بحث یا لڑائی؟


احباب کے لیے چھوٹی سی دعوت کا اہتمام تھا۔ کھانا تیار تھا۔ سب احباب موجود تھے بس ایک صاحب کا انتظار تھا یہ صاحب سائیکالوجی کے پروفیسر ہیں۔ پروفیسر صاحب میرے ہاں پہلی بار تشریف لا رہے تھے اسی لیے میں نے احباب سے انتظار کی درخواست کی تھی لیکن اب مزید روکنے کی گنجائش نہیں تھی۔ کھانا لگایا تو پروفیسر صاحب بھی پہنچ گئے۔ شومئی قسمت ہم نے تاخیر کی وجہ پوچھ لی پروفیسر صاحب تو گویا پھٹ پڑے۔ کہنے لگے، ”شہر بھر میں سڑکیں ادھڑی پڑی ہیں۔

پچھلی ایک دہائی سے یہ جو بے مقصد اور فضول پلوں اور سڑکوں وغیرہ کی تعمیر کا ڈرامہ چل رہا ہے اس نے زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ ان کی وجہ سے ٹریفک کا ستیاناس ہو گیا ہے۔ میں پچھلے ایک گھنٹے سے اسی میں پھنسا ہوا تھا۔“ یہاں ایک وکیل دوست بھی تشریف رکھتے تھے جو کہ حکومتی جماعت سے شغف رکھتے ہیں۔ انہوں نے فوراً پروفیسر صاحب کو ٹوکا کہ صاحب حکومت کے تعمیری کاموں کو فضول تو نہ کہیے۔ اس پر پروفیسر صاحب مزید سیخ پا ہو گئے اور فرمانے لگے، ”کون سے تعمیری کام!

آپ کو ان کی ناکام گورننس اور بدترین کرپشن نظر نہیں آتی۔ اس پر وکیل صاحب نے جواب دیا،“ ان کو کام کرنے کہاں دیا جا رہا ہے۔ روڑے اٹکائے جا رہیں ہیں آپ کو پتہ ہے کہ اس وقت جمہوریت کے دفاع کے لیے صرف ایک ہی پارٹی برسر پیکار ہے اور وہ حکومتی پارٹی ہے۔ ”یہ بحث شروع ہوئی تو ہم دیکھ رہے تھے کہ دونوں حضرات کے چہروں پر تناؤ کھچاؤ بڑھ رہا ہے لہجوں میں کرختگی آ رہی ہے۔ ادھر کھانا ٹھنڈا ہو رہا تھا۔ مجھے اس دوستانہ محفل کی فضا خراب ہوتی نظر آئی۔

میں نے صورتحال سنبھالنے کی اپنی سی کوشش کی لیکن بات آگے بڑھ رہی تھی۔ اب دونوں حضرات میں گمبھیر اور خوفناک بحث شروع ہو چکی تھی۔ بحث باقاعدہ جھگڑے کی شکل اختیار کر گئی تھی جو بڑھتا جا رہا تھا۔ ان میں سے ایک صاحب تحریک انصاف کو سپورٹ کر رہے تھے اور دوسرے نون لیگ کے حق میں دلائل دے رہے تھے۔ بحث شدید ہوئی تو میں نے نوٹ کیا کہ دونوں طرف تیوریاں چڑھ گئیں نتھنے اور رگیں پھول گئیں اور منہ سے جھاگ اڑ رہی تھی۔

یک دم پروفیسر نے قدرے ذاتی حملہ کرتے ہوئے اپنے مخاطب سے کہا،“ آپ پڑھے لکھے ہونے کے باوجود عقل سے عاری باتیں کر رہے ہیں۔ ”اس پر وکیل صاحب شدید غصے میں آ گئے اور کہنے لگے،“ آپ سائیکالوجی کے پروفیسر ہیں لیکن مجھے تو آپ خود ہی سائیکو لگتے ہیں۔ اس پر پروفیسر صاحب غصے سے ہانپتے کانپتے اٹھے اور اپنا ہاتھ وکیل صاحب کے گریبان کی طرف بڑھایا۔

اس پر میں تیزی سے آگے لپکا دیگر لوگ آگے بڑھے اور بڑی مشکل سے ان دو حضرات کے درمیان بیچ بچاؤ کروایا۔ یاد رہے پروفیسر صاحب ذہنی مسائل کے لیے کونسلنگ کرتے ہیں اور ”ذہنی دباؤ اور غصے پر قابو پانا“ کے موضوع پر مختلف جگہوں پر لیکچر دیتے ہیں۔ دوسری طرف وکیل صاحب بھی پڑھے لکھے شخص ہیں جو کئی سال سے وکالت کے شعبہ سے منسلک ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر بحث کرنے کے بنیادی آداب سے واقف نہیں۔ اور سیاسی بحث کے لیے تو آداب وغیرہ آج کل ویسے ہی اضافی دکھائی دیتے ہیں۔ اپنی پارٹی کے دفاع اور دوسری پارٹی پر تنقید میں ہم اتنا آگے چلے جاتے ہیں کہ بحث پیچھے رہ جاتی اور ذاتی جھگڑے اور لڑائیاں شروع ہو جاتی ہیں۔

آج کل گھروں، دفتروں، چوپالوں حتیٰ کہ دوران سفر بسوں ٹرینوں میں ایسی جھگڑالو سیاسی بحثیں عام ہیں۔ میرے ایک دوست کہتے ہیں کہ ایسی دھواں دھار خونخوار سیاسی بحثوں کا ایک ذیلی فائدہ یہ ہے کہ اس بہانے بدکن رشتے داروں اور دوستوں وغیرہ سے کنارہ کشی اختیار کی جا سکتی ہے۔

خود میرے مشاہدے میں بھی ایسے معاملات آئے ہیں۔ نذیر صاحب ہمارے محلے دار ہیں۔ یہ ایک سیاسی پارٹی کے پاگل پن کی حد تک سپورٹر ہیں دوسری طرف ان کے سسرال اسی حد تک دوسری پارٹی کے چاہنے والے ہیں۔ سسرالی فیملی تو اپنی پارٹی میں بھی ہو تو کب اچھی لگتی ہے ( ہمارا اشارہ پارٹی کی طرف ہے ) چہ جائیکہ پارٹیوں میں فرق ہو۔ ایک صاحب بتا رہے تھے کہ انہوں نے ایک پارٹی کی سپورٹ صرف اس بنیاد پر چھوڑی ہے کہ ان کے سسرالی بھی اسی پارٹی میں تھے۔

ظاہر ہے یہ بیچارے پارٹی ہی چھوڑ سکتے تھے۔ اور اگر سسرال والے دوسری پارٹی میں ہوں تو معاملہ اور بھی گمبھیر ہو تا ہے۔ اگلے دن نذیر صاحب کے گھر سسرال والے آئے ہوئے تھے حسب معمول سیاست پر بات شروع ہوئی اور بہت دور نکل گئی۔ بات ذاتی افلاس اور جہیز وغیرہ تک آ گئی۔

لڑائی بھڑکی تو سسرال والے خفا ہوئے اور گھر چھوڑ کر نکل گئے۔ اگلے دن بیگم نے کہا کہ آپ نے فضول پارٹی کی خاطر میرے ماں باپ کو ناراض کیا۔ نذیر صاحب پھر طیش میں آ گئے اور بیگم کو خوب برا بھلا کہا۔ اس پر بیگم نے سامان باندھا اور وہ بھی والدین کے گھر پہنچ گئی۔ اب نذیر صاحب دو ٹائم ہوٹل سے کھانا لاتے ہیں اور آتے جاتے سسرال کے علاوہ اپنی پارٹی کو بھی خوب گالیاں نکال رہے ہوتے ہیں۔

ہمارے ہاں مصیبت یہ ہے کہ کسی بھی مسئلے پر بحث کرنے سے قبل ہم اپنے پہلے سے تیار نظریات اور خیالات، بھلے وہ کتنے ہی ناقص اور بے بنیاد کیوں نہ ہوں، کو کسی متبرک مقدس صندوق میں بند کر کے ایک بڑا سا تالا لگا کر کہیں دور رکھ دیتے ہیں اور بعض اوقات اس تالے کی چابی خود ہمارے پاس بھی نہیں ہوتی۔ لہذا اس غیر لچکدار رویے کی بنا پر ہمارے خیالات میں کسی تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ عرصہ پہلے امریکی مصنف Jay Heinrichs کی شہرہ آفاق کتاب ”Thank you for arguing“ پڑھی تو پتہ چلا کہ بحث اور لڑائی میں فرق ہوتا ہے جس کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

مزید برآں بحث کا مقصد کسی سچائی تک پہنچنا ہوتا ہے نا کہ دوسروں کو نیچا دکھا کر فتح حاصل کرنا۔ دوسری طرف جاہلوں کے ساتھ بحث سے ویسے ہی اعراض کرنا چاہیے۔ قرآنی تعلیمات کے مفہوم کے مطابق اللہ تعالیٰ کے بندوں کا اگر کسی جاہل سے سامنا ہو تو وہ اسے دور سے سلام کرتے ہوئے بچ کر نکل جاتے ہیں۔ اس ضمن میں امریکی مزاح نگار Mark Twain نے ایک عمدہ نصیحت کی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ احمقوں سے بحث نہ کرو۔ ورنہ یہ تمہیں پہلے اپنے درجے یعنی حماقت پر لے کر آئیں گے اور پھر اپنے تجربے کی بنیاد پر تمہیں شکست دیں گے۔ انہی لوگوں کی حیدر علی آتش ؔ نے بھی تصویر کھینچی ہے۔

لگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب زبان بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجیے دہن بگڑا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments