کیا حکومت ہی ریاست پاکستان کی نمائندہ ہے؟


عمران خان کی حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ متعدد سنگین اور اہم معاملات پر  اس کی غیر واضح  پالیسی اور متضاد بیانی ہے۔  وفاقی کابینہ کے ارکان ایک ہی معاملہ پر مختلف اور متضاد بیانات جاری کرتے رہتے ہیں یا ایک بات کہنے کے بعد   اس پر قائم  رہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔ اور  تبدیل شدہ صورت حال کا دفاع کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

اس  کا ایک واضح نمونہ گزشتہ دنوں تحریک لبیک پاکستان کے احتجاج، اس سے نمٹنے کی حکمت عملی، اعلانات اور بھارتی ایجنٹ قرار دینے جیسے دعوے تھے۔ لیکن ایک ہی روز  بعد ملک کے تمام شہریوں کی حفاظت کے ذمہ دار وزیر داخلہ شیخ رشید منظر نامہ سے غائب ہوچکے تھے اور ملک کا وزیر خارجہ اور قومی اسمبلی کا اسپیکر ہارے ہوئے ’جواریوں‘ کی طرح مفتی منیب الرحمان کی پناہ میں  میڈیا کو یہ بتارہے تھے کہ بہترین قومی مفاد میں ٹی ایل پی کے ساتھ   مصالحت کرلی گئی ہے۔ معاہدہ طے پاگیا ہے  لیکن اسے خفیہ رکھا جائے گا۔ اس موقع پر کوئی ذمہ دار یہ بتانے کے لئے موجود نہیں تھا  کہ  جو لوگ  کل تک دشمن  کے ایجنٹ اور انتشار پھیلا کر ملک  کے امن و امان کو نقصان پہنچانے کا سبب  کہے جارہے تھے، وہ اچانک محب وطن اور عوام دوست کیسے ہوگئے۔

اس قضیہ میں البتہ سب سے تکلیف دہ پہلو یہ تھا کہ ایک سرکش گروہ نے حکومت وقت کے ساتھ معاہدہ  کیا تھا لیکن اس کا اعلان ایک ایسا مذہبی رہنما کررہا  تھا جو کسی طور سے  سرکار کا نمائیندہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ مفتی منیب الرحمان اس معاہدہ سے  چند گھنٹے پہلے آرمی چیف سے ملاقات کرچکے تھے جس کے بارے میں انہوں نے خود ایک انٹرویو میں بتایا  کہ جنرل باجوہ  نے اس ملاقات میں ٹی ایل پی کے ساتھ تنازعہ کو پر امن طریقے سے حل کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی ۔  ایک سچے دین دار کے طور پر مفتی صاحب نے فوری طور سے ضامن بننے اور مصالحت کروانے کی حامی بھر لی تھی۔  حکومت ایک ایسے ملا کے پیچھے منہ چھپائے بیٹھی تھی جس کے ساتھ  عید کا چاند دیکھنے کے حوالے سے وزیر اطلاعات فواد چوہدری  تند و تیز بیانات  و الزامات کا تبادلہ کرتے رہے تھے۔ اس اختلاف رائے کا  انجام  یہ ہؤا  تھا کہ مفتی صاحب رویت ہلال کمیٹی کے چئیر مین کے عہدے سے ہٹائے گئے اور دانت پیستے ہوئے کراچی میں اپنے مدرسے روانہ ہوگئے۔ تحریک لبیک کے ساتھ تنازعہ نے انہیں اگلے پچھلے سارے حساب برابر کرنے کا موقع فراہم کردیا۔

مفتی منیب الرحمان نے گزشتہ ہفتے  ٹی ایل پی  کے احتجاج کو کچل دینے کے  سرکاری اعلان کو امن قائم کرنے کے پیغام سے تبدیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ  یہ معاہدہ خفیہ ضرور رکھا گیا ہے لیکن اس پر عمل درآمد ہوتا سب دیکھیں گے۔ یہ بات اس حد تک تو درست ثابت ہورہی ہے کہ تحریک لبیک پر سے پابندی اٹھا لی گئی ہے، اس کے تمام گرفتار شدگان کو رہا کردیا گیا ہے  اور قانون کا راستہ اختیار کرنے کا دعویٰ کرنے والے وزیر اعظم کی حکومت نے  ایسے لیڈروں  کی ضمانت کے حوالے سے بھی عدالتوں میں کسی مزاحمت کا مظاہرہ نہیں کیا جن پر غداری سے لے کر دہشت گردی تک کے الزامات عائد تھے یا جو سرکاری ڈیوٹی پر پولیس اہلکاروں کو ہلاک کرنے کی سازش کرنے والوں میں شامل تھے۔  آج کی خبر ہے کہ  اب  تحریک لبیک کے سینکڑوں  لیڈروں اور کارکنوں  کا نام فورتھ شیڈول سے بھی نکال دیا گیا ہے۔ ان میں اس گروہ کے لیڈر سعد رضوی کا نام نامی بھی شامل ہے حالانکہ وہ ابھی تک رہا نہیں ہوسکے۔ یہاں یہ جان لینے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ سعد رضوی کی رہائی پر حکومت اصولی طور سے متفق ہے لیکن عدالتی جھمیلے پورے ہونے میں کچھ وقت درکار ہوگا۔

اس دوران  ملک کے ایک ممتاز اخبار کے ذریعے یہ خبر بھی سامنے لائی جاچکی ہے کہ فوجی قیادت نے تحریک لبیک کے ساتھ تنازعہ کو پرامن طریقے سے حل کرنے کا مشورہ دیا تھا حالانکہ وزیر اعظم اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے والے سرکش عناصر کو کچل دینے کا حکم دے چکے تھے۔  امن کی بالادستی اور پاکستان کے معصوم شہریوں کی حفاظت کے لئے وزیر اعظم ہی کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنا پڑا۔  تاہم کسی گروہ کو غدار اور دہشت گرد قرار دینے کے بعد اچانک  انہیں امن میں حصہ دار بنانے کا اعلان کرنا ، ایک ایسی طویل جست ہے جس کا کوئی ٹھوس جواز فراہم نہیں کیا جاسکا۔ صرف یہ دکھائی پڑ رہا ہے کہ حکومت تمام ریاستی اداروں کی مکمل  نمائیندہ نہیں ہے یا ملک کے عسکری ادارے وزیر اعظم کا حکم سامنے آنے کے بعد ہی انہیں اس فیصلہ کے  نشیب و فراز سے آگاہ کرتے ہیں۔ خبر کے مطابق جنرل قمر جاوید باجوہ نے وزیر اعظم کو بتایا کہ تحریک لبیک کے خلاف کارروائی سے پہلے لال مسجد  ایکشن اور ماڈل ٹاؤن  سانحہ  کے  نتائج پر غور  کرلیا جائے۔ اگر  فیصلہ کرنے کی ’مجاز اتھارٹی‘ کسی عسکری کارروائی کی ذمہ داری قبول کرنا چاہتی ہے تو فوج کو حکم ماننے میں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

واقعات کی اس تصویر کے مطابق وزیر اعظم کو یا تو فیصلے کرتے ہوئے یہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ اس کے کیا نتائج مرتب ہوسکتے ہیں ۔  وہ کسی گروہ کو طاقت کے ذریعے روکنے کا حکم دینے سے پہلے یہ جاننے کی  کوشش نہیں کرتے کہ اس کے کیا سیاسی، سماجی اور جذباتی اثرات  مرتب ہوں گے اور کیاان کی حکومت ان  نتائج کا سامنا کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔  یا پھر یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ حکومت اور عسکری کارروائی  کرنے کی صلاحیت رکھنے والے اداروں کے درمیان مواصلت اتنی کمزور ہوچکی ہے کہ وزیر اعظم    سیکورٹی کے اہم فیصلے کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔ یا پھر ان کے پاس اتنا وقت بھی نہیں ہوتا کہ وہ باقاعدگی سے ملنے والی انٹیلی جنس رپورٹس  کو پڑھ کر سیاسی بیانات جاری کرنے اور کسی کارروائی کا حکم صادر کرنے   جیسے اقدام کریں۔

یہی صورت حال اب  تحریک  طالبان پاکستان کے ساتھ معاملہ کے حوالے سے دیکھنے میں آرہی ہے۔  دو ماہ  پہلے ستمبر کے آغاز میں صدر عارف علوی نے ایک انٹرویو میں تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوؤں کو عام معافی دینے  پر غور کرنے کا ذکر کیا تھا۔ بعد میں وزیر اعظم نے  ترکی کے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں اس بات کی تصدیق کی ۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی  بھی اس حوالے سے معلومات فراہم کرتے رہے ہیں۔   گزشتہ دو تین روز کے دوران وزیر اطلاعات فواد چوہدری ٹی ٹی پی کے ساتھ جنگ بندی  کا اعلان کرنے کے علاوہ معاہدہ کرنے اور اس کے دہشت گردوں کو  عام معافی دینے کا اعلان کرتے رہے ہیں۔  اس تصویر کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے وزیر اعظم عمران خان کو آرمی پبلک اسکول سانحہ کیس میں طلب کیا اور ان سے پوچھا گیا کہ  کیا حکومت اب ریاست کے خلاف ہتھیار  اٹھانے والوں کے ساتھ معاہدہ کرے گی؟ عمران خان اس کا کوئی جواب نہیں دے سکے اور انہوں نے ایک ماہر سیاست دان کی طرح ادھر ادھر کی ہانک کر ججوں کے تند و تیز سوالوں کو ٹالنے کی کوشش کی۔

آج وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی  معید یوسف نے  ڈان ٹی  وی کے ایک انٹرویو میں بات کرتے ہوئے  اس بات سے صریحاً انکار کیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ معاہدہ کرنے کا کوئی فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ ریاست اس  معاملہ میں بہت حساس اور واضح ہے‘۔    ان کا دعویٰ تھا کہ افغانستان میں چونکہ اب پاکستان دوست حکومت ہے جو تحریک طالبان پاکستان کی ویسے حمایت نہیں کرتی جیسے اشرف غنی کی حکومت کرتی تھی یااس وقت اس گروہ کو بھارتی حکومت کی حمایت حاصل تھی۔ بقول ان کے تبدیل شدہ حالات میں ’اگر کوئی پاکستانی شہری اپنی غلطی اور دہشت گردی  پر شرمسار ہے اور قانون کا سامنا کرنا چاہتا ہے تو قانون کے راستے کھلے ہیں‘۔   ملاحظہ کیجئے   عوام سے کوئی بھی بات نہ چھپانے کا دعویٰ کرنے والی حکومت کے ایک بہت ہی ذمہ دار اہلکار  نے کیسی شفاف گفتگو کی ہے۔ حالانکہ ایک روز پہلے ان کے باس یعنی وزیر اعظم کو ججوں کے سوالات کا  سامنا کرتے ہوئے بھی اس بات کا علم نہیں تھا۔ وہ تو اپنے وزیر اطلاعات کے بیانات کو  ہی اپنی حکومت کی پالیسی سمجھ رہے تھے۔

معید یوسف نے البتہ اس انٹرویو میں بات کرتے ہوئے حکومت کی بجائے ریاست کا لفظ استعمال کیا ہے لیکن یہ وضاحت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ ان دونوں میں کیا فرق ہے اور اس وقت وہ کس حیثیت میں  ان اطلاعات کو مسترد کررہے ہیں جن کا اعلان وزیر اطلاعات نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد کیا تھا۔ اسی انٹرویو میں امریکہ کو  پاکستان کی ائیرسپیس کے استعمال کا حق دینے کے حوالے سے ہونے والی بات چیت کے بارے میں ایک سوال پر  معید یوسف کا کہنا تھا کہ ’امریکہ ، پاکستان کے ساتھ بات چیت کے حوالے سے کنفیوژن کا شکار ہے‘۔ یعنی امریکی اہلکاروں یا حکومتی نمائیندوں کو خبر ہی نہیں ہوتی کہ وہ پاکستان سے کیا مانگ رہے ہیں اور پاکستان کیا ، کن شرائط پر دینے کے لئے تیار ہے۔ اسی سانس میں معید یوسف نے یہ اقرار بھی کیا کہ پاکستان اس وقت امریکہ کے ساتھ متنوع موضوعات پر مذاکرات کررہا ہے۔ اس کے باوجود وزیر اعظم کے قومی سلامتی کے مشیر کا دعویٰ ہے کہ  موجودہ حکومت ماضی کی طرح عوام سے کچھ نہیں چھپاتی۔ سب کچھ صاف صاف بتا دیتی  ہے۔

اہل پاکستان کو موجودہ حکومت کی ’صاف بیانی‘ پر تو شاید کوئی شبہ نہ ہو لیکن  وہ یہ سمجھنے سے ضرور قاصر ہیں کہ حکومت عوام کو بتانا کیا چاہتی ہے اور اس کی پالیسی درحقیقت ہے کیا؟  معید یوسف کے  تازہ انٹرویو کے بعد اب یہ ڈھنڈیا بھی پڑے گی کہ کیا ریاست اور حکومت ایک ہی ادارے کا نام ہے یا یہ دو مختلف چیزیں ہیں؟ امید ہے معید یوسف اور فواد چوہدری جلد ہی اس عقدہ کو بھی حل کردیں گے۔ لیکن کیا وہ کبھی اپنی حکومت کی پریشان خیالی بھی دور کرسکیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments