کینسر مجھے ختم سکتا ہے، ہرا نہیں سکتا۔ سفینہ


سفینہ کا تعلق گجرات سے ہے۔ ریڑھ کی ہڈی کے کینسر میں مبتلاء ہیں۔ ڈاکٹرز کی رائے کے مطابق آپریشن کے نتیجے میں سفینہ کومہ میں جا سکتی ہیں یا پھر مستقل بنیاد پر معذوری کا شکار ہو سکتی ہیں۔ سفینہ کینسر کے ساتھ زندگی کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ ویل چیئر پر ہیں۔ راولپنڈی کے ایک انڈیپینڈنٹ لیونگ سینٹر میں رہتی ہیں۔ جہاں لڑکیوں کو معذوری کے ساتھ آزادانہ جینے کا ڈھنگ سکھاتی ہیں۔ اوپن یونیورسٹی سے بی۔ اے کر رہی ہیں۔ کینڈین امیگریشن فرم میں بطور ایڈمنسٹریٹر کام کر رہی ہیں۔ دیا ویلفیئر میں ٹریننگ کارڈینیٹر کے طور پر فرائض سر انجام دے رہی ہیں۔

سفینہ نے کھیلوں کی دنیا میں بھی نام کمایا ہے۔ 2020 ء میں خیبرپختون خواہ میں سپورٹس فیسٹول ہوا۔ سفینہ نے خواتین کی ویل چیئر ریس میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ اس کے ساتھ ساتھ سفینہ ویل چیئر کرکٹ اور بیڈمنٹن کے میچز میں حصہ لیتی رہیں ہیں۔

سفینہ کے والد محترم ریٹائرڈ کمانڈو ہیں۔ والدہ خاتون خانہ ہیں۔ خاندان تین بھائی اور تین بہنوں پر مشتمل ہے۔ ایک بھائی اور بہن شادی شدہ ہیں۔ باقی سب زیر تعلیم ہیں۔

سفینہ نے ابتدائی تعلیم گجرات سے حاصل کی۔ ڈاکٹر بننے کا شوق تھا۔ چودہ سال کی عمر میں کمر میں درد رہنے لگا۔ مختلف ڈاکٹرز سے رائے لی گئی کسی نے مرض کو کمزوری تو کسی نے پڑھائی کا دباؤ قرار دیا۔ تکلیف دن بدن بڑھتی چلتی گئی۔ آہستہ آہستہ ٹانگ میں کھنچاؤ پیدا ہونے لگا۔ پھر ایک ڈاکٹر نے ایم۔ آر۔ آئی کا مشورہ دیا تاکہ درد کی اصل وجہ معلوم ہو سکے۔ ایم۔ آر۔ آئی کے رزلٹ میں ریڑھ کی ہڈی کے کینسر کی تشخیص ہوئی۔

ڈاکٹرز نے والد صاحب سے کہا کہ آپریشن کی صورت میں سفیہ کے لئے مستقل معذوری ہے جبکہ آپریشن نہ کروانے کی صورت میں موت ہے۔ والد صاحب نے معذوری کو قبول کرتے ہوئے آپریشن کی اجازت دے دی۔ ٹیومر کو نکالنے کے لئے سفیہ کے دو آپریشن ہوئے۔ پہلے آپریشن کے بعد سفیہ تھوڑا بہت چل پھر سکتی تھیں لیکن دوسرے آپریشن کے بعد سفینہ مکمل طور پر پیرالائز ہو گئیں۔ ہوش میں آنے کے بعد سفینہ کو ایسا لگا جیسے ان کی ٹانگیں کاٹ دی گئی ہوں۔ ٹانگوں کی طرف دیکھا تو وہ جسم کے ساتھ تو تھیں لیکن ان میں حرکت نہیں تھی۔

ٹانگوں سے محروم ہونے کے بعد سفینہ بہت مایوس رہنے لگیں۔ رو رو کر سب سے پوچھتی تھیں کہ میں کب اپنے پیروں پر چل سکوں گی۔ گھر والے دلاسا دے کر چپ کروا دیتے تھے۔ ایک دن سفینہ نے روتے ہوئے والد صاحب سے پوچھا کہ کیا میں کبھی چل بھی سکوں گی یا نہیں؟ والد صاحب نے سفینہ کو اپنے پاس بٹھا کر سمجھاتے ہوئے کہا کہ،

”ہم نہیں جانتے کہ ہم نے کب مرنا ہے موت کا وقت مقرر ہے اس نے اسی وقت آنا ہے اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم نے اپنا وقت کیسے گزارنا ہے۔ رو کے وقت گزارنا چاہیں گے تو بہت جلد ہمارے اپنے بھی ہم سے دور ہو جائیں گے اور اگر اپنے مسائل کے ساتھ جینے کی کوشش کریں گے تو اپنوں کے ساتھ ساتھ پرائے بھی تعاون کی کوشش کریں گے“ ۔

والد صاحب کی اس بات کو سفینہ نے دل پر لکھ لیا اور معذوری کو قبول کرنے کی کوشش شروع کر دی۔

سفینہ کے والد صاحب ملازمت کے سلسلے میں اسلام آباد میں رہائش پذیر تھے۔ ایک دن سفینہ کا معذوری کا سرٹیفکیٹ بنوانے کے لئے انھیں اسلام آباد لے گئے۔ واپسی پر چیک اپ کے لئے نیرم لے گئے۔ سفینہ نے بحالی سینٹر میں اپنی جیسی بہت سی لڑکیاں دیکھیں تو حیران رہ گئیں۔ ڈاکٹرز نے مشورہ دیا کہ انھیں بحالی سینٹر میں چھوڑ دیا جائے۔ یہاں انھیں معذوری کے ساتھ آزادانہ جینے کے طریقے سکھائے جائیں گے۔

والد صاحب سفینہ کو والدہ کے ساتھ چھوڑ کر چلے گئے۔ سفینہ سمجھنے لگیں شاید گھر والے ان سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ دو تین دن روتے ہوئے گزار دیے۔ والدہ صاحبہ چار پانچ دن ساتھ رہنے کے بعد چلی گئیں۔ سفینہ نے محسوس کیا کہ سینٹر میں ایسی بہت سی لڑکیاں رہائش پذیر تھیں جن کی معذوری سفینہ سے کہیں زیادہ تھی اور وہ زندگی کے بیشتر امور خود سر انجام دے رہی تھیں۔ سفینہ ویل چیئر پر بیٹھی لڑکیوں کو کپڑے دھوتے، کھانا بناتے، صفائی کرتے دیکھتیں تو حیران رہ جاتیں۔

آپریشن کے بعد سفینہ کو تین افراد اٹھا کر باتھ روم لے جاتے تھے۔ لڑکیوں کو خود سے سارے کام کرتے دیکھ کر سفینہ نے اپنی مدد آپ کے تحت ویل چیئر پر شفٹ ہونے کی کوشش کی۔ دو تین بار گریں بھی لیکن پھر اپنے آپ کو سنبھالنا شروع کر دیا۔ سفینہ عام مریضوں والی ویل چیئر استعمال کرتی تھیں۔ جس کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔ پھر والد صاحب نے کسٹمائز ویل چیئر لا کر دی جس نے شفٹ ہونے کے مسئلے کو حل کر دیا۔

ابتدائی ایام میں والد صاحب روز سفینہ سے ملنے آیا کرتے کھانا ساتھ کھاتے۔ ڈاکٹرز نے مشورہ دیا کہ اگر آپ روز آئیں گے تو سفینہ کا بحالی کا عمل مکمل نہیں ہو سکے گا۔ پھر والد صاحب نے آہستہ آہستہ آنا جانا کم کر دیا۔ سفینہ نیرم کے بحالی سینٹر میں آٹھ ماہ تک رہیں۔

نیرم میں آٹھ ماہ ٹریننگ کے بعد سفیہ گاؤں واپس چلی گئیں۔ اب سفینہ کو گھر سے باہر نکلنا اور اپنے آپ کو سنبھالنا آ گیا تھا۔ سوچا کیوں نہ تعلیم کے رکے ہوئے سفر کو آگے بڑھایا جائے۔ سکول میں داخلہ لیا اور ریگولر پڑھنا شروع کر دیا۔ سکول لانے لے جانے کی ڈیوٹی بھائی کی تھی۔ میٹرک اچھے نمبروں سے پاس کرنے کے بعد مزید پڑھنے کی خواہش ظاہر کی تو والد صاحب نے اسلام آباد کے ایک کمپیوٹر انسٹیٹیوٹ میں داخلہ کروا دیا۔ سفینہ نے ہاسٹل میں رہائش رکھتے ہوئے دو سالہ کمپیوٹر کورس کیا۔

سفینہ کی طبعیت پھر خراب رہنے لگی ڈاکٹر سے رائے لینے پر پتہ چلا کہ کینسر بڑھ رہا ہے۔ دو کیمو بھی لگیں۔ ڈاکٹر نے کہا کہ اب اگر آپریشن کا آپشن استعمال کیا گیا تو سفینہ کو مہ میں بھی جا سکتی ہیں اور مکمل معذور بھی ہو سکتی ہیں۔

سفینہ نے والد صاحب سے کہا کہ یہ آپریشن نہیں کروانا چاہتیں۔ اللہ نے جتنی بھی زندگی لکھی ہے کینسر کے ساتھ ہی جیئیں گیں۔ یہ کہ کر سفینہ نے علاج ترک کر دیا اور گھر آ گئیں۔ ایف۔ اے کے پیپرز دیے۔ اسی دوران سفینہ نے عمرے کی سعادت بھی حاصل کی۔ عمرے سے پہلے سفینہ بہت تکلیف میں تھیں۔ خدا کے گھر جا کر رو رو کر اپنے لیے دعائیں کیں۔ سفینہ کے مرض کا علاج تو نہیں ہے لیکن عمرے کے بعد سے کینسر رکا ہوا ہے۔

ایف۔ اے پاس کرنے کے بعد سفینہ واپس اسلام آباد آ گئیں۔ راولپنڈی کے ایک انڈیپینڈنٹ لیونگ سینٹر میں رہتی ہیں۔ اس لیونگ سینٹر کو ڈاکٹر نوشابہ ملک چلا رہی ہیں۔ جو سوشل سیکورٹی کے ہسپتال میں ریڈیالوجی ڈیپارٹمنٹ کی ہیڈ ہیں۔ سینٹر قابل رسائی بنایا گیا ہے۔ سینٹر میں رہنے والی کچھ لڑکیاں پڑھ رہی ہیں اور کچھ نوکری کر رہی ہیں۔ لڑکیاں کھانا پکانا، کپڑے دھونا سے لے کر سینٹر کی صفائی تک خود ہی کرتی ہیں۔ سفینہ کو کوکنگ کا بہت شوق ہے۔ اکثر چھٹی کے دنوں میں لڑکیاں سفینہ سے کھانا بنانے کی فرمائش کرتی ہیں۔

سفینہ کا آفس اسلام آباد میں ہے۔ دفتر آنے جانے کے لئے کریم اور اوبر استعمال کرتی ہیں۔ ٹیکسی والے ویل چیئر دیکھ کر منہ چڑانا شروع کر دیتے ہیں۔ اکثر زیادہ پیسے بھی طلب کرتے ہیں۔ سفینہ مجبوری کی وجہ سے باتیں بھی سنتی ہیں اور زیادہ پیسے دینے پر بھی مجبور ہیں۔

آخر میں سفینہ کہتی ہیں کہ معذوری کے ساتھ کامیاب زندگی اسی وقت ممکن ہے جب اسے دل سے قبول کیا جائے اور اس کے ساتھ جینے کی کوشش کی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments