اخبار فروش سے سینئر صحافی بننے تک کی سچی کہانی


شیکسپیئر کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ پیدا ہی عظیم ہوتے ہیں اور کچھ اپنی جدوجہد اور کارناموں کی بدولت عظمت حاصل کرلیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں خوبیاں ایک ایسے بچے کو عطا فرما دیں جو بڑا ہو کر ملک کی ایک نامور شخصیت بن گیا۔ اس بچے کو پڑھائی کا شوق بچپن سے ہی تھا۔ بدقسمتی سے اس کے والد کا انتقال ہو گیا اور گھریلو حالات اس قدر خراب ہو گئے کہ تعلیمی اخراجات پورے کرنا ناممکن ہو گیا۔ ننھے طالب علم نے ہمت نہ ہاری اور ہا کر (اخبار فروش) کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا۔

اب ننھا طالب علم سحری کے وقت اٹھتا، نماز پڑھتا اور سیدھا اخبار مارکیٹ سے اخبار لے کر لوگوں کے گھروں میں اخبار پھینکتا اور پھر سکول روانہ ہو جاتا۔ اخبار مارکیٹ سے جس دن اخبار لیٹ ملتے تو ننھا طالب علم بھی سکول سے لیٹ ہوجاتا جس پر اسے ماسٹر صاحب سے ہاتھوں پر ڈنڈے کھانے پڑ جاتے لیکن ننھے طالب علم نے کبھی بھی ماسٹر صاحب کو سکول لیٹ آنے کی اصل وجہ نہیں بتائی کیونکہ اسے ڈر تھا کہ کہیں اس بات پر اسے سکول سے نکال نہ دیا جائے۔

اب اسے قدرت کہیں یا اتفاق، ننھے طالب علم کو اسی ماسٹر صاحب کے گھر بھی اخبار دینا ہوتا تھا لیکن ماسٹر صاحب کو معلوم نہ تھا کہ ہاکر ان کے سکول کا طالب علم ہے کیونکہ ننھا طالب علم اپنے منہ پر مفلر یا کوئی کپڑا لپیٹ کر ماسٹر صاحب کے گھر اخبار پھینک کر جلدی سے چلا جاتا تھا۔ ایک دن اخبار مارکیٹ سے اخبار پھر لیٹ ملا، ننھا طالب علم جب ماسٹر صاحب کے گھر اخبار پھینکنے گیا تو وہ غصہ سے باہر کی طرف آئے تاکہ ہاکر کو اخبار دیر سے لانے پر ڈانٹ ڈپٹ کرسکیں۔

ادھر ماسٹر صاحب کو غصہ میں اپنی طرف آتا دیکھ کر ننھا طالب علم گھبرا گیا اور بوکھلاہٹ میں اپنی سائیکل کو واپس موڑنے لگا تو اس کے منہ پر لپٹا ہوا مفلر کھل گیا۔ ماسٹر صاحب نے دور سے ہی ہاکر کا چہرہ دیکھ کر اسے پہچان لیا تھا کہ یہ ان کا سٹوڈنٹ ہے۔ جب تک ماسٹر صاحب اس کے پاس پہنچتے، ہاکر ڈر کر سائیکل پر بیٹھا اور وہاں سے چلا گیا۔ اخبار گھروں میں پھینکنے کے بعد ننھا طالب علم جب سکول پہنچا تو اسے دیر ہو چکی تھی۔

جماعت کے اندر داخل ہونے کے لئے اس نے ماسٹر صاحب سے اجازت مانگی ”سر، کیا میں اندر آ سکتا ہوں“ ماسٹر صاحب اسے اجازت دینے کی بجائے اٹھے اور چھڑی لے کر اس کی جانب بڑھے۔ اس سے پہلے کہ ماسٹر صاحب قریب آ کر کچھ بولتے، ننھے طالب علم نے چھڑی کھانے کے لئے اپنے ہاتھ آگے کر دیے۔ یہ دیکھ کر ماسٹر صاحب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، انھوں نے ننھے طالب علم کے ہاتھوں کو چوم لیا اور بولے ”جو بچہ تعلیم حاصل کرنے کے لئے اتنی سخت محنت کرے وہ پٹائی کا نہیں بلکہ پیار کا حقدار ہے، اسی طرح محنت کرتے رہو ایک دن اللہ تعالیٰ تمھیں ضرور بڑا آدمی بنا دے گا۔“

اس دن کے بعد سے ماسٹر صاحب نے کبھی بھی ننھے طالب علم کو نہ مارا بلکہ دیر سے آنے پر اسے پچھلا سبق بھی یاد کروا دیتے۔ ماسٹر صاحب نے اپنے ہونہار طالب علم کو بڑا آدمی بننے کی جو دعا دی تھی وہ ایک دن پوری ہو گئی۔ ننھا طالب علم بڑا ہو کر اخبار فروش سے ایک سینئر صحافی، شاعر و ادیب بن گیا۔ وہ ننھا طالب علم غلام محی الدین نظرؔ مرحوم تھے جنھوں نے کم عمری سے ہی تعلیم کے ساتھ ساتھ محنت مشقت کو جاری رکھا۔

کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک کم عمر بچہ جو گھر گھر اخبار پھینکتا ہے ایک دن اسی اخبار میں ایک بڑا افسر لگ جائے گا۔ غلام محی الدین نظرؔ صاحب نے سکول کے تعلیمی میگزین میں نثر اور شاعری لکھنا شروع کردی، سکول کے پرنسپل نے انہیں میگزین کا انچارج مقرر کر دیا۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ نظرؔ صاحب روزنامہ امروز اور دیگر قومی روزناموں میں کام کرنے کے بعد روزنامہ مشرق لاہور میں بطور سینئر ایڈیٹر کام کرنے لگے۔ نظرؔ صاحب نے پہلی مرتبہ کسی روزنامہ میں بچوں کے لئے خصوصی ہفتہ وار ایڈیشن ”بچوں کا مشرق“ متعارف کرایا جس میں ایسی دلچسپ اور سبق آموز تحریریں شائع ہوتی تھیں کہ اسے نہ صرف بچے بلکہ بڑے بھی شوق سے پڑھتے تھے۔ وہ ”بچوں کے بھائی جان“ کے نام مشہور تھے۔ شاعری میں ان کا تخلص ”نظر ؔ“ تھا۔ معاشرے کی اصلاح کا پہلو مدنظر رکھتے ہوئے انھوں نے ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن کے لئے لاتعداد یادگار سکرپٹ لکھے۔

غلام محی الدین نظر صاحب کا شمار لاہور پریس کلب کے ان بانیوں میں سے ہوتا ہے جنھوں نے صحافیوں کی تنظیم کو منظم کرنے کا خواب دیکھا۔ صحافتی و ادبی خدمات پر انھیں بے شمار ایوارڈز اور تعریفی اسناد سے بھی نوازا گیا۔ اکیڈمی ادبیات پاکستان سمیت متعدد ادبی و صحافتی تنظیموں سے وابستہ رہے اور اپنی تحریروں کے ذریعے ہمیشہ ملک و قوم کے لئے صحافتی و ادبی خدمات انجام دیتے رہے۔ شاعری اور نثر کی بے شمار کتابوں کے مصنف تھے۔

ہمیشہ صاف ستھرا لباس زیب تن کیے رکھتے تھے، ایسے اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے کہ جو بھی انھیں ایک مرتبہ مل لیتا پھر ان کا گرویدہ ہوجاتا۔ نظر صاحب کو دانت کا انفیکشن ہوا جو کینسر بن کر جان لیوا ثابت ہوا۔ 11 نومبر 1992 میں ان کا انتقال لاہور میں ہوا، انھیں قبرستان میانی صاحب میں حضرت طاہر بندگیؒ کے مزار کے احاطہ میں سپرد خاک کیا گیا۔ انمول ہسپتال میں وفات سے کچھ لمحے قبل انھوں نے اشارہ کر کے قلم مانگا اور بیڈ کے پاس ٹیبل پر پڑے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر بڑی مشکل سے آخری جملہ لکھا ”رہبر کا مرید“ یعنی اپنے رب کا بندہ۔ بچپن سے لے کر وفات تک قلم ان کے ہاتھ میں تھا۔ غلام محی الدین نظرؔ صاحب آج اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن ان کی تحریریں آج بھی زندہ ہیں اور جب تک یہ تحریریں زندہ رہیں گی، کوئی بھی غلام محی الدین نظر ؔصاحب کو بھلا نہ سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments