موت سے پہلے ایک پادری اور ایک دہریے کا مکالمہ


ادب کے نوبل انعام یافتہ ادیب البرٹ کیمو کا کہنا ہے کہ زندگی بے معنی سہی لیکن بے توقیر نہیں ہے۔ زندگی بے مقصد ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ انسان خود کشی کر لے۔ ہر انسان اگر چاہے تو وہ اپنی زندگی کو بامعنی اور بامقصد بنا سکتا ہے۔

جب ہم بے معنویت اور ABSURDITY کی کوکھ سے جنم لینے والے وجودیت پسند فلسفے کا مطالعہ کرتے ہیں تو کرکیگارڈ ’ہیڈیگر‘ نیٹشے ’سارتر اور کیمو کے نام ذہن میں آتے ہیں۔ وجودیت پسند فلسفے کی گود میں پرورش پانے لینے والے ناولوں میں

فریڈرک نیٹشے کا THUS SPOKE ZARATHUSTRA
ژاں پال سارتر کاNAUSEA
اور البرٹ کیمو کا THE STRANGER سر فہرست ہیں۔

ان ناولوں نے صدیوں کی روایت اور مذہب کی بلند و بالا عمارتوں میں دراڑیں ڈالیں اور وجودیت پسند فلسفے کو ساری دنیا میں مقبول بھی بنایا اور متنازعہ فیہہ بھی۔

البرٹ کیمو کے ناول۔ اجنبی۔ کے آخری باب میں ناول کے مرکزی کردار کی ’جسے عدالت نے سزائے موت دے رکھی ہے اور وہ جیل میں انتظار کے دن کاٹ رہا ہے‘ ایک پادری سے ملاقات ہوتی ہے۔ اس پادری کو باقی تمام قیدی تو مسکراتے ہوئے خوش آمدید کہتے ہیں اور اس سے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور اپنی مغفرت کی دعائیں کرواتے ہیں لیکن اس ناول کا ہیرو بار بار اس سے ملنے سے انکار کر دیتا ہے۔

آخر پادری کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے اور ایک دن وہ تبلیغ کرنے بن بلائے مہمان کی طرح اس قیدی کی کوٹھڑی میں چلا آتا ہے۔

میں آپ کی خدمت میں اس پادری اور ناول کے ہیرو کے درمیان دلچسپ مکالمے کا ترجمہ اور تلخیص پیش کرتا ہوں تا کہ آپ کو بھی اس ناول کو پڑھنے اور ABSURDITY اور وجودی فلسفے کو بہتر سمجھنے کی تحریک پیدا ہو۔

البرٹ کیمو لکھتے ہیں
پادری نے مجھ سے پوچھا
تم مجھ سے ملنے سے ہمیشہ انکار کیوں کرتے ہو؟
میں نے کہا اس لیے کہ میں خدا کے وجود پر ایمان نہیں رکھتا
پادری نے کہا کیا تمہیں پکا یقین ہے کہ خدا موجود نہیں ہے؟

میں نے کہا میری زندگی میں خدا کے ہونے یا نہ ہونے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ میں چاہے یہ نہ جانوں کہ مجھے زندگی میں کس چیز میں دلچسپی ہے لیکن یہ ضرور جانتا ہوں کہ مجھے زندگی میں کس چیز سے دلچسپی نہیں ہے اس لیے میں جانتا ہوں کہ مجھے خدا کے وجود میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

پادری نے کہا کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ تم زندگی سے حد سے زیادہ مایوس ہو چکے ہو۔

میں نے کہا اس کا مایوسی سے کوئی تعلق نہیں۔ میں مایوس نہیں قدرے خوفزدہ ضرور ہوں جو ان حالات میں میرا ایک فطری رد عمل ہے۔

پادری نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ اسی لیے تمہیں خدا کی مدد کی اشد ضرورت ہے۔ میں اب تک جتنے بھی قیدیوں سے مل چکا ہوں ان سب نے مشکل وقت میں خدا سے مدد مانگی تھی۔

میں نے کہا مجھے ان قیدیوں سے کچھ غرض نہیں۔ ان کی مرضی وہ جو کرنا چاہیں لیکن میں حتمی طور پر جانتا ہوں کہ مجھے خدا کی مدد کی کوئی ضرورت نہیں۔

میری باتیں سن کر پادری قدرے پریشان ہوا پھر کہنے لگا تم میرے دوست کی طرح ہو، موت تمہارا انتظار کر رہی ہے۔

پھر قدرے توقف کے بعد کہنے لگا کہ ویسے تو موت ہم سب کا انتظار کر رہی ہے۔

میں نے کہا کہ باقی لوگوں اور مجھ میں یہ فرق ہے کہ مجھے عدالت نے موت کی سزا دی ہے اور انہیں نہیں دی۔ مجھے مستقبل قریب میں اور انہیں مستقبل بعید میں موت سے ملنا ہے۔

پھر پادری نے جھنجھلاتے ہوئے کہا کہ کیا تمہیں پورا یقین ہے کہ موت کے بعد کوئی زندگی نہیں؟
میں نے کہا ہاں مجھے پورا یقین ہے

پھر پادری نے مجھے افسردہ نگاہوں سے دیکھا جیسے میں کوئی بدقسمت انسان ہوں اور کہا کہ یہ تو بہت دکھ کی بات ہے کہ تم ایسا سوچتے ہو۔

اس گفتگو تک پہنچتے پہنچتے مجھے پادری سے بوریت محسوس ہونے لگی اور میں نے دوسری طرف دیکھ کر پادری کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا۔

پھر پادری نے کہا کہ تم دو عدالتوں کے سامنے پیش ہوئے ہو ایک عدالت انسانوں کی ہے اور ایک خدا کی ہے جس میں تم ایک گنہگار اور پاپی انسان ہو۔

میں نے کہا میں کسی گناہ پر یقین نہیں رکھتا۔ انسانوں کی عدالت نے مجھے سزا دی ہے اور میں اس سزا کا تحمل اور بردباری اور صبر سے انتظار کر رہا ہوں۔

پادری میرے جوابوں سے پھر مضطرب ہو گیا۔ وہ بستر سے اٹھا لیکن پھر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ اگر تم اس کوٹھڑی کی دیواروں کو غور سے دیکھو تو تمہیں ایک چہرہ دکھائی دے گا

کس کا چہرہ؟ میں متجسس تھا
یزداں کا چہرہ کیونکہ ہر گنہگار ہر مجرم کو وہ چہرہ دکھائی دیتا ہے۔

میں نے کہا تم غلط بیانی سے کام لے رہے ہو۔ میں اس کوٹھڑی میں کئی مہینوں سے رہ رہا ہوں۔ مجھے ان دیواروں پر کسی بھگوان کسی یزداں کسی خدا کا کوئی چہرہ نظر نہیں آیا۔ ایک دفعہ ایک چہرہ دکھائی دیا تھا اور وہ بھی میری محبوبہ کا سندر چہرہ تھا اس کے بعد وہ بھی دکھائی نہیں دیا۔

پادری پھر پریشان ہو گیا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ مجھ سے کیسے بات کرے مجھے کیسے قائل کرے۔ اس کی مجھے خدا اور مذہب کے بارے میں قائل کرنے کی تمام کوششیں ناکام جا رہی تھیں۔

پھر وہ بستر سے اٹھا اور اس نے شدت جذبات سے مغلوب ہو کر کہا
کیا میں تمہارے رخسار پر بوسہ دے سکتا ہوں؟
میں نے کہا۔ نہیں۔ ہرگز نہیں
پادری نے جھنجھلا کر کہا کیا تمہیں دنیاوی چیزوں سے اس قدر محبت ہے؟
میں نے اس کے اس بیہودہ سوال کا کوئی جواب نہ دیا۔ وہ اس قابل ہی نہیں تھا کہ اس کا جواب دیا جاتا۔

پھر پادری نے خلاؤں میں گھورتے ہوئے کہا کیا تمہارے دل میں کبھی یہ خواہش پیدا نہیں ہوئی کہ موت کے بعد ایک اور زندگی ہو؟

میں نے کہا میرے دل میں ایسی خواہش کئی بار ابھری لیکن وہ خواہش ان خواہشوں کی طرح تھی کہ میں لکھ پتی بن جاؤں یا زیادہ خوبصورت بن جاؤں۔ مجھے پورا یقین تھا کہ ان خواہشوں کا زندگی اور موت کے تلخ حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔

پادری کچھ اور حیران و پریشان ہوا۔

میں پادری کی بے تکی باتوں سے زچ ہو چکا تھا اس لیے میں نے اس سے کہا کہ میری زندگی میں تھوڑا وقت رہ گیا ہے اور میں وہ تھوڑا سا قیمتی وقت خدا کے ہونے یا نہ ہونے کی بحث میں ضائع نہیں کرنا چاہتا۔

۔ ۔

البرٹ کیمو نے اس ناول میں ایک پادری اور ایک دہریے کا جو مکالمہ پیش کیا ہے وہ ہمیں ان تمام مکالموں کی یاد دلاتا ہے جو دنیا کے چاروں کونوں میں ہماری زندگیوں میں دن رات پادریوں پنڈتوں مولویوں اور دہریوں کے درمیان ہوتا رہتا ہے۔

یہ سب مولوی پنڈت اور پادری دہریوں کو گمراہ سمجھتے ہیں ان پر ترس کھاتے ہیں انہیں خدا اور مذہب کا پیغام سناتے ہیں اور انہیں جنت کی دعوت دیتے ہیں۔

شومی قسمت یہ کہ وہ مولوی پنڈت اور پادری یہ بات نہیں سمجھتے کہ ان دہریوں کی زندگی میں خدا اور مذہب کو کوئی اہمیت حاصل نہیں۔ انہیں کسی جنت کی بھی خواہش نہیں۔ وہ موت کے بعد کی زندگی کے بارے میں سوچتے ہیں تو انہیں مرزا غالبؔ کا یہ شعر یاد آ جاتا ہے

؎ ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے
۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments