تاریک معاہدے


قوم کو مبارک ہو کہ تحریک طالبان پاکستان سے ہمارا معاہدہ ہو گیا اور ایک مہینے کے “طویل”عرصے کے لئے فائر بندی ہو گئی۔ حال ہی میں امریکہ اور طالبان کے مابین مذاکرات ہوئے تھے۔ ہمارے علم میں تھا کہ امریکہ کی جانب سے مذاکرات کی ٹیم کی سربراہی زلمے خلیل زاد نام کے ایک امریکی شہری کے پاس تھی۔ زلمے خلیل زاد کو یہ ذمہ داری سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سونپی تھی جس کے بعد ایک تلخی اور نفرت سے بھری ہوئی انتخابی سیاست کے ماحول میں صدارتی انتخابات ہوئے اور ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دے کر جو بائیڈن نئے امریکی صدر بنے۔ سابق امریکی صدر سے ہزار اختلافات کے باوجود نئے امریکی صدر نے زلمے خلیل زاد کو ان کی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں کیا اور زلمے کی سربراہی میں ہی امریکی مذاکراتی ٹیم نے طالبان سے مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا۔ یہ مذاکرات قطر میں ہوئے ، سب کے علم میں تھا کہ کون لوگ مذاکرات میں حصہ لے رہے ہیں۔ مذاکرات کی تفصیل تو ظاہر ہے خفیہ رکھی گئی اور بہت کچھ آج بھی چھپا ہے لیکن یہ معلوم تھا کہ امریکہ اور طالبان کے مذاکرات کہاں ہوئے، کس نے کئے اور کس کی سربراہی میں یہ معاہدہ ہوا۔

یاد رہے کہ موجودہ امریکی صدر ، ماحولیات کے حوالے سے ہوئے پیرس معاہدہ میں اپنے ملک کو واپس لے آئے ہیں جس سے سابق امریکی صدر امریکہ کو نکال لے گئے تھے۔ اس مثال کا مقصد یہ بتانا ہے کہ جہاں امریکی صدر کو محسوس ہوا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا ایکشن امریکی مفاد کے خلاف ہے وہاں انہوں نے تبدیلی کر دی اور جہاں ضرورت نہیں تھی وہاں زلمے خلیل زاد کو کام کرنے دیا۔ پھر معاہدہ کے تحت امریکی افواج افغانستان سے نکلیں اور اس کی سیاسی قیمت ، موجودہ امریکی صدر نے ادا کی۔ ان کا خیال میں یہ ان کا پہلا سال ہے اور اس غیر مقبول فیصلے سے ہونے والا سیاسی نقصان وہ برداشت کر سکتے ہیں کیونکہ ان کی مدت کو ابھی تین سال سے زیادہ وقت مئیسر ہے اور اس وقت تک افغانستان سے واپسی اتنا بڑا ایشو نہیں رہے گی۔ آسان الفاظ میں ، امریکی مذاکراتی ٹیم میں شامل لوگ ایکسپرٹ تھے لیکن وہ ایک سیاسی صدر کی حکومت کے مینڈیٹ کے ساتھ مذاکرات کر رہے تھے اور اس صدر کو جوابدہ بھی تھے۔ حکومت بدلنے کے باوجود یہ مذاکرات جاری رہے ، ساری دنیا کے سامنے ہوئے جس کی سیاسی سرپرستی کرنے کو پہلے ایک امریکی صدر کھڑا تھا پھر دوسرا کھڑا ہو گیا اور یوں یہ مذاکرات امریکی قوم کے منتخب لیڈرز کی سربراہی میں ہوئے۔ مذاکرات کامیاب نہ ہوتے تو بھی اس کی سیاسی قیمت امریکی حکومت ادا کرتی۔

اب پاکستان کی جانب آئیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم نے ایک غیر ملکی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کے مذاکرات ، تحریک طالبان پاکستان ، سے شروع ہیں، یہ مذاکرات ، افغانستان میں ہورہے ہیں۔ اس کے بعد افواہیں اور اندازے لگاتے لوگ۔ پھر پتہ چلا مذاکرات جاری ہیں اور اب عسکری قیادت نے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیتے ہوئے بتایا کہ ان کے مذاکرات ، کامیابی سے جاری ہیں جس کے نتیجے میں ایک ماہ کی فائر بندی ہوچکی۔ چوہدری فواد نے مزید بتایا کہ طالبان کو آئین پاکستان کو ماننا ہو گا۔ یہ نہیں بتایا کہ جس آئین کو خود ہم نے ایک دن کے لئے بھی نہیں مانا، ٹھڈے مار مار کے اسے دو کوڑی کا بنا دیا ، جس آئین کو حقارت سے پکارنے والے خود ریاست کی ترجمانی کا دعویٰ لئے کھڑے ہوں، اس آئین کو طالبان کیسے اور کیوں مانیں۔

یہ مذاکرات کہاں ہوئے ؟ پاکستان کی جانب سے مذاکراتی ٹیم میں کون لوگ شامل تھے ؟ اس ٹیم کی سربراہی کون کر رہا تھا ؟ سول یا فوجی بیوروکریسی کے افراد کے نام کیا تھے ؟ کیا اس ٹیم کی سربراہی کوئی سیاست دان کر رہا تھا ؟ ایک وزیر دفاع ہوتے ہیں جس کا نام پرویز خٹک ہے ، کیا وہ ان مذاکرات کی کچھ خبر رکھتے تھے ؟ ایک وزارت داخلہ کی بھی ہے جسے شیخ رشید چلا رہے ہیں ، کیا وہ ان مذاکرات میں شامل تھے ؟ خدا کرے کہ معاہدہ کامیاب ہو جائے اور ہم پاکستان کی جانب سے مذاکراتی ٹیم کو مبارک دیں لیکن اگر یہ معاہدہ ناکام رہا تو اس کا حساب کون دے گا ؟ اندھیروں میں ہوئے ان خفیہ مذاکرات کے نتیجے میں ہونے والے معاہدے میں ریاست پاکستان نے کتنا تاوان ادا کیا ؟ اس مذاکراتی ٹیم کو قوم کی جانب سے مینڈیٹ دیا گیا تھا ؟ تاوان کی رقم کتنی تھی ؟ کتنے قیدی چھوڑے گئے ؟ کیا انہیں سابقہ قبائلی علاقوں پر حکومت کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے یا انہیں یہ کہا گیا ہے کہ آئیندہ چند ماہ یا سالوں میں اسلام آباد ہی آپ کے حوالے کر دیں گے ؟ کیا ان سے کسی نئی پختون ،اسلامی ریاست کا وعدہ کیا گیا ہے ؟ کیا انہیں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ ریاست پاکستان پر حملے نہ کریں تو انہیں اگلے انتخابات میں اکثریت دلوائی جائے گی ؟ کیا عمران خان کے بعد نیا تجربہ طالبان کی باضابطہ حکومت ہے ؟

ہمیں بتایا جاتا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کوئی ایک منظم گروہ بھی نہیں بلکہ یہ مختلف چھوٹے گروپس پر مشتمل ایک غیر منظم تنظیم ہے۔ یہ بات درست ہے تو پھر کس گروپ سے مذاکرات ہوئے اور کونسا باقی ہے ؟ آپ ایک گروپ سے مذاکرات کریں جو دوسرا نہ مانے تو پھر کیا ہو گا ؟

کل کو اگر ہمیں بتایا جاتا ہے کہ طالبان نے اپنا معاہدہ توڑ دیا تو دوسری جانب سے طالبان یہ ہی دعویٰ کریں گے کہ معاہدہ تو پاکستان نے توڑا ہے تو پھر عام پاکستانی کہاں کھڑا ہو گا کیونکہ اس کے پاس معاہدے کی کوئی تفصیل موجود ہی نہیں اور نہ ہی وہ جانتا ہے کہ پاکستان کے جانب سے کس نے یہ ضمانتیں طالبان کو دیں اور اسے ایسا کرنے کا اختیار کس نے دیا ؟ جہاں ، تحریک لبیک ایک دن بھارتی ایجنٹ ہوتی ہے دوسرے دن محب الوطن بن جاتی ہے وہاں حکومت قابل اعتبار ہو گی یا مسلح گروپ قابل اعتبار ہوں گے۔

اندھیروں میں ہونے والے خفیہ مذاکرات کی ایک تاریخ ہے جو پاکستان رکھتا ہے اور ان کے نتائج ہمیشہ بھیانک ہی نکلے ہیں۔ مثلآ ڈرون حملوں کے خلاف ہماری حکومت احتجاج کرتی تھی بعد میں اسی احتجاج کے بطن سے خفیہ معاہدہ اور شمسی ائیر بیس نکل آیا۔

خفیہ مذاکرات اور معاہدوں میں تاوان کی رقم ہمیشہ کئی گنا زیادہ ادا کی جاتی ہے۔ مثلاً اگر طالبان کو پچاس کروڑ تاوان دیا گیا ہے تو سرکاری خزانے سے دو ارب نکالے جائیں گے جن کا حساب کوئی نہیں لے سکتا کیونکہ یہ “قومی مفاد” کے خلاف ہو گا۔

کیا یہ ایک واحد وجہ ہے کہ معاہدہ اور مذاکرات سب کے سب خفیہ ہیں یا اور بھی کچھ ہے ؟ کیا طالبان کو بے نظیر بھٹو کے بعد پاکستان کی باقی سیاسی قیادت کو بھی فارغ کرنا ہے ؟ یہ معاہدہ ، پاکستانی قوم اور فوج کے قاتلوں سے معاہدہ ہے ، تاوان قوم کے خزانے سے دیا گیا اور آگے اس معاہدے کی ناکامی (جو سامنے لکھی ہے) کے بعد قوم کو بتایا جائے گا کہ مذاکرات کن لوگوں نے کئے ؟ اور انہیں ایسا کرنے کا اختیار کونسی پارلیمنٹ نے دیا تھا ؟

ہم جانتے ہیں جنگ اور جنگی صنعت سے جڑا پیسہ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ اس کا بوجھ نہ انسانیت اٹھا سکتی ہے نہ ہی قومی مفاد۔ اس لئے سپر پاور وہ ملک بنتے ہیں جہاں جنگی صنعت اور جنگی فیصلے، مذاکرات سیاست دان کے کنٹرول میں ہوتے ہیں جو اس کی سیاسی ذمہ داری اٹھاتا ہے۔ تاہم اپنے ملک میں صرف اطلاع دی جاتی ہے اور ہمارا کام اسے ماننا ہے ورنہ ہم غدار ٹھہریں گے۔

اب جبکہ ایک نوٹیفکیشن کے معاملے پر لڑکھڑاتی ہوئی حکومت کی کمزوری سب کے سامنے ہے تو سپریم کورٹ کی جانب سے اشارے شروع ہو چکے ، زنانہ اور مردانہ صفوں کی وینا ملک یا کہیں وینا ملکیں پیچھا چھڑا کر بھاگ رہے ہیں۔ تمام حکومتی وزارتوں اور سرکاری دفاتر میں کام ٹھپ ہے۔ بند ہوتی دکانیں ، فیکٹری، کاروبار اور ختم ہوتی نوکریاں ، سکڑتی معیشت، مہنگائی اور سیاسی بے چینی آخر کار ہمیں کہاں لے جائے گی۔ آخری خبر یہ ہے کہ مشکلات کے اس طوفان میں ہمارے کشتی کا سب سے طاقتور کپتان ، اس فکر میں ہے کہ کسی بھی طرح اسے ایک اور ایکسٹینشن مل جائے اور اس کے لئے وہ نئے الیکشن ، نئی حکومت دینے پر آمادہ ہے لیکن صورت یوں ہو گی کہ وزیر اعظم شہباز شریف ہوں گے جو اگلی ایکسٹینشن کا وعدہ پورا کریں گے۔

سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اسی لئے یہ کھیل سیاست دان اور عوام کے درمیان ہی رہے تو چل جاتا ہے کیونکہ عوام نے سیاست دان پر مسلسل نظر رکھی ہوتی ہے اور وہ اسے سزا بھی سنا سکتے ہیں، لیکن جب اس میں بیوروکریسی ، ڈنڈا پکڑ کے اتر آتی ہے تو پھر سیاست میں دل تو کیا ، عقل بھی نہیں رہتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments