نمبرز، ریسرچرز اور ذہانت


جیسے جیسے انٹر اور میٹرک کے سال 2021 کے نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ بچوں کے حاصل کردہ نمبرز جان کر ہر کوئی حیران ہو رہا ہے۔ بھلا ہو اس پالیسی کا جو کرونا کے باعث بچوں کے پیپرز کی مارکنگ کے لئے بنائی گئی۔ سینکڑوں کی تعداد میں طالب علموں نے میٹرک کے سالانہ نتائج میں صد فیصد نمبرز حاصل کیے ۔ اور ہزاروں کی تعداد میں ایسے طالب علم ہیں جن کے نمبرز نوے فیصد سے زیادہ ہیں۔ ان نتائج کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ملک میں موجود تعلیمی نظام معیار کے لحاظ سے دنیا کا بہترین تعلیمی نظام ہے مگر ایسا کچھ نہیں ہے۔

آپ اگر مختلف ممالک میں سالانہ شائع کیے گئے ریسرچ پیپرز کی تعداد کا موازنہ پاکستان کے تمام تعلیمی اور تحقیقی اداروں کی طرف سے سال بھر میں شائع کیے جانے والے ریسرچ پیپرز کی تعداد سے کریں تو آپ یہ جان پائیں گے کہ پاکستان میں سالانہ جتنے ریسرچ پیپرز شائع ہوتے ہیں۔ اس سے زیادہ ریسرچ پیپرز تو دنیا کے چند نامور تعلیمی ادارے اکیلے ہی شائع کر دیتے ہیں۔

اگر ہم اپنے ہائی اور ہائیر اسکینڈری اسکولز کے طالب علموں کے نمبرز دیکھیں تو یوں لگتا ہے علم کی سب سے زیادہ جستجو ہماری قوم میں ہے۔ مگر آپ تحقیق کے میدان میں اپنے ملک کا مقام دیکھیں تو ضرور پریشان ہوں گے۔

حکومت تحقیقی میدان میں مدد نہیں کرتی، ہمارے ملک میں ایسی سہولیات کا فقدان ہے۔ ہمارے پاس ریسرچ کے لئے اچھی ٹیم ہی نہیں بن پاتی۔ ریسرچ کے لئے مناسب آلات کی عدم دستیابی اور ریسرچ کے لئے رکھا گیا تھوڑا سا بجٹ، یہ سب وجوہات موجود ہوں گی مگر جو اہم وجہ ہے اس کی طرف دھیان کم دیا جاتا ہے۔ کیا ریسرچ پر کام کرنے والے اذہان ان اداروں تک پہنچ بھی پا رہے ہیں یا نہیں؟

ہمارے یہاں یونیورسٹی میں داخلہ کے لئے معیار صرف طالب علم کے انٹرمیڈیٹ میں حاصل کردہ نمبر اور ایڈمیشن ٹیسٹ میں حاصل کردہ نمبرز ہیں (جو ہر ڈگری کے لئے ضروری نہیں ) ۔ اور عجیب بات یہ کہ ایڈمیشن ٹیسٹ بھی روایتی امتحانی طرز کا ہی ایک ٹیسٹ ہوتا ہے جو صرف طالب علم کی ذہانت کو اس کی یاداشت کی بنیاد پر پرکھتا ہے۔ وہ طالب علم جو نئی چیزوں اور نئے تجربات میں دلچسپی لیتا ہے نئے علوم کے لئے زیادہ تجسس رکھتا ہے مگر اچھی یاداشت کا حامل نہیں ہے تو اس کا تجسس سے بھر پور ذہن اور نئی چیزیں بنانے کا جنون اس کے کسی کام نہیں آئے گا اور وہ اپنی تعلیم جاری رکھنے سے قاصر ہو گا کیوں کہ اس کے اچھے نمبرز نہیں ہیں۔

اسی کے مقابلہ میں ایک ایسا طالب علم جس کی خاصیت صرف اچھی یاداشت کا حامل ہونا ہے اور وہ کتابوں کو اچھے سے یاد کر سکتا ہے بلکہ میں کہوں گا لفظ بہ لفظ رٹ سکتا ہے۔ اسے با آسانی پاکستان کی کسی بھی اچھی یونیورسٹی میں داخلہ مل سکتا ہے۔ چاہے اس میں نئی دنیا اور اس میں چھپے رموز اوقاف کو کھوجنے کی لگن ایک فیصد بھی نا ہو۔ اور وہ صرف اس لئے ڈگریاں حاصل کرتا ہے۔ کہ چلیں نوکری نہیں مل رہی تو کم از کم بندا وقت تو ضائع نا کرے۔ مگر آخر کار جب وہ بہت سی ڈگریاں لے کر بھی نوکری ڈھونڈنے کے لئے نکلتا ہے تو اس کے ہاتھ ما سوائے مایوسی کے کچھ نہیں آتا۔ اور میرے خیال میں اس نے جو اتنا وقت یہ سوچتے ہوئے ڈگریوں میں انویسٹ کیا کہ چلیں وقت ضائع نا ہو۔ بالآخر وہ سب ضائع ہو جاتا ہے۔

ہمارے ملک میں صرف اچھا آئی۔ کیو ہی اچھی ذہانت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اگر کوئی سماجی تعلقات بنانے میں اچھا ہے۔ کسی کا سلیقۂ گفتگو انتہائی متاثر کن ہے یا کوئی پر اعتماد شخصیت کا مالک ہے تو ان سب خوبیوں کو ذہانت سے نہیں جوڑا جاتا۔ اور نا ہی ان مہارتوں کو بہتر بنانے کی طرف توجہ دی جاتی ہے۔

ذہنی معیار کو جانچنے کے مختلف پیمانے ہیں۔ مگر ماہر نفسیات کے مطابق ذہانت کو جانچنے کے لئے اس کو چار اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

1) انٹیلیجنٹ کوشنٹ (IQ)
2) ایموشنل کوشنٹ (EQ)
3) سوشل کوشنٹ (SQ)
4) ایڈورسٹی کوشنٹ (AQ)

پہلی قسم یعنی آئی۔ کیو آپ کی فہم کی صلاحیت کا پیمانہ ہے، ریاضی حل کرنا چیزیں حفظ کرنا اسی سے منسلک ہے۔

دوسری قسم یعنی ای۔ کیو یہ دوسروں کے ساتھ امن برقرار رکھنے کی آپ کی صلاحیت ہے۔ شائستہ، حقیقی، غور و فکر اور وقت کی ضرورت کو سمجھنے کی صلاحیت اسی زمرے میں آتی ہیں۔

تیسری قسم یعنی ایس۔ کیو یہ دوستوں کا نیٹ ورک بنانے اور اسے طویل عرصے تک برقرار رکھنے کی آپ کی صلاحیت کا پیمانہ ہے۔

اب آخری مطلب اے۔ کیو اس بات کا تعین کرتا ہے کہ کون مشکلات کے سامنے گھٹنے جلدی ٹیک دے گا اور کون مشکلات میں بھی ڈپریشن کا شکار نہیں ہو گا۔

لہذا ہمیں چاہیے کہ ان سب باتوں کو مدنظر رکھیں اور اپنی اپنی مہارتوں اور خوبیوں کو مزید بہتر کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments