لڑکی کا رشتہ ناچ اور ممکنہ جہیز


عروج ایک ایسی لڑکی ہے جو روایتی رشتہ ناچ کی سنگین متاثرہ ہے۔ روز روز کا رشتہ ناچ اس کی زندگی کی سب سے بھیانک حقیقت بن چکا ہے۔ کسی سرطان کی طرح یہ سارا انسان تلف عمل اس کے ذہنی سکون اور احساسات کو نیست و نابود کر رہا ہے۔ اب تو اس عمل کو عملی شکل اختیار کیے ہوئے تین برس سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ آخری بار جب اس کا رشتہ طے ہوا تو مجھے اس رشتے سے دوبارہ اس کے دل ٹوٹنے کی بو آئی تھی۔ وہ تمام باتیں جو عروج اس رشتے اور ان لوگوں کے بارے بتاتی تھی وہ آئین میں اور کسی بھی انسان دوست معاشرے میں مجرمانہ ہو سکتی تھیں۔ وہ لڑکا تھا تو وکیل مگر اس کی خواہش تھی کہ اس کی بیوی اس کی غلاموں کی طرح خدمت بر لائے۔ یہ اس لڑکے کے الفاظ تھے۔

انسان مخالف اور عورت دشمن رویوں کے حامل افراد کے لئے شادی کبھی بھی برابری کا رشتہ نہیں ہوتا۔ شادی ایک ایسا معاہدہ بنا دیا گیا ہے جس میں عورت اپنی شخصی آزادی کے حقوق بیچ دیتی ہے بلکہ جو اس کی شادی کرواتے ہیں اس کے حقوق بنا نکاح نامے کے ہی ازدواج کی منڈی میں بیچ چکے ہوتے ہیں۔

بیوی کے روپ میں کنیز کے خواہش مند لڑکے کی تمنا یہ بھی تھی کہ اس کو جہیز میں گاڑی اور کچھ زمین بھی دی جائے اور لڑکی نہایت ہی دبلی پتلی بھی ہو۔ یہ کوئی درخواست نہیں، بلکہ شرائط تھیں ورنہ ان لوگوں نے ایک لڑکی کو بیاہ کر ایک خاندان کے سر سے بیٹی کا بوجھ ہلکا نہیں کرنا تھا۔ عروج اعصابی طور پر تھکی ہوئی تھی۔ جب وہ مجھ سے ملی تو چپ نہ کی، اس نے اپنی روداد جاری رکھی۔

”تمھیں پتا ہے کہ صرف رشتہ پکا ہو جائے، اس لالچ میں بیٹیاں اس قدر ناپسندیدہ ہو جاتی ہیں کہ بس معاشرے میں ناک اونچی رکھنے کی غرض سے کسی کے یہاں بھی بیٹی کو جانور کی طرح باندھنا معمول کی بات ہے۔ میں بیسیوں بار جانوروں کی طرح بیوپاروں کو پیش کی گئی ہوں۔ اس میں انسانی پہلوؤں کا نظر انداز کرنا تو درکنار ان کو کسی پہلو کی شکل بھی نہیں سمجھا جاتا۔ میرا تعلق کسی غیر تعلیم یافتہ گھرانے سے قطعی نہیں، بلکہ ہمارے خاندان کا تعلق ایک معتبر شعبے سے ہے، میرے خاندان کے مردوں کا بہت نام ہے۔

ہمارے یہاں سمجھ لیا گیا ہے کہ غریب اور ان پڑھ لوگ بیٹیوں کے حقوق سلب کرتے ہیں جبکہ آگ تو ہر طرف ہی لگی ہوئی ہے۔ ان لڑکے والوں کا رشتے کے لئے حامی بھرنے کے پیچھے ایک لالچ یہ بھی تھی کہ لڑکے کو سسر ترقی دلوانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ وہ مجھ سے اس لئے شادی کے لئے رضامند ہوا تھا۔ اور مجھ کم عقل کو گمان ہو چکا تھا کہ آخر کار میں کسی کو پسند آ گئی ہوں“ ۔

جب عروج نے پہلی بار مجھے اس رشتے اور شرائط بارے بتایا تو مجھے ان کی نیت کہیں سے نیک معلوم نہیں ہوئی تو میں نے اپنا تجزیہ پیش کیا تھا جس کے جواب میں عروج نے مجھے چپ کرا دیا۔ ”رابعہ تم تو بہت زیادہ فیمنسٹ ہو گئی ہو۔ یہ سب چیزیں شادی میں ضروری ہوتی ہیں۔ اس کے بنا شادی نہیں ہوتی“ ۔ عروج نے مجھے اس رشتے اور ان لوگوں کی نیت پر شک کے اظہار پر ٹوکا تھا مگر آج وہ ایک زخمی جاندار تھی، اس کے اعصاب کے ہر روئیں سے خون بہہ رہا تھا۔ وہ بات کرتی تھی مگر کراہ رہی تھی۔

عروج کہنا شروع ہوئی۔

” پہلے مجھے لگتا تھا کہ حقوق نسواں یہ سب باتیں بے فائدہ ہیں مگر اب میں ان زہر آویز معاشرتی رویوں کی وجہ سے بہت اذیت میں مبتلا ہوں تو حقیقت مجھ پر جیسے کھلا سچ بن کر منڈلا رہی ہے۔ ان روایتوں اور فرائض نے ہم لڑکیوں کو رسوائی اور تکلیف ہی دی ہے۔ جب یہ رشتہ آیا، اس میں میری پسند رتی برابر بھی شامل نہ تھی۔ اگر اس وقت آسمان سے فرشتے بھی اتر آتے تو اس رشتے کو ہونے سے نہیں روک سکتے تھے۔ ہمارے یہاں گھر کے مرد عورتوں کی قسمت کے جو فیصلہ کر لیں تو ان کو لگتا ہے کہ خدا بھی ان کو نہیں بدل سکتا۔

میری ہونے والی ساس نے مجھے اپنے بیٹے کا یہ مطالبہ بھی میرے منہ پر پھینکا کہ مجھے اپنا وزن کم کرنا ہو گا۔ ان کا انداز بہت توہین آمیز تھا۔ دوبارہ بتاتی چلوں کہ عروج فربہ نہیں ہے، ہاں وہ صحت مند ہے۔ وہ گزشتہ کئی سالوں سے صرف رشتہ گردی کے گھن چکر میں پھنس کر وزن کم کرنے میں جتی ہوئی ہے۔ گھر میں جوان بیٹی کو کھانے پر بھی ٹوکا جاتا رہا ہے اور اس نے اپنے کھانے میں ایک ایک کیلوری کو جیسے گن کر بھی کھایا ہے۔ کھانے سے پہلے بھی سو بار سوچتی ہے تو کچھ کھا کر بھی پچھتاتی ہے۔ مگر رشتہ ہو جانے میں لڑکیوں کو خود کو خوب نکھارنے کی جستجو کرنا پڑتی ہے۔

” میں نے ایک بار بھی نہیں کہا کہ اس لڑکے کے سر پر بھی بال ہونے چاہئیں۔ مگر میں دن رات وزن کم کرنے کی جستجو میں جت گئی۔ تب تو مجھے علم ہی نہیں تھا کہ مجھے پولی سسٹک اووریز سنڈروم تھا۔ میں تو تندہی سے ایک اجنبی کو پسند آنے کے لئے ورزشیں کرتی رہتی۔ مجھے تکلیف اس چیز کی ہے کہ وہ لوگ میری توہین کرتے رہے اور میں اس کے بارے کچھ نہیں کر سکتی۔ یہ غم اور بے بسی مجھے کاٹ رہا ہے۔ آج بھی لوگ دیکھنے آئے تھے، کہہ کر گئے ہیں کہ آپ وزن کم کر لیں گی نا؟ ایک عورت کے جسم پر موجود گوشت اور کھال کی کمی اور زیادتی ہماری اصل قیمت ہوتی ہے؟ میں ہزاروں بار ملامت کرتی ہوں ایسے ضابطوں کی جہاں عورت کے جسم پر سینکڑوں خدا بنے پھرتے ہیں۔ بتاؤ، پھر یہ چمڑا منڈیوں میں سے کھالیں خرید خرید کر خود پر کیوں نہیں ڈال لیتے؟

مجھے لگتا ہے کہ میں بہت جلد مر جاؤں گی۔ میں خود اپنی جان تو نہ لوں مگر یہ لوگ لے لیں گے۔ اپنوں اور اجنبیوں کے میرے وجود اور جسم کے مطابق مطالبے مجھے جینے نہیں دیتے۔ میں جانتی ہوں کہ یہ مطالبے آسیب بن کر میرا سایہ ہر گز نہیں چھوڑیں گے۔

وہ لڑکا جو میرے باپ سے اپنی ترقی کی امید لگائے بیٹھا تھا، جو نا اہل اور نکما تھا۔ جس کو یہ آس تھی کہ اس کے گھر کا ساز و سامان وہ نہیں بلکہ میرا باپ خرید کر دے، چاہتا تھا کہ میں اس کو اپنی تصاویر بھیجوں تاکہ وہ میری خوبصورتی کا اندازہ لگا سکے؟ یہاں کیوں کوئی عذاب نہیں آیا؟ اس پر خدا کی لعنت کیوں نہیں پڑی؟ ان میں یہ کفر کیسے پنپتا ہے؟ وہ سوچ بھی کیسے سکتا تھا ایسا؟ میں قیامت کے روز اس کو دیکھوں گی اور چلا چلا کر کہوں گی کہ اس کو گرفتار کیا جائے، اس کے لالچی ماں باپ کو سزا سنائی جائے۔ یہ جو میرے جسم میں سے کیڑے نکالتے تھے۔ میں تو اس کی شکل دیکھنے کی روادار نہ تھی۔ کیا ان لڑکے والوں کو لگتا ہے کہ ہم اس قدر بے چین اور بے تاب ہیں؟ ہمارے ماں باپ کیوں اس قدر بچھے چلے جاتے ہیں صرف کہ بیٹی کی شادی ہو اور وہ ان کی زندگی سے دفعہ ہو؟

ان لوگوں کو جب معلوم ہوا کہ جہیز میں کوئی ٹینک اور میزائل سسٹم نہیں ملے گا تو یہ آپے سے باہر ہو گئے۔ ہمیں دھمکی لگائی گئی کہ جہیز میں گاڑی اور زمین نہ دی گئی تو منگنی توڑ دیں گے۔ تم منگنی کی بھی بات سنو۔ عروج تھم نہیں رہی تھی۔

منگنی اور روز کے ملنے پر ہمارے لاکھوں روپے خرچ ہوئے۔ ان روپوں سے میں کسی بھی یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی پروگرام میں داخلہ لے سکتی تھی مگر وہ روپے ان انسانیت دشمنوں پر ضائع ہوئے۔ جب منگنی کی رسم کر کے گئے تو معلوم ہوا کہ یہ کہیں اور بھی لڑکی دیکھنے گئے تھے۔ وہ کوئی عادی گروہ نہیں تھا جو رشتے کے بہانے خاندانوں کو لوٹتا ہو، وہ میرے والد کے دفتری ساتھی تھے۔ معاشرے کے اہم اور معزز تصور کیے جانے والے لوگ۔ وہ لوگ جو منبروں اور مسجدوں میں ہم پر فتویٰ لگانے والوں جو داد دیتے ہیں، جو ہمارے قمیصوں اور دوپٹوں کی لمبائی اور چوڑائی ماپتے ہیں وہی لوگ۔

جب ممکنہ جہیز دینے پر معذرت کی گئی تو انہوں نے منگنی یہ کہہ کر توڑ ڈالی کہ ان کو ہمارے یہاں کبھی عزت ملی نہ تازہ کھانا۔ ان کو ملنے والے تحائف قیمتی تھے نہ کافی۔ ان کے الفاظ کچھ یہ تھے کہ ”ہم تو ان کی بیٹی بیاہ کر ان ہر احسان کر رہے تھے“ ۔

کیا تم جانتی ہو اس منگنی کے ٹوٹنے کا الزام ان برے لوگوں پر نہیں مجھ پر آیا۔ میرے گھر میں میرا موٹاپا اور میری رضا نہ شامل ہونے پر نزلہ گرایا گیا۔ ”اگر تم زیادہ کھانا نہ کھاتی اور کچھ باپ کی عزت کا خیال کیا ہوتا تو وہ لوگ کبھی منگنی نہ توڑتے“ ۔ میرا مرض جو کہ میرے اختیار میں نہیں میری باپ کی عزت نہ کرنے کے مترادف ٹھہر گیا۔

گھر میں یہ بات ایک ماہ تک رہی اور سب بھول گئے۔ میری زندگی آج بھی معمول پر نہیں آ سکی۔ میں اس صدمے سے باہر نہیں آئی اور میرا رشتہ ناچ پھر سے شروع ہو چکا ہے۔ مجھے سنبھلنے اور اپنی زندگی پر مرہم رکھنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ میری سوچوں کی ریل ٹوٹی ہوئی پٹڑی پر ایک ویران علاقے میں رات کے اندھیرے میں کھڑی ہے۔ میں رات بھر یہی خواب دیکھتی ہوں اور اگلے روز ایک رشتہ ناچ میرے لئے تیار رہتا ہے۔ میرے گھر والے میرا گھر نہیں آباد کرنا چاہتے، وہ بیٹیوں کو سر سے اتارنا چاہتے ہیں کہ معاشرے میں کوئی ان پر بات نہ کرے۔ یہ لڑکے والے میرے لئے نہیں آتے، یہ جہیز میں ممکنہ ملنے والے قیمتی مال اسباب، تحائف کی لالچ میں آتے ہیں۔ اس ناچ میں گھر والوں سمیت رشتہ دیکھنے والے عورت کی قیمت لگاتے ہیں جیسے کسی بازار میں ایک مرد بحیثیت خریدار ایک عورت کو خریدتا ہے اور وہ بیچی جاتی ہے ”۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments