مہنگائی کا طوفان اور حفظان صحت


آج کل پاکستانی عوام کے لئے کرکٹ ورلڈ کپ کے علاوہ جو ٹاپک دلچسپی کا حامل ہے وہ ہے کمر توڑ مہنگائی۔ کورونا کی وجہ سے عالمی مارکیٹ کے حالات و رجحانات، موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کی سمت اور تاجروں کے بے رحم اور ذخیرہ اندوز رویہ کو دیکھتے ہوئے اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ مہنگائی کا یہ طوفان جلد کہیں تھمے گا۔ ایسے حالات میں اس بات کا امکان بھی نہایت کم ہے کہ عام آدمی کی خالص آمدنی میں کوئی اضافہ ہو سکے۔

اس لیے اچھی زندگی گزارنے کے لئے مہنگائی کے اثر کو زائل کرنا بہت ضروری ہے۔ ایسا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ڈیمانڈ یعنی اشیا و خدمات کی طلب میں کمی اس انداز سے کی جائے کہ روزمرہ معمولات بھی متاثر نہ ہوں اور عزت نفس بھی قائم رہے۔ ہم یہاں روزمرہ زندگی کے ایک ایسے فیکٹر کا جائزہ لیتے ہیں جو ہمارے اس مقصد کے حصول میں کافی حد تک مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

بہت سے سروے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستانی عوام کی اکثریت کھانے پینے کو ہی واحد تفریح سمجھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہسپتالوں میں اور میڈیکل اسٹورز پر ہمیشہ رش دیکھنے کو ملتا ہے۔ میں کافی عرصہ تک میڈیکل کے فیلڈ سے وابستہ رہنے کے ذاتی تجربہ کی بنیاد پر کہ سکتا ہوں کہ پاکستان میں پیٹ اور معدہ سے جڑے امراض کی بہتات اس لیے ہے کہ ہم ضرورت سے کہیں زیادہ ایسی خوراک لیتے ہیں جس کی ہمارے جسم کو بالکل ضرورت نہیں ہوتی۔

اوپر سے یہ خوراک متوازن بھی نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ سے ہمیں کم از کم تین قسم کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اول آمدنی کا بڑا حصہ کچن کی نظر ہو جاتا ہے، دوم صحت پر اٹھنے والے اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے اور سوم موٹاپا کے باعث کپڑوں کا خرچ زیادہ ہو جاتا ہے۔ ہر چند روز کے بعد سائز تبدیل ہونے کی وجہ سے کپڑوں پر کافی پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم لوگ ایک ہی مرتبہ اچھی اور معیاری چیزیں خریدنے کی بجائے سستی چیزیں خرید لیتے ہیں جو ہر چند روز بعد خراب ہو کر ناکارہ ہو جاتی ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں یہ تصور عام ہے کہ اگر آپ غریب ہیں تو مہنگی اور اچھی کوالٹی کی چیزیں خریدیں اور اگر آپ امیر ہیں تو اس بات کی اجازت ہو سکتی ہے کہ آپ سستی یا غیر معیاری چیزیں خرید سکیں۔ اسی طرح اگر آپ کے پاس بے پناہ دولت ہے تو آپ جسمانی ورزش کو نظرانداز کر سکتے ہیں مگر محدود آمدنی والے لوگوں کو جسمانی ورزش اور دوڑ کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

آپ ہمارے ہاں لوگوں کے روزمرہ معمولات کا بخوبی اندازہ خود کر سکتے ہیں کہ جو جتنا زیادہ غریب ہے اتنا شور زیادہ کرتا ہے اور کام کم۔ کہیں مفت کا کھانا نظر آ جائے تو اتنا کھاتا ہے کہ اگلے روز ہسپتال پہنچ جائے۔ جب کہ عام طور پر لوگوں کی (خصوصاً خواتین کی) جسمانی ورزش اور پیدل چلنے کی روٹین نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمر میں اضافہ کے ساتھ صحت پر اٹھنے والے اخراجات کافی زیادہ ہو جاتے ہیں۔ ان حالات میں روزمرہ خرچ کو کم کرنا اور مہنگائی کے اثر سے محفوظ رہنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا بڑھا ہوا پیٹ کم کرنا۔

حالاں کہ اگر کم اور متوازن خوراک کا استعمال کیا جائے اور صرف چند غیر ضروری چیزوں کا استعمال ترک کرنے کے ساتھ روزانہ ورزش کی روٹین اپنا لی جائے تو مہنگائی کا اثر بھی زائل ہو جائے گا اور اوسط عمر بھی بڑھ جائے گی۔ مثال کے طور پر صرف چینی، کولڈ ڈرنک اور فرائیڈ آئٹمز کا استعمال سرے سے ترک کر دیا جائے، اور چائے، نمک اور سگریٹ کے استعمال میں کمی ہو جائے تو روزمرہ خرچ میں کافی حد تک کمی واقع ہو جائے گی۔ اس طرح روزمرہ عادات کو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق ڈھالنے اور جسمانی ورزش کرنے سے فٹنس کے ساتھ اچھی اور چست زندگی حاصل کر کے ایک طرف ہم مہنگائی کا زور توڑ سکتے ہیں تو دوسری طرف ہو سکتا ہے کہ کم اور متوازن کھانا کھانے سے ہمارے ذہن میں خالص آمدنی بڑھانے کے لئے اچھے آئیڈیاز بھی وارد ہو سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments