے شائع کروایا۔

1924 ء: معروف جرمن شاعر گوئٹے کی کتاب ”ویسٹ اسٹلیچر دیوان“ کے جواب میں لکھی ہوئی ان کی کتاب ”پیام مشرق“ شائع ہوئی۔

1923 ء: برطانوی حکومت کی جانب سے انہیں ”نائٹ“ (سر) کا خطاب دیا گیا۔
1924 ء: انجمن حمایت الاسلام کے جنرل سیکریٹری کے عہدے سے مستعفیٰ ہوئے۔
1924 ء: ان کا شہرہ آفاق اردو مجموعۂ کلام ”بانگ درا“ شائع ہوا۔
1924 ء: ان کی شریک حیات، مختار بیگم حمل کی پیچیدگیوں اور نمونیا کی وجہ سے انتقال کر گئیں۔
1924 ء: سردار بیگم کے وہاں ان کے بیٹے جاوید اقبال کی ولادت ہوئی۔

1926 ء: نئی پنجاب قانون ساز اسمبلی میں لاہور کی نشست پر منتخب ہوئے، اور فعال پارلیمانی سیاست کا آغاز کیا۔

1927 ء: ”زبور العجم“ کی اشاعت ہوئی۔

1929 ء: مدراس کا سفر کیا اور مدراس مسلم ایسوسی ایشن کو ’اسلام میں مذہبی فکر کی تعمیر نؤ‘ کے موضوع پر اپنا یادگار لیکچر دیا۔

1929 ء: حیدرآباد دکن میں اسکول کے بچوں نے اقبال کے ترانۂ ملی سے ”چین و عرب ہمارا۔“ گاتے ہوئے ان کا یادگار استقبال کیا۔

1930 ء: سردار بیگم کے ہاں بیٹی منیرہ کی پیدائش ہوئی۔

1930 ء: ان کا انگریزی مقالہ بعنوان، ”دی ری کنسٹرکشن آف رلیجیس تھاٹس ان اسلام“ (اسلام میں مذہبی فکر کی تعمیر نؤ) شائع ہوا، جس میں انہوں نے باب اجتہاد کے از سر نؤ آغاز کا اعلان کیا۔

1930 ء: الٰہ آباد میں مسلم لیگ کے جلسے میں اپنا صدارتی خطاب کرتے ہوئے، ایک الگ مسلم ریاست کے امکان کی تجویز دی، جو ”تصور پاکستان“ کہلایا۔

1931 ء: جامعہ ملیہ، دہلی میں انہوں نے اپنی زندگی کی آخری شاہکار نظم ”مسجد قرطبہ“ پڑھی۔

32۔ 1931 ء: دوسری اور تیسری گول میز کانفرنسوں میں شرکت کے لئے، انہوں نے انگلینڈ کا دوبارہ دورہ کیا، اور یورپ کا تفصیلی سفر کیا۔ اس دوران پیرس میں انہوں نے برگسن کا دورہ کیا۔ اسپین دیکھا۔ روم میں مسولینی سے ملاقات کی۔ اور ساتھ ساتھ افریقہ میں مصر، اور مشرق وسطی میں فلسطین کا دورہ بھی کیا۔

1932 ء: مسلم لیگ کے اجلاس میں اپنا صدارتی خطاب کرتے ہوئے انہوں نے (یورپ میں مروجہ تعریف کے مطابق) قوم پرستی کی مخالفت کا اعلان کیا۔

1932 ء: ان کی کتاب ”جاوید نامہ“ شائع ہوئی۔
1933 ء: پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے انہیں اعزازی ڈی لٹ ڈگری سے نوازا گیا۔
1933 ء: تعلیمی اصلاحات کے کمیشن کے کام کے سلسلے میں افغانستان کا مختصر دورہ کیا۔
1934 ء: ان کی صحت بگڑنا شروع ہوئی۔ جس وجہ سے انہوں نے وکالت کی پریکٹس چھوڑ دی۔
1935 ء: اقبال کی اردو شاعری کی ایک اور شاہکار کتاب ”بال جبریل“ شائع ہوئی۔
1935 ء: سردار بیگم انتقال کر گئیں۔
1935 ء: بھوپال کے نواب کی طرف سے ان کے لئے وظیفہ (پنشن) مقرر کی گئی۔
1935 ء تا 1936 ء: انہوں نے کئی بار بھوپال کا دورہ کیا۔
1936 ء: ”ضرب کلیم“ شائع ہوئی۔

جنوری 1938 ء میں : پنڈت جواہر لال نہرو، اقبال سے ملنے لاہور آئے۔ اگرچہ اقبال اور نہرو اپنے سیاسی موقف کے لحاظ سے ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے تھے، مگر کشمیر ان دونوں کا مشترکہ آبائی گھر تھا۔

جنوری 1938 ء: لارڈ لوتھیان، جاوید منزل پر اقبال سے ملنے آئے۔ وہ اقبال کے زبردست مداح تھے اور وہ ہندوستان میں ہندو مسلم تنازع کے لئے اقبال کے تجویز کردہ حل کے بہت معترف تھے۔

1938 ء: ”ارمغان حجاز“ کی اشاعت ہوئی۔

21 اپریل 1938 ء: لاہور میں وفات پائی۔ اور انہیں لاہور میں، حضوری باغ میں بادشاہی مسجد اور قلعۂ لاہور کے درمیان سپرد خاک

کیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments