گولی ارجنٹ ہے


واش روم میں بیٹھا تھا کہ باہر فون نے بجنا شروع کر دیا۔ سارا مزہ کرکرا ہو گیا۔ غم روزگار کے اہم ترین موضوعات پر جاری غور و فکر کا تانا بانا ٹوٹ گیا۔ میں نے کچھ سمے سے موبائل فون واش میں لے جانا بند کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ میں نے بالی ووڈ کے سکہ بند مفکر اعظم مسٹر پرفیکٹ جناب عامر خان صاحب کے ایک انٹرویو کا کلپ دیکھ کر کیا۔

آپ نے فرمایا کہ میں نے ایک سال ہوا ٹچ موبائل اور سوشل میڈیا کو خیرباد کہہ دیا ہے اور بٹنوں والا سادہ موبائل رکھ لیا ہے۔ وہ بھی فقط کال سننے یا انتہائی ضروری کال کرنے کے لئے استعمال کرتا ہوں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میں آپ سب کے ابوؤں کی طرح میسج بھی نہیں کرتا نا ہی پڑھتا ہوں۔ ایک تو اس میں ٹائم ضائع ہوتا ہے دوسرا دماغ خالی ہوتا ہے۔

یہ سن کر تمام حاضرین دنگ رہ گئے۔ اینکر نے اپنے تئیں پانچوں سواروں میں شامل ہونے کے واسطے دو تین آفتاب اقبالیاں مارنے کے بعد اپنے درشکوں کا بہانہ کر کے اس حکمت کی مزید تفصیل جاننی چاہی تو قبلہ پی کے صاحب نے ایک آنکھ ذرا سی میچ کر تھوڑی دیر خلا میں گھور کر گہری لمبی سانس لے کر ”ہونہہنننہہہ“ کیا اور سامعین پر ٹھیک ٹھاک رعب طاری کر دیا اور انہیں نفسیاتی طور پر تیار کر لیا کہ اب جو بات وہ کہنے لگے ہیں آپ نے اس پر عش عش کر اٹھنا ہے۔ چاہے وہ بات ”لالچ بری بلا ہے“ ، غرور کا سر نیچا ”یا پھر ہمیشہ سچ بولو ہی کیوں نہ ہو۔

اور وہی ہوا۔ آپ نے فرمایا

”دیکھیں موبائل فون ہماری توجہ بٹا دیتا ہے۔ ہم اس کی وجہ سے سوچنے کی عادت سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم اس میں لگے رہتے ہیں اور سوچ بچار اور تخلیقی آئیڈیاز سے دور ہو جاتے ہیں۔ گاڑی چلاتے ہوئے بھی کوشش کریں کہ گانے نہ لگائیں۔ اپنے پارٹنر اپنی بیوی سے بات کریں۔ آپ کا ریلیشن مضبوط ہو گا۔ اور میں تو کہتا ہوں کہ آج کل طلاقوں کی بڑی وجہ یہ موبائل فون ہے۔“

سامعین دیوانہ وار تالیاں پیٹنے لگے کچھ اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے حالانکہ جانتے بھی تھے کہ تازہ تازہ کرن راؤ کو طلاق دے کر آیا ہے۔ ہم نے بھی یہ کلپ دیکھا اور موبائل کا استعمال کم سے کم کر دیا۔ لیکن سوچنے والی بات پوری ہوتی نظر نہ آئی۔ مزید غور کیا تو پتہ چلا کہ صبح سویرے واش روم میں گزارے گئے لمحات کے علاوہ کوئی پل ایسا نہیں جس میں دماغ صاحب سوچنے کا کام سرانجام دیتے ہوں۔ لہذا واش روم میں بغیر موبائل کے جانے لگے کہ ایک طرف تو یکسوئی ہو۔

تو صاحبو فون بجا اور بجتا ہی چلا گیا۔ فون کرنے والے اتنے حساس ہیں کہ اگر پہلی کال پر فون نہ اٹھائیں تو ان کے ہول دلی ہونے لگتی ہے کہ خدا خیر کرے۔ کہیں داعی اجل کو لبیک تو نہیں کہنے لگے۔ بس وہ کال پر کال بجانا شروع کر دیتے ہیں۔

جب فون بجنے سے باز نہ آیا تو بادل نخواستہ فراغت کر کے باہر آنا پڑا۔ ایک کولیگ تھے۔ کال ریسیو کی۔

”کیسے ہیں محمدعلی صاحب؟ آپ کو ڈسٹرب تو نہیں کیا۔ اچھا میں یہ پوچھ رہا تھا کہ ایک دوست ہے۔ وہ کڈنی کمپرومائزڈ ہے۔ لاسٹ رپورٹس کے مطابق اس کا کڈنی فنکشن صرف 12 پرسنٹ ہے۔ صرف بارہ فی صد گردے کام کر رہے ہیں۔ تو وہ مصر ہے ویاگرا لینے پر۔ کہتا ہے فوری اثر چاہیے۔ ٹائمنگ۔ میں نے بہت سمجھایا۔ نہیں مان رہا۔ تو آپ فارماسیوٹیکل سائیڈ ایفیکٹس کے حوالے سے کچھ گائیڈ کر دیں گے؟ کیا یہ سیف ہے؟“ ایک ہی سانس میں بولتے گئے۔

بھائی میرے۔ اس میں تو صحت مند انسان کے لئے بھی تین فیصد موت یقینی ہے۔ گردے کے مریض کے لئے تو انتہائی کنٹرا انڈیکیٹڈ یا سمجھو زہر قاتل ہے۔ میں نے دو ٹوک جواب دیا۔

”یار وہ ضد کیے بیٹھا ہے۔ کہتا ہے پھر کوئی متبادل بتاؤ۔“

میں نے کہا اس وقت تو کوئی ذہن میں نہیں آ رہا۔ میں آپ کو بعد میں آرام سے کال کر لوں؟
آآآآ۔ ہاں۔ لیکن۔ اچھا ابھی بزی ہیں؟ چلو پھر لازمی پتا کر کے رکھنا یار۔ ارجنٹ ہے۔
آپ لوگوں کے ذہن میں ہے کوئی متبادل تو بتا دیں۔ میں نے کہا آپ سے شیئر کر لوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments