جب دلی کی فضا میں دو طیارے آپس میں ٹکرائے: ’یہ دماغ ہلا دینے والا حادثہ تھا‘

نیاز فاروقی - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، دلی


طیارہ حادثہ
12 نومبر 1996 کی اس شام کو سعودی ایئر لائنز کی ایک پرواز نے معمول کے مطابق دلی ہوائی اڈے سے اڑان بھری۔ موسم صاف تھا اور ہوا بھی پرسکون تھی اور کوئی بھی پریشان کن علامات نہیں تھیں جو اشارہ کرتیں کہ کچھ ہی لمحوں میں ہزاروں فٹ کی بلندی پر تقریباً 350 مسافروں سمیت یہ طیارہ چکنا چور ہو جائے گا۔

تقریباً 500 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے پرواز کرتا یہ بوئنگ 747 چند منٹوں میں 14,000 فٹ کی بلندی پر پہنچ چکا تھا اور اس نے دلی ہوائی اڈے کے ایئر ٹریفک کنٹرول (اے ٹی سی) سے مزید اوپر جانے کی اجازت مانگی تاہم اے ٹی سی نے اسے فی الحال اسی اونچائی پر رہنے کی ہدایت دی۔

دلی ہوائی اڈے کا رن وے ان دنوں یکطرفہ تھا (یعنی روانگی اور آمد دونوں رن وے کے ایک ہی طرف سے ہوتی تھیں)۔ اسی وقت مخالف سمت سے ایک قازق طیارہ آئی ایل 76 15,000 فٹ کی بلندی پر دلی کی طرف گامزن تھا۔ دلی اے ٹی سی نے اسے ’ایف ایل 150‘ یعنی 15000 فٹ کی بلندی پر پرواز برقرار رکھنے کی ہدایت دی۔

اے ٹی سی نے قازق طیارے کو یہ بھی بتایا کہ اس کے براہ راست مخالف سمت میں سعودی ایئر لائنز کی فلائٹ محض دس میل دور ہے اور امکان ہے کہ یہ اگلے پانچ میل میں قازق طیارے کو عبور کرے گی۔ اے ٹی سی نے مزید ہدایت دی کہ ’رپورٹ، اِف ان سائٹ‘ یعنی اگر یہ طیارہ نظر آئے تو اے ٹی سی کو اطلاع کریں۔

قازق طیارے نے دوبارہ فاصلے کا تعین کیا۔ اے ٹی سی نے جواب دیا کہ ’ٹریفک اب آٹھ میل دور ہے اور 14000 فٹ کی بلندی پر ہے۔‘

قازق طیارے کے عملے کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ’150 یعنی ( 15000 فٹ) پر پہنچو کیونکہ 140 پر۔۔۔ آہ وہ رہا، آہ ایک۔۔۔‘

دلی ہائی کورٹ کے جج آر سی لاہوٹی کی صدارت میں حادثے کی تحقیقات کے لیے قائم شدہ تفتیش میں یہ انکشاف ہوا کہ قازق طیارے کے کاک پٹ میں جو گفتگو ہوئی اس کے مطابق ریڈیو افسر نے دونوں جہازوں کے ٹکرانے سے عین چار سیکنڈ پہلے سعودی طیارے کو سامنے دیکھا تھا۔

یہ واقعہ ہوابازی کی تاریخ کے بدترین حادثات میں سے ایک ہے۔

اس میں مجموعی طور پر آٹھ ملکوں کے 351 افراد ہلاک ہوئے، جس میں سعودی ایئرلائنز کی فلائٹ میں 312 مسافر اور عملے کے 23 ارکان تھے اور قازق ہوائی جہاز میں 32 مسافر اور عملے کے پانچ ارکان تھے۔

قزاق طیارے کا ملبہ

اسی طرح سعودی طیارے کے عملے کے آخری الفاظ یہ ظاہر کرتے ہی کہ انھوں نے بھی قازق طیارے کو آخری لمحات میں دیکھا تھا اور وہ سمجھ گئے تھے کہ موت عنقریب ہے۔ لاہوٹی کمیشن کے مطابق ان کے آخری الفاظ تھے ’استغفر اللہ، اشھد، ان للّٰہ و انا الیہ راجعون۔‘

طیاروں کے ملبے سے یہ اندازہ لگایا گیا کہ قازق طیارہ سعودی طیارے سے نیچے آ چکا تھا اور سعودی طیارہ نظر آتے ہی فوری طور پر اپنی صحیح بلندی یعنی 15000 فٹ پر جانے کی کوشش کی اور عین وقت پر اس کا پچھلا حصہ سعودی طیارے کے دائیں پر سے ٹکرا گیا۔

واحد گواہ

زمین پر دونوں طیاروں کے تصادم کا کوئی چشم دید گواہ موجود نہیں تھا تاہم ہوا میں ایک شخص تھا جس نے حادثے کے چند ہی لمحوں بعد کا منظر اے ٹی سی کو بیان کیا۔

دلی سے آٹھ منٹ کے فاصلے پر امریکی فضائیہ کا ایک طیارہ امریکی سفارت خانے کا سامان لے کر اسلام آباد سے دلی پہنچنے ہی والا تھا۔ تصادم کے دو منٹ بعد اس نے دلی اے ٹی سی کو اطلاع دی کہ اس نے ایک بڑا آگ کا گولہ دیکھا ہے جو کہ چند لمحوں میں زمین پر دو الگ جانب گرتے ہوئے نظر آیا۔

اس کے پائلٹ نے اے ٹی سی کو بتایا کہ ’ہم نے اپنے دائیں طرف ایک بڑے آگ کے گولہ جیسا کچھ دیکھا ہے، یہ ایک بڑے دھماکے کی طرح لگ رہا ہے۔‘

اے ٹی سی نے فوراً دونوں طیاروں سے کئی بار رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ یہ ظاہر تھا کہ بہت دیر ہو چکی ہے۔

اس کے ایک منٹ بعد امریکی طیارے نے دوبارہ خبر کی تصدیق کی۔ انھوں نے پہلے اسے بجلی چمکنے کا واقعہ سمجھا تھا لیکن انھوں نے واضح کیا کہ ’ہمیں اس وقت آپ کے شمال مغرب میں تقریباً 44 میل دور دائیں جانب دو آگ کے گولے نظر آ رہے ہیں۔‘

انھوں نے مزید وضاحت کی کہ ’گزرتے ہوئے ہم نے بادل میں آگ کا ایک بڑا گولہ دیکھا اور مجھے ملبہ نظر آیا۔ زمین پر دو الگ الگ جگہوں پر آگ ہے۔ اوور۔‘

یہ آگ کے گولے دلی ہوائی اڈے سے تقریباً 100 کلومیٹر دور ریاست ہریانہ کے چرخی دادری گاؤں میں گرے۔

اُن دنوں کی اخبارات کی سرخیاں کچھ یوں تھی: ’257 لاشیں بہت حد تک قابل شناخت، 62 اتنی جلی ہوئی ہیں کہ شناخت ناممکن، 32 مکمل طور پر مسخ شدہ۔‘

مرنے والوں کی قومیت: 331 انڈین، 18 سعودی، نو نیپالی، تین پاکستانی، دو امریکی، ایک برطانوی اور ایک بنگلہ دیشی۔

سعودی ائیرلائنز

جائے وقوعہ کے مناظر

گاؤں والوں نے بھی میڈیا کو بتایا کہ انھوں نے اوپر سے آگ کے گولے گرتے ہوئے اور نیچے سے سیاہ دھواں اٹھتے دیکھا تھا۔

کمیشن نے گاؤں والوں کے حوالے سے بتایا کہ ’پہلے تو ایک خطرناک آواز آئی جس نے پورے گاؤں کو ہلا کر رکھ دیا۔ گھروں کے دروازے اور کھڑکیاں ٹوٹ گئیں اور چاروں طرف شیشے کے ٹکڑے بکھر گئے۔ خوفزدہ لوگ اسے زلزلہ سمجھ کر اپنے گھروں سے باہر نکل آئے۔‘

جب یہ ظاہر ہو گیا کہ یہ طیارہ ہے تو لوگ آگ اور دھویں کی جانب بھاگے کیوںکہ طیارہ گاؤں کے باہر کھیت میں گرا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ سعودی پائلٹ نے گاؤں کو بچانے کی کوشش کی تھی اور طیارے کو کھیت کی جانب لے گئے تھے حالانکہ تحقیق میں اس کے کوئی ثبوت نہیں ملے۔

جب تک یہ خبر دلی میں میڈیا کے دفاتر تک پہنچی تو اس وقت تک شام کے نیوز بلیٹن ریکارڈ ہو چکے تھے۔

حادثے سے متعلق نامکمل معلومات کی بنا پر صحافی جائے وقوعہ کی جانب روانہ ہو گئے لیکن عدم معلومات کی وجہ سے افراتفری میں کچھ ہریانہ کے چرخی دادری کے بجائے اتر پردیش کے دادری گاؤں پہنچ گئے حالانکہ دونوں مخالف سمتوں میں تقریباً 150 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔

مصنفہ نتاشا بدھوار جو کہ اس وقت این ڈی ٹی وی کے لیے کام کرتی تھیں، وہاں پہنچنے والی پہلے صحافیوں میں سے تھیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ جب تک وہ موقعے پر پہنچیں تو رات کے تقریبا ساڑھے گیارہ بج چکے تھے اور وہ کچھ دور سے یہی دیکھ سکتی تھیں کہ جہاز کا ملبہ جل رہا ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ قریب جاتے ہوئے وہ یہ سوچ رہی تھیں کہ وہ ملبے پر چل رہی ہیں، تبھی ان کا پیر ایک لاش سے جا ٹکرایا۔ ان کے ساتھی کیمرہ مین نے کیمرے کی روشنی جلائی تو یہ منظر دیکھنے کو ملے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے آج بھی اس کا چہرہ یاد ہے، اس کے چہرے کے نقش، اس کے جسم کا سائز۔ ایسے لگ رہا تھا کہ وہ سو رہا ہو۔‘

جیسا کہ نتاشا نے محسوس کیا اور اس حادثے کی کوریج کرنے والے زیادہ تر صحافی جلتی ہوئی لاشوں کی بُو پر تبصرہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ وہاں آس پاس ہر کھیت میں جسم کے اعضا بکھرے ہوئے تھے اور وہ اندھیرے میں کھیت کی مٹی یا گوبر سمجھ کر باقیات پر چل رہے تھے۔

نتاشا نے دوسرے صحافیوں کی طرح اس رات وہیں پر ہی قیام کیا اور جب صبح ہوئی تب انھیں سانحے کی اصل شدت کا اندازہ ہوا۔ ہر جانب لاشیں، گھڑیاں، زیورات، چشمے، ساڑیاں، مسالے کے پیکٹ اور کھلونے نظر آ رہے تھے۔

وہاں پر بکھرے جسم اور ان کے مال و اسباب ان کی خوشیوں اور غموں کی عکاسی کر رہے تھے۔ نتاشا یاد کرتی ہیں کہ ’میں نے وہاں گُڑیاں، ٹیڈی بیئرز اور بیگز وغیرہ دیکھے۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ وہاں کچھ آدھی لاشیں، کسی کا اوپری حصہ غائب تو کسی کا نچلہ حصہ اور کچھ جلی ہوئی لاشیں تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ ایک دماغ ہلا دینے والا حادثہ تھا۔ یہ ناقابل تصور تھا کہ دو طیارے ہوا میں ٹکرا جائیں گے۔‘

ہزاروں فٹ کی بلندی سے تیزی سے گرنے کے بعد سعودی طیارے کا انجن جہاں گرا وہاں 20 فٹ کا ایک گڑھا بن گیا تھا۔ جہاز کا ڈھانچہ ناقابل شناخت تھا اور صرف اس کے دم کا کچھ حصہ ایک حد تک پہچانا جا رہا تھا۔

اخبارات میں اس وقت کی رپورٹس کے مطابق لوگوں نے لاشوں سے گھڑیاں، زیورات اور کپڑے اتار لیے۔ اس کے برعکس بہت سے مقامی لوگوں نے مرنے والوں اور ان کے سامان کی بازیابی میں قابل تعریف مدد کی اور انھوں نے مقامی حکام کے ساتھ مل کر لاشوں کو قریبی ہسپتال پہنچایا۔

نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق ’جب لاشوں کو چرخی دادری ہسپتال لے جایا گیا تو انھیں ہسپتال کی راہداریوں اور وارڈز میں برف کے ڈھیروں پر پھینک دیا گیا، جس سے وہاں خون کی ندیاں بہنے لگیں۔‘

طارہ حادثہ

چونکہ مقامی ہسپتال میں لاشوں کو محفوظ رکھنا آسان نہیں تھا اور کئی لاشیں اس حد تک جل چکی تھیں یا بکھر گئی تھیں کہ ان کی شناخت ناممکن تھی اور انھیں جلانا یا ان کی تدفین فوری طور پر ضروری تھی۔

لیکن اس معمولی کام نے چند ہی لمحوں میں انڈین معاشرے کے پرانے تنازعات کو واضح کر دیا۔

ایک ہندو جماعت نے مطالبہ کیا کہ غیر پہچان شدہ جلی ہوئی اور بکھری لاشوں کو ہندو رسومات کے مطابق جلایا جائے۔ مسلمانوں نے اس کی مخالفت کی۔ بالآخر کئی گھنٹوں کے مذاکرات کے بعد یہ طے ہوا کہ ہوائی جہاز میں مسلمانوں اور ہندوؤں نامعلوم مردہ کے تناسب کے مطابق لاشوں اور ان کی باقیات کو تقسیم کیا جائے گا۔

مجموعی طور پر 76 مسلمانوں، 15 ہندوؤں اور تین مسیحیوں کی لاشیں ناقابل شناخت تھیں یا ان کے چند اعضا ملے تھے اور جن کی باقیات کو دفن کیا گیا یا جلایا گیا۔

نتاشا بہت سی لاشوں کے پیچھے دلی میں ان کے قبرستان اور شمشان گھاٹ تک گئیں۔

انھوں نے تابوتوں سے لاشوں کے حصے جھولتے اور ان میں سے چوہے نکلتے دیکھے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ ان کہانیوں میں سے ایک ہے جس پر مزید لکھنے اور پڑھنے کی ضرورت ہے کیونکہ لوگ اسے کافی جلدی بھول گئے کیونکہ اس میں بہت کم افراد شہر سے تھے یا معاشرے کے اعلیٰ طبقے سے تھے۔

سواری

امیدوں کی سواری

دونوں طیاروں میں ایسے افراد سوار تھے جو اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے امیدیں لیے اپنی عارضی منزلوں کی جانب روانہ تھے۔

قازق طیارے کو چند کرغز تاجروں نے چارٹر کر رکھا تھا جو کہ آنے والے موسم سرما کے لیے سستے کپڑے خریدنے کے لیے دلی آ رہے تھے۔ سعودی ہوائی جہاز میں زیادہ تر مزدور تھے، جو سعودی عرب میں تیزی سے بڑھتے ہوئے تعمیراتی شعبے میں ملازمت کرنے جا رہے تھے۔

25 سال بعد مرنے والوں کے لواحقین ہچکچاتے ہوئے اور ٹکڑوں میں اپنی کہانیوں کو بیان کرتے ہیں۔

بہار کے گوپال گنج ضلع سے تعلق رکھنے والے خورشید عالم کئی دفعہ سعودی عرب جا چکے تھے۔ ان کی اہلیہ صفیہ خاتون کے لیے ان کی طویل غیر حاضری اب ایک معمول کی بات بن چکی تھی۔

وہ جانتی تھیں کہ ان کے سعودیہ جانے کا مطلب ہے کہ وہ اب صرف دو سال بعد ہی ایک ماہ کے لیے واپس آئیں گے لیکن بچوں اور اہلخانہ کی خوشحالی کے لیے یہ رخصتی ضروری تھی۔

حادثے کی خبر انھیں اگلی شام کو ملی۔

مزید پڑھیے

کیا کویت پہنچنے والی برٹش ایئرویز کی پرواز 149 جاسوسی مشن پر تھی؟

’سمجھدار‘ پائلٹ اور نوبیاہتا جوڑے جن کے اہلخانہ پُرامید ہیں کہ وہ لوٹیں گے

32 برس قبل گلگت سے روانہ ہونے والی پی آئی اے کی فلائیٹ جو آج تک منزل پر نہیں پہنچ سکی

ان دنوں پل پل کی خبر لینے کے لیے آس پاس کوئی فون نہیں تھا۔ وہ اس روز اپنی اداسی اور تنہائی کو مارنے کی کوشش کر رہی تھیں جب شام چار بجے ان کے گاؤں سے ایک شخص آیا اور خورشید کی فلائیٹ کے بارے میں دریافت کیا۔ اس نے ریڈیو پر خبر سنی تھی کہ دلی کے باہر کوئی طیارہ گر گیا ہے۔ اس کا خدشہ صحیح تھا۔

خاندان کی معمولی سی بچت لے کر ان کے بھائی سمیع اللہ فوراً دلی کی طرف روانہ ہو گئے۔ زیادہ فاصلے اور رستوں کی مشکلات کی وجہ سے وہ تیسرے دن چرخی دادری پہنچے۔ وہاں انھیں بتایا گیا کہ لاشوں کو دلی کے ایمز ہسپتال میں بھیج دیا گیا ہے۔

وہ اور دوسرے متاثرین بتاتے ہیں کہ ہر طرف انتشار کا سماں تھا۔ لواحقین جائے حادثہ، دلی ہوائی اڈے اور ہسپتالوں میں اپنے رشتے داروں کی تلاش میں بھٹک رہے تھے۔ اہلکاروں کے پاس تسلی بخش جواب نہیں تھے اور دور دراز سے آئے رشتہ داروں کو نہیں معلوم تھا کہ انھیں کس سے رابطہ کرنا چاہیے۔

اس وقت کے اخبارات کی رپورٹس حالات کی عکاسی کرتی ہیں۔

انڈین ایکسپریس کے اداریے نے حالات کو حکام کی ’کاہلی اور بےحسی‘ کا مظاہرہ قرار دیا۔ ٹائمز آف انڈیا نے لکھا کہ ’دلی میں لاشوں کی آمد کے 12 گھنٹے بعد بھی انھیں تابوتوں میں نہیں ڈالا گیا تھا۔ ان میں سے چند دھوپ میں پڑی تھیں اور ان کے اوپر کوے منڈلا رہے تھے۔‘

اسی رپورٹ میں یہ بتایا گیا کہ تابوتوں کے لیے لواحقین کے درمیان لڑائیاں ہو رہی تھیں اور انھیں تابوت حاصل کرنے کے لیے رشوت دینی پڑ رہی تھی۔

سمیع اللہ ایمز پہنچے لیکن لاش وہاں بھی نہیں ملی۔ افسردگی اور الجھن میں وہ سب سے اپنے بھائی کی لاش کے بارے میں دریافت کر رہے تھے کہ تبھی کسی نے بتایا کہ دلی میں ایک اور ہسپتال ہے جہاں اس حادثے میں ہلاک ہونے والوں کی لاشیں بھیجی گئی ہیں۔

آخرکار متعدد ٹرکوں میں تلاش کرنے کے بعد چوتھے دن رات کے گیارہ بجے لاش ملی۔

پانچویں دن وہ اپنے گاؤں پہنچے تو لاش سے ناقابل برداشت بدبو آ رہی تھی لیکن وہ اس بات سے پرسکون تھے کہ ان کے بھائی کا جسم مکمل طور پر سلامت تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں جسم پر ایک بھی خراش نہیں نظر آئی۔ ہاں، ان کی جیب میں جو پیسے تھے وہ غائب تھے۔‘

خورشید کے ساتھ اسی حادثے میں ان کے گاؤں کے ایک اور شخص ہلاک ہوئے تھے لیکن ان کی لاش نہیں مل سکی۔ گاؤں والوں نے لاش نہ ملنے پر ان کا غائبانہ جنازہ ادا کیا۔

اسلم اعجاز کی شادی کو محض چند ہی ہفتے ہوئے تھے کہ وہ گھر سے سعودی عرب کے لیے روانہ ہوئے۔

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ان ملکوں میں کمپنیاں چھٹیوں کا شیڈول اس طرح سے جاری کرتی ہیں کہ ملازم کے ویزے کی معیاد چھٹیاں ختم ہونے کے ساتھ ہی ختم ہو۔ یہ ایک مؤثر حربہ ہے جو یہ یقینی بناتا ہے کہ ملازمین اپنی چھٹی نہ بڑھا سکیں۔

اسلم ان لوگوں میں شامل تھے جو کہ ویزہ کی وجہ سے خاصے محتاط تھے۔ چھٹیاں باقی ہونے کے باوجود انھوں نے احتیاطاً چھٹی ختم ہونے سے پہلے ہی واپس جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ دلی میں ان کے قریبی رشتہ دار امیر الحق انھیں ایئرپورٹ پر رخصت کرنے گئے تھے۔ رسمی کارروائیوں کو مکمل کرنے کے بعد اسلم نے ایئر پورٹ کے شیشے کے اندر سے اشارہ کیا کہ سب کچھ ٹھیک ہے، آپ جا سکتے ہیں۔

انھیں گھر لوٹ کر ابھی ایک یا آدھا گھنٹہ ہی گزرا تھا کہ ان کے پڑوسی کرایہ دار نے انھیں بتایا کہ اس نے ٹی وی پر خبر سنی ہے کہ سعودی عرب کی ایک فلائٹ گر گئی ہے۔ انھوں نے فوراً اپنے گاؤں کے واحد فون پر کال کی اور یہ خبر دے دی۔ گھر والوں کو یقین نہیں ہو رہا تھا کہ ایسا ہوا ہے۔ پھر انھوں نے اگلے دن اخبارات میں شائع ہونے والے ہیلپ لائن نمبر پر کال کی۔

گھر والوں نے پوچھا کہ کیا اسلم اعجاز نام سے کوئی مسافر آپ کی فہرست میں ہے؟

انھوں نے کہا کہ اسلم اعجاز تو نہیں، اسلم زاد ہے۔ گھر والوں کے لیے خبر کی تصدیق کے لیے اتنا ہی کافی تھا۔

دلی میں اسلم کے قریبی رشتہ دار فوراً جائے حادثہ کے لیے روانہ ہو گئے۔ وہ بھی ریاست ہریانہ کے چرخی دادری کے بجائے اتر پردیش کے دادری گاؤں پہنچ گئے اور جب تک وہ چرخی دادری پہنچتے، دوپہر ہو چکی تھی۔

اس وقت تک حکام نے مقامی لوگوں کی مدد سے قابل شناخت لاشوں کو مقامی ہسپتال منتقل کر دیا تھا۔ انھوں نے ہسپتال میں لاشوں کے ڈھیر میں بہنوئی کی قمیض سے انھیں پہچان لیا۔ ان کے کان سے خون آ رہا تھا اور ایک پیر ٹوٹ گیا تھا لیکن اس کے علاوہ جسم ٹھیک تھا۔

یہ اسلم کا سعودی عرب کا تیسرا سفر ہوتا۔ جب وہ پہلی بار وہاں سے واپس آئے تو وہ پر امید تھے کہ شادی کرنے کے بعد لوٹیں گے لیکن ایسا ممکن نہیں ہوا۔ حالانکہ دوسرے دورے میں شادی ہو گئی لیکن اس کے اکیس دن بعد وہ ہلاک ہو گئے۔

اس سانحہ میں مرنے والوں کی اکثریت ان علاقوں سے تھی جو انڈیا کے غریب ترین علاقوں میں سے ہیں مثلاً اتر پردیش اور بہار۔

خورشید کا تعلق گوپال گنج سے تھا اور انھی کے گاؤں کے ایک اور شخص کی موت ہوئی تھی۔ مرنے والا ایک اور شخص ان کے گاؤں سے صرف 12 کلومیٹر دور جگملواں گاؤں سے تعلق رکھتا تھا۔ جگملواں سے 35 کلومیٹر دور ضلع سیون کے خالص پور گاؤں میں ایک شخص کی موت ہوئی تھی اور وہاں سے 20 کلو میٹر دور جمال احاطہ گاؤں میں چھ نوجوانوں کی موت ہوئی تھی۔ وہ سبھی پہلی بار ملک سے باہر جا رہے تھے لیکن لاش کی شکل میں لوٹے، وہ بھی صرف تین۔

ہلاک ہونے والوں میں راجستھان، دلی، کیرل، جموں کشمیر، پنجاب، آندھرا پردیش، مہاراشٹر، ہریانہ، آسام، مدھیہ پردیش اور مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے شامل تھے۔

اس حادثے میں انیل مہیشوری نامی ایک شخص کے دو بیٹے ہلاک ہوئے تھے۔

لواحقین

لواحقین

ایک ایسا خوش قسمت شخص بھی تھا جسے اس کے احتجاج کے باوجود بھی کسی وجہ سے طیارے میں بیٹھنے کی اجازت نہیں ملی اور وہ حادثے کے تقریباً ایک ہفتے بعد سعودیہ گیا۔ ایک ایسی فیملی بھی تھی جسے حادثے کے پانچ روز پہلے روانہ ہونا تھا لیکن ان کے بچے کے بیمار ہونے کی صورت میں انھیں تاخیر سے جانا پڑا۔

حادثے میں ہلاک ہونے والی ایک برطانوی نرس سعودی عرب منتقل ہونے والی تھی اور اپنے نئے ہسپتال میں نوکری کی شروعات کرنے سے پہلے انڈیا میں چھٹیاں منا کر واپس جا رہی تھیں۔

طیارے میں مسافروں کی طرح پائلٹوں کی بھی اپنی کہانیاں تھیں۔ کیپٹن خالد الشبیلی کے بڑے بھائی شارجہ میں تھے جب انھوں نے حادثے کی خبر سنی اور خبر کی تصدیق کے بعد فوراً نئی دہلی روانہ ہو گئے اور براہ راست جائے حادثہ پر پہنچے۔

سعودی ایئرلائنز کے ایک سابق پائلٹ انس القوز اپنی کتاب ’مواقف طیار‘ میں لکھتے ہیں کہ وہ حادثے کے تیسرے دن اپنے بھائی کی لاش تلاش کرنے میں کامیاب ہوئے۔

انس مزید لکھتے ہیں کہ جب کیپٹن خالد الشبیلی کے بڑے بھائی ہوائی جہاز کی بکھری اور جلی ہوئی باقیات کی طرف نظر دوڑا رہے تھے تبھی ایک امدادی کارکن نے آواز دی کہ ’یہاں طیارے کے نیچے کچھ لاشیں ہیں۔‘

انس کیپٹن خالد الشبیلی کے بھائی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انھوں نے بتایا کہ ’میں نے اپنے بھائی کو دیکھا اور میں نے اُس کے سینے پر ائیرلائن کے بیج اور کندھے پر لگے ایپولیٹس اور اُن کے کچھ سرکاری کاغذات جو اُس کے سینے کی جیب میں تھے، سے پہچانا۔‘

انھوں نے قواز کو مزید بتایا کہ ’وہ اس قدر زخمی تھے کہ ان کے جسم کی زیادہ تر ظاہری خصوصیات غائب ہو گئی تھیں لیکن جب میں نے انھیں صاف کیا تو میں نے کچھ عجیب دیکھا۔ ان کی جلد ان کے قدرتی بھورے رنگ کے برعکس کافی سفید تھی اور اب بھی خالص سرخ خون بہہ رہا تھا۔۔۔۔ہاں، اب بھی خون بہہ رہا تھا اور وہ حادثے کا تیسرا دن تھا۔‘

اخبارات نے یہ بھی بتایا کہ چار مسافر ایسے تھے جو کہ زمین پر گرنے کے بعد تک سانس لے رہے تھے لیکن ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ گئے۔ امیر الحق کا کہنا ہے کہ ’وہاں لوگوں نے بتایا کہ میرے بہنوئی بھی زمین پر گرنے تک زندہ تھے لیکن ہم نے تو دیکھا نہیں تھا تو ہمیں نہیں معلوم کہ یہ بات حقیقت ہے یا نہیں۔‘

حادثے کا ذمہ دار کون؟

حادثے کے بعد قیاس آرائیوں کا دور جاری تھا۔ چند لوگوں نے طیارے کے آلات میں اچانک ممکنہ خرابی کو حادثے کی وجہ بتایا، کسی نے دلی اے ٹی سی کے آلات کو ’آؤٹ ڈیٹیڈ‘ کہا تو کچھ نے پائلٹوں کو مورد الزام ٹھہرایا۔

جب ’بلیک باکس‘ کی تحقیق کا وقت آی تو اسے انڈیا میں کھولنے کے لیے فریقین متفق نہیں ہو سکے۔ لاہوٹی کمیشن نے انڈیا کی نیشنل ایروناٹیکل لیبارٹری میں ریکارڈ حاصل کرنے کی تجویز دی تھی لیکن دونوں ایئرلائنز نے لیب کی صلاحیتوں پر خدشات کا اظہار کیا اور انڈیا سے باہر ’ڈی کوڈنگ‘ پر اصرار کیا۔

بالآخر فیصلہ یہ ہوا کہ قازق ایئر لائنز اپنے بلیک باکس کی تحقیق ماسکو کی ایک لیب میں کروائیں گے اور سعودی ایئرلائنز برطانیہ کی ایک لیب میں۔ لاہوٹی کمیشن اور فریقین کو اس عمل کا مشاہدہ کرنے کے لیے دونوں جگہوں پر موجود رہنے کی اجازت تھی۔

جائے حادثہ کا دورہ، اے ٹی سی کے عملے سے ملاقات اور فلائٹ ریکارڈ ڈیٹا اور وائس ریکارڈز یعنی بلیک باکس کا تجزیہ کرنے کے بعد لاہوٹی کمیشن نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ’تصادم کی بنیادی اور تخمینی وجہ قازق طیارے کا بلا اجازت 14000 فٹ کی کم اونچائی اختیار کرنا اور ہدایت کے مطابق 15000 فٹ پر قائم نہ رہنا ہے۔‘

مجموعی طور پر کمیشن نے 15 سفارشات کیں۔

یہ بھی پڑھیے

وہ جنھیں موت کھینچ کر حادثے والے طیارے میں لے گئی

حادثے کے بعد طیارے کے پرزے کیسے باتیں کرتے ہیں؟

’میں اُس طیارہ حادثے کی عینی شاہد ہوں جس میں میری دو سگی بہنیں ہلاک ہوئیں‘

کمیشن نے وضاحت کی کہ قازق طیارے کے حادثے کی ایک وجہ ’قازق پائلٹ کی انگریزی زبان کا ناکافی علم تھا جس کے نتیجے میں اے ٹی سی کی ہدایات کی غلط تشریح کی گئی تھی۔‘

کمیشن نے کہا کہ دونوں طیاروں کو اے ٹی سی کی طرف سے واضح اور مناسب ہدایات دی گئی تھیں جو کہ طے شدہ طریقہ کار کے مطابق تھیں اور دلی ہوائی اڈے کی یکطرفہ ہوائی راہداری نے حادثے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔

کمیشن نے یہ بھی کہا کہ تصادم سے تقریباً 30 سیکنڈ پہلے دونوں طیارے بادل کی تہہ میں داخل ہوئے تھے اور ایک کمزور قسم کا ’ٹربولینس‘ ہوا تھا لیکن اس سے کوئی ہنگامہ خیز صورتحال نہیں پیدا ہوئی تھی۔

اس نے یہ بھی نتیجہ اخذ کیا کہ یہ تصادم کسی براہ راست یا بالواسطہ تخریب کاری، اندرونی دھماکے یا دونوں ہوائی جہازوں میں سے کسی کی مکینیکل خرابی کا نتیجہ نہیں تھا۔

اس نے مزید کہا کہ حالانکہ ’ہوائی اڈے کے موڈرنائیزیشن کا کام جاری ہے لیکن وہاں سیکنڈری ریڈار دستیاب نہیں جو کہ دوری کے علاوہ طیاروں کی بلندی بھی بتاتا ہے۔‘

یہ بات عام طور پر تسلیم کی جاتی ہے کہ اس وقت دلی کے ہوائی اڈے کا ریڈار سسٹم پرانا تھا جو فاصلے کا حساب تو لگا سکتا تھا لیکن بلندی کا نہیں۔

اس وقت پائلٹ ایسوسی ایشن کے صدر وی کے بھلا کا کہنا ہے کہ انھوں نے حادثے سے چند ماہ قبل حکومت ہند کو خط لکھ کر آگاہ کیا تھا اور خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اگر نئے آلات نہیں لائے گئے تو اس طرح کے واقعات ہو سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت پورے ملک میں ’ریڈار‘ نہیں تھے جو کہ جہازوں کو آس پاس کے جہاز کے بارے میں بتاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے تین واقعہ مثال کے طور پر پیش کیے جو کہ ہوا میں پائلٹ کی عقلمندی کے وجہ سے حادثے میں تبدیل ہونے سے بچے تھے۔ میں نے لکھا تھا کہ ’اگر یہ مندرجہ ذیل اقدامات نہیں لیے گئے تو ہوا میں تصادم ناگزیر ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے صرف مسئلہ ہی نہیں بتایا تھا، میں نے اس کا حل بھی تجویز کیا تھا لیکن ان پر عمل کریش کے بعد ہوا۔‘

اس حادثے کے بعد دہلی میں ریڈار کے نظام کو آخرکار ’موڈرنائیز‘ کیا گیا۔ ڈائریکٹوریٹ جنرل آف سول ایوی ایشن نے انڈیا کے اندر اور باہر جانے والے تمام طیاروں میں ہوائی ٹکراؤ سے بچنے کے نظام کا ہونا لازمی قرار دیا۔ بین الاقوامی سطح پر اس کا اثر یہ ہوا کہ پائلٹوں کے لیے ایک معیار کی انگریزی کو لازمی بنایا گیا۔

میموریل

25 سال بعد میموریل اور سیاحتی مرکز کے لیے زمین کی تلاش

اس حادثے میں زیادہ تر افراد معاشرے کے کمزور طبقے سے منسلک تھے، متاثرین کے مطابق انڈین حکومت نے انھیں کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا۔

پارلیمان کے ایک رکن نے جولائی 1998 میں حکومت سے دریافت کیا کہ کیا لاہوٹی کمیشن نے اپنی رپورٹ پیش کر دی؟ کیا اس نے طیاروں کو ٹکرانے کے لیے قازق عملے کو ذمہ دار ٹھہرایا؟ اور اگر ہاں تو کیا انڈین حکومت نے قازق حکومت سے تحقیقات کے تمام اخراجات اور معاوضے کا مطالبہ کیا؟

وزیر برائے سول ایوی ایشن نے صرف اتنا جواب دیا کہ ہاں کیمشن نے رپورٹ پیش کر دی ہے اور رپورٹ زیر غور ہے تاہم سعودی حکومت نے ہر مرنے والے شخص کے لواحقین کو بارہ ہزار پاونڈ ادا کیے۔

حادثے کے برسوں بعد بھی اس طرح سے ہوا میں طیاروں کا ٹکرانا ناقابل یقین صورتحال نظر آتی ہے لیکن 349 افراد کی اموات حتمی ہے، کم از کم ان کے لیے جنھوں نے اپنے کسی قریبی کو اس حادثے میں کھویا۔

چند کو حالات نے اتنا مجبور کر دیا کہ انھیں اپنے مرنے والے شوہر کے بھائی سے شادی کرنی پڑی، چند کو کم عمری میں روزی تلاش کرنا پڑی اور چند کو کتابوں کی قربانی دینا پڑی۔

چند نے زیادہ معاوضے کے مطالبے کے لیے مقدمہ دائر کیا لیکن عدالت نے اسے یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ مدعی نے اس مقدمے کے لیے صحیح وقت پر انڈین حکومت کی اجازت نہیں لی تھی جو کہ غیر ملکی ریاست یا سفیر کے خلاف مقدمے لے لیے لازمی ہوتا ہے۔

دریں اثنا مقامی حکومت نے مبینہ طور پر چرخی دادری میں مرنے والوں کے لیے ایک میموریل بنانے کے منصوبے کا اعلان کیا۔

اخباروں کے مطابق اس منصوبے کے تحت وہاں پر ایک میموریل اور سیاحتی مرکز تعمیر کیا جائے گا۔ اس کے لیے 15 سے 20 ایکڑ زمین کی تلاش اب بھی جاری ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32553 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments