دیہات کی صبح اور سفر کے مناظر


لکھنے والوں نے دیہات کی صبح و شام کی یوں رومانی منظر کشی کی کہ شام اودھ اور صبح بنارس کی تراکیب بھی پھیکی پڑ گئیں۔ دھیرج گنج کے پہلے اور آخری مشاعرے میں شامل شعراء کو شام تا صبح اک گاؤں میں رکنا پڑا تھا۔ رومانویت ہوا ہو گئی تھی۔ اس کی تفصیل ”آب گم“ میں ملے گی۔ یہاں تو ایک سنکی سے ماسٹر کا بے زار سا تبصرہ ہے۔

یہ دیہات کی صبح کے چند سنیپ شارٹ ہیں۔ کچھ واضح، کچھ دھندلے، کچھ ٹیڑھے ترچھے۔ یہ صبح کے سفر کی داستان ہے۔ تصویریں دھندلی ہو سکتی ہیں اور نامکمل بھی۔ نیم باز آنکھوں کے مشاہدات ہیں، جن کے بھاری ہوتے پپوٹوں پہ غنودگی، فکر معاش، شکوۂ تلخی ایام، بہتر مستقبل کی موہوم امید نے بسیرا کر رکھا ہے۔

گاڑی چل پڑی ہے۔ سڑک چھوٹے بڑے گاؤں کراس کرتی شہر کو جاتی ہے۔ رخ مہتاب پردے سے نکل چکا مگر زلف شب کی تیرگی ہنوز باقی ہے۔ فائلیں ہاتھوں میں دبائے، چہرے پہ فاتحانہ چمک سجائے، پر امید سے، کچھ بڑی عمر کے مسافر بیٹھے ہیں۔ یہ کچہری جائیں گے۔ وہاں یہ ان مقدموں کی آبیاری کریں گے جن کا تخم ان کی پچھلی پیڑھی بو گئی تھی۔ انہیں ہر دفعہ جاتے ہوئے امید ہوتی کہ اب فیصلہ ہوا کہ ہوا مگر کبھی تاریخ، کبھی ہڑتال اور کبھی فرسودہ عدالتی طریقہ۔ وہ شریک کو چاروں شانے چت کرنے کا خواب لیے جاتا ہے مگر شام کو واپسی پہ پیشانی پہ لکیریں لیے سوچتا ہے کہ مزید کتنے مویشی بیچنے پڑیں گے یا قطعۂ زمین فروخت کرنا پڑے گا کہ کیس کا فیصلہ ہو سکے۔ مگر نہیں ہو گا۔ نفرت کی یہ وراثت اگلی نسل کو منتقل ہو گی۔ دیہات والوں کا یہ پسندیدہ مشغلہ ہے۔

کچھ بوڑھے بوڑھیوں کو سہارا دے کر گاڑی میں بٹھایا جائے گا۔ یہ فرنٹ سیٹ کی ضد کریں گے ( کچھ بڑے گھیر والی سواریاں بھی ضد کر کے فرنٹ سیٹ پہ قبضہ جماتی ہیں، وہ مردوں کو فرنٹ سیٹ پہ بیٹھا دیکھ کر حیران ہوتیں کہ بھلا مرد کا کیا کام فرنٹ سیٹ پہ) کہ کسی کو کمر درد ہے، کسی کے گوڈے رہ گئے ہیں۔ یہ پنشن یافتہ قوم ہے۔ انہیں ہر خرابی کی جڑ نوجوان نسل اور جدید تعلیم نظر آتی ہے۔ اپنا دور سہانا لگتا ہے انہیں۔ یہ کمبائنڈ ملٹری ہاسپٹل کی سواریاں ہیں۔

کچھ اسی وین پہ واپس آ جاتی ہیں۔ کچھ ایمبولینس میں۔ واسکٹ پہنے، بال بنائے، کھنچے کھنچے سے نقوش والے کچھ نوجوان سوار ہوتے ہیں۔ کچھ عبایہ پہنے لڑکیاں یا عورتیں، پرس ہاتھ میں پکڑے، زیادہ تر معنک۔ یہ ٹیچر برادری ہے۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ گاڑی فلاں سٹاپ پہ اتنے بجے پہنچے گی۔ پھر بھی یہ بار بار ڈرائیور سے سٹاپ تک پہنچنے کا وقت پوچھتے، اسے جلدی جلدی ڈرائیو کرنے کا کہتے۔ سب فضول۔ یہ اک دوسرے کو فوراً پہچان لیتے۔

باہمی فاصلے کم ہو جاتے کبھی کبھی دوران سفر۔ کہ کوئی آپ کے بالوں میں گدگدی کرتا۔ اگلی سیٹ پہ سر ٹکانے کے بہانے آپ کی پشت پہ ہلکا ہلکا دستک نما سا لمس ہوتا۔ یہ اچھا لگتا ہے کیونکہ گدگدی والے ہاتھ کھردرے نہیں، نازک اور سبک ہیں۔ یہ ہاتھ تب تک آپ کے بال بگاڑتے رہتے، جب تک ان پہ مہندی نہیں رچتی۔ اب انہیں حجاب آتا ہے۔ پہلے سیٹ، پھر گاڑی تبدیل ہو جاتی۔ کبھی کبھی منزل بھی۔

فوج میں بھرتی کے ایام مخصوصہ میں پرجوش نوجوان کثرت سے مسافر بنتے۔ شلوار قمیص کے نیچے جاگرز۔ جن کے کچھ لگتے کسی بڑے افسر کے خانساماں ہوں، انہیں یقین ہوتا کہ صاحب کی سفارش سے انہیں بس ابھی کال لیٹر موصول ہوا۔ اکثریت غریب گھرانوں سے تعلق رکھتی۔ پکی نوکری کا لالچ، بہتر مستقبل کی امید بجھے بجھے چہروں پہ لیے ہر سال کوشش کرتے۔ کچھ واپس آ جاتے۔ سفارش ہو تو کچھ بھرتی ہو جاتے۔ کچھ بے نام لڑائی کا ایندھن بن جاتے یا ادارے کے وقار پہ قربان ہو جاتے۔ قبرستان میں جھنڈوں کی تعداد میں ایک کے بعد ایک کا اضافہ ہوتا چلا جاتا۔ ( جہلم کا شاید ہی کوئی ایسا قبرستان ہو جس میں وردی والوں کے بورڈ نہ لگے ہوں۔ قبرستان میں قومی پرچم نہ ہو ) ۔

گجرات اور منڈی والوں کی طرح ادھر ڈنکی کا رواج اتنا نہیں ابھی۔ جو بھی پاسپورٹ آفس کا مسافر ہو گا۔ سویرے گجر دم نکلے گا کہ آج کام ہو جائے جلد۔ زیادہ تر رشوت دینی پڑتی۔ اس نے کسی عرب ملک میں خون پسینہ بہانے جانا ہو گا۔ تعلیم نہ ہونے کے برابر، تو زیادہ سے زیادہ مزدور، یا پھر ڈرائیور کی نوکری کی تگ و دو میں جوانی گزر جانی۔ جب ہڈیوں کا گودا خشک ہو جائے تو وطن واپسی۔ پھر بھی یہاں عرب جانے والے مزدوروں کو الحاج سمجھا جاتا۔ رشک کیا جاتا کہ بڑے حج و عمرے کیے۔ کون جانے پردیس میں کہاں کہاں کی ریت پھانکی۔ غلاف کعبہ تھام کے زیادہ رویا یا کفیل کا دامن پکڑ کر ۔

ماسٹر گاڑی سے اتر پڑا ہے اب۔ یہ کچا رستہ ہے۔ یہ پسماندہ گاؤں ہیں۔ لاغر گائیں، بکریاں۔ اور ان سے لاغر کسان، چرواہے۔ نصابی کتب کہتی ہیں کہ دیہات میں رہنے والی عورتیں صحت مند ہوتیں۔ ادھر صبح صبح کھیتوں میں کام کرتی عورتیں دیکھیں۔ سینہ پیٹ برابر۔ خمیدہ کمر، الجھے چیکٹ بال۔ جو ذرا ضرورت سے زیادہ صحت مند نظر آئے گی وہ جوڑوں کے درد یا شوگر میں مبتلا ہو گی۔ یہ تیس کے پیٹے میں ہوں تو پینتالیس کی لگتیں جبکہ شہر کی عورت تیس کی لگتی ہو گی مگر صحیح عمر پینتالیس سے زیادہ ہو گی۔ چہرہ جھریوں سے اٹا ہوا۔ چارہ کاٹتے، لکڑی پھاڑتے ان کے ہاتھ کی لکیریں تک گھس جاتیں۔ خاندانی منصوبہ بندی کا زیادہ رواج نہیں۔ چھوٹے قطعات والے کسان اب بھی بیلوں کی جوڑی سے ہل چلاتے، بیج بو کے آسمان کو تکتے کہ کب چشم افلاک کے گوشے سے اشک ٹپکے اور دھرتی کی کوکھ ہری ہو۔

وہ وقت اب قصے کہانیوں میں رہ گئے یا کسی شہری رائٹر کے تخیل میں، کہ ہر گھر سے مدھانی کی گھرر گھرر آ رہی ہے۔ مکھن بلویا جا رہا ہے۔ دودھ دوہتے سمے گڑوی میں پڑتی دھار جلترنگ بجا رہی ہے۔ پڑوسن کے آنگن میں نلکے پہ چوڑیاں بج رہی ہیں۔ کسان کندھے پہ ہل رکھے، بیلوں کو ہنکاتے، ہیر وارث شاہ یا میاں محمد بخش کے بول گاتے کھیتوں کو جا رہے ہیں۔ اب تو یہاں سے بھی خالص دودھ، گھی ملنا مشکل ہو گیا ہے۔ رشتوں کے ساتھ ساتھ دودھ گھی میں ملاوٹ بھی عام ہے۔

اب صبح دم فاختہ کی مانوس آوازیں کانوں میں رس نہیں گھولتیں۔ پپیہے کی پی کہاں پی کہاں سنے جگ بیت چلے۔ سبحان۔ تیری قدرت کی آواز قصبوں میں نہیں سنائی دیتی نہ کھیت کھلیانوں میں۔ شاید کبھی دور کسی ویرانے میں سنائی دے۔ ہرنوں کی ڈار یا اڑیال کا جتھہ اب نظر نہیں آتا کہ اب فطرت وہیں باقی جہاں حضرت انسان کے قدم یا شکاری کی گولی نہیں پہنچی۔

اب تو چپ چاپ صبح ہوتی ہے
پہلے چڑیوں کا شور ہوتا تھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments