صلیب بدوش مطلقہ عورتیں



پاکستان میں جب آپ کو طلاق ہو جائے تو معاشرہ آپ کے ساتھ ایسا سلوک کرے گا جیسے آپ نے اب تک کا سب سے بڑا جرم کیا ہو۔ اور ہمارے معاشرے میں زیادہ تر خواتین کے لیے اسے زندگی کے خاتمے کی طرح سمجھا جاتا ہے۔ یہ خوفناک تجربہ ہے جو معاشرہ کبھی آپ کے ساتھ فرشتہ کی طرح سلوک کرتا تھا اب طلاق کی حیثیت کے بعد آپ کے ساتھ ڈائن جیسا سلوک کرتا ہے۔

سب سے پہلے تو عورت کو فاحشہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے کردار پر چہ مگویاں ہوتی ہیں۔ گھر نا بسا سکنے کے طعنے زخم زخم کر دیتے ہیں۔ میکے والے بھی کھچے کچھے رہتے ہیں کہ طلاق کو ابھی تک ہم کلنک سمجھتے ہیں۔ جب ایک رشتہ اپنی طبعی عمر کو پہنچ جاتا ہے تو اس کو ختم کرنا عین عقلمندی ہے نا کہ اس کھینچتے رہنا اور خود بھی کانٹوں پر لوٹنا۔ لیکن ایک بر وقت فیصلے کا بھگتان عورت کے حصے میں نسبتاً مرد زیادہ آتا ہے۔

آپ کے رشتے دار، پڑوسی سے لے کر آپ کے قریبی دوست تک سب ایک ہی بار بار سوال کرتے ہیں کہ آپ کے درمیان کیا ہوا؟ تم نے طلاق کیوں لی؟ بات کیسے شروع ہوئی؟ قصور کس کا تھا؟ آپ میں برداشت کی کمی ہو گی۔ اب آپ کی اپنے والدین کے گھر واپسی ہے اس لیے آپ ان پر بوجھ بننے جا رہی ہیں اگر آپ کے بچے ہیں تو آپ ان کا خیال کیوں رکھتی ہیں اپنے شوہر کو ان کا خیال رکھنے دیں۔ آپ کو اپنے سابق شوہر سے رقم مانگنی چاہیے۔ اگر آپ کام کرنا شروع کر دیتے ہیں تو اس فہرست میں چند اور سوالات کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس قسم کا جذباتی ٹارچر ایک لڑکی کو اپنی زندگی میں آگے بڑھنے سے روکتا ہے۔ وہ آپ کو مفت مشورہ بھی دیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں یہ بہت عام ہے

زیادہ تر خواتین اپنا خود اعتمادی کھو بیٹھی ہیں اور ڈپریشن میں چلی گئی ہیں کیونکہ انہیں کبھی بھی خود مختار ہونے اور اپنی زندگی جینے کا موقع نہیں ملتا کیونکہ اب بھی زیادہ تر پاکستانی معاشرہ خواتین کو اپنی زندگی کی آزادی کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ وہ خواتین زندہ رہنے اور اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بہت تکلیفیں اٹھاتی ہیں۔

جب آپ کی طلاق ہو جاتی ہے تو آپ سماجی طور پر مر جاتے ہیں۔ یہ دوسروں کوایک چھوٹی سی چیز کی طرح لگ سکتا ہے اور لوگوں کے نزدیک یہ اتنا اہم نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ ایک سماجی طور پر فعال اور حساس ہیں، تو آپ کو چند گندی حیرتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آپ کا معیار زندگی گر جائے گا۔ کیونکہ اب آپ کا سماج میں مقام گر گیا ہے یہاں تک کہ آپ کو خوش رہنے کے مواقع بھی نہیں حاصل ہوں گے۔

آپ ان مشکل ترین دنوں میں، جب آپ بیدار ہوتے ہیں اور ہر جگہ جوڑے دیکھتے ہیں۔ آپ ویک اینڈز برداشت نہیں کر سکتے کیونکہ یہ فیملی ٹائم ہوتا ہے اور آپ کے پاس کچھ نہیں ہے یہاں تک کہ بچوں کو بھی آپ مل نا سکیں۔ آپ طاعون کی طرح مالز، دکانوں اور سنیما ہالوں سے بچتے ہیں کیونکہ آپ کو لگتا ہے کہ ہر کوئی آپ کو اور آپ کی تنہائی کو گھور رہا ہے۔

اگر آپ کام کرنا شروع کر دیتے ہیں تو اس فہرست میں چند اور سوالات کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ مثلا، دیکھ لیا انجام اب آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو گا۔ اس قسم کا جذباتی ٹارچر ایک لڑکی کو اپنی زندگی میں آگے بڑھنے سے روکتا ہے۔

اگر آپ کام کرنے والی خاتون ہیں، تو آپ کی زیادہ تر ساتھی آپ سے فائدہ اٹھانے کے لیے آپ سے رجوع کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور آپ کے بارے میں غلط قیاس آرائی کرتے ہیں اور آپ کو ”کھلے ذہن کی خاتون“ سمجھتے ہیں جو ہر چیز کے لیے تیار ہوتی ہیں۔ بہت کم لوگوں کو یہ احساس ہوتا ہے کہ آپ کی بھی کوئی عزت نفس ہے۔

اگر خواتین نے اپنی شادی شدہ زندگی کے دوران اپنا کیریئر چھوڑ دیا ہے، تو اس کے لیے نئی نوکری حاصل کرنا یا خاص طور پر مردوں کے ساتھ ملنے والی نوکری شروع کرنا بہت مشکل ہے۔ طلاق کے بعد مالی طور پر مستحکم ہونے میں کافی وقت لگتا ہے اگر آپ نے اپنے سابقہ ​​سے ایک روپیہ بھی نہیں لیا ہے۔

طلاق برائی نہیں ہے، اور جو لوگ اس سے گزر رہے ہیں وہ آپ کی مقدس ”خاندانی اقدار“ کو توڑنے اور دنیا کو تباہ کرنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔ وہ صرف بری شادیوں سے چھٹکارا حاصل کرنے اور اپنی زندگی واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان میں یہ ایک حقیقت ہے کہ طلاق کے بعد مردوں کے لیے اتنا مشکل وقت نہیں ہوتا جتنا کہ عورتوں کے لیے ہوتا ہے۔ طلاق یافتہ مرد دوبارہ شادی کر لے گا لیکن وہ غیر شادی شدہ عورت سے شادی کرنے کو ترجیح دے گا۔ کیونکہ طلاق یافتہ عورتیں کباڑ کا سامان ہیں، لیکن مرد نہ صرف آزاد ہیں۔

بلکہ کسی عورت کی زندگی تباہ کرنے باوجود عزت کے مستحق ہیں اس کے برعکس اگر کسی عورت چالیس پینتالیس سال کی عمر میں طلاق ہو جائے اور عدت کے بعد اسے دوسرے نکاح کی ضرورت پیش آئے تو معاشرے کے لوگ اس کے اس عمل کو اس قدر معیوب سمجھنے لگتے ہیں کہ جیسے اس سے کوئی گناہ عظیم سرزد ہو گیا ہو۔ توبہ توبہ اس عمر میں شادی کی کیا سوجھی۔ کچھ عمر تو کٹ گئی تھی کچھ اور بھی کاٹ لیتی۔ پہلے ہی سے کچھ چکر لگتا ہے ورنہ ایسی بھی کیا جلدی تھی۔

زمانے بھر میں ایسی باتیں کر کے اس بے چاری مطلقہ کی ایسی کردار کشی کی جاتی ہے کہ اس کا جینا دوبھر ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی عمر کی اکثر خواتین چاہتے ہوئے بھی نکاح کرنے سے کتراتی ہیں اور تنہا زندگی گزارنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ جن میں سے بعض خواتین ایک ساتھی کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے غیر مرد سے ناجائز تعلقات کا سہارا لے کر گمراہی کے ایسے راستے پر چل نکلتی ہیں جو بالآخر اسی بے مہر معاشرے کا تر نوالہ ثابت ہوتی ہیں۔

لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے میں موجود باشعور طبقہ اس طرح کی جہالت پر مبنی سوچ اور فرسودہ خیالات کے خاتمے کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرے۔ تاکہ معاشرے میں موجود بیوہ خواتین کے سامنے حائل رکاوٹیں دور ہوں اور وہ زمانے کی پرواہ کیے بغیر اپنے مستقبل کے حوالے سے فیصلہ لینے میں مکمل آزاد اور خود مختار ہو سکیں۔

نا کہ اپنی زندگی کی بہتر منصوبہ بندی کر کے معاشی اور جذباتی طور پر ایک محفوظ زندگی گزاریں۔

اس کے بر عکس معاشی اور معاشرتی طور پر اسے بے بس اور محتاج رکھنا، نام نہاد غیرت مندی کے جذبے کی، بلا تفریق مرد و زن، تسکین کا باعث بنتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ طلاق یافتہ

اپنی خواہشوں کا گلا گھونٹ کر ایسے افراد پر مشتمل معاشرے کی تابعداری کرے جہاں ایک بڑی عمر کی مطلقہ کو زنا کرنے کی اجازت تو ہے لیکن نکاح کرنے کی نہیں۔

یہ کسی ایک گھر کی کہانی نہیں پورے برصغیر کا المیہ ہے اور نہ ہی یہ کسی ایسے مذہب کے ماننے والوں کی داستان ہے جہاں بیوی کو شوہر کی شعلوں میں لپٹی لاش کے ساتھ آگ میں جھونک دیا جاتا ہے۔ یہ تو ایک ایسے مذہب سے جڑے لوگوں کی کہانی ہے جو خصوصی طور پر خواتین کے استحصالی نظام کو دفن کر کے مرد و عورت کی تفریق کو ختم کرنے آیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments