اردو کی پانچ بہترین کتابیں



کالم کی سری: یہ کالم کرکٹ کے بارے میں نہیں ہے۔

ایک روز ہم دوستوں میں بحث چھڑ گئی کہ اگر ہمیں ایک عالمی کرکٹ ٹیم بنانی پڑے تو اس میں کون سے بہترین کھلاڑیوں کو شامل کیا جائے گا۔ بحث کے لیے ہم نے کچھ اصول طے کر لیے۔ مثلاً یہ کہ ٹیم1970کے بعد کے کھلاڑیوں پر مشتمل ہوگی کیونکہ اس سے پہلے کی کرکٹ کا دور کلاسیکی دور تھا جس کا موازنہ آج کی کرکٹ سے نہیں کیا جا سکتا۔ دوسرا اصول یہ طے کیا کہ یہ ٹیم ٹیسٹ میچ کی ہوگی اور تیسرا اصول یہ طے کیا کہ ٹیم کی سیلیکشن ذاتی پسند، نا پسند اور جذبہ قومیت سے بالا تر ہو کر کی جائے گی۔

طویل بحث کے بعد جو ٹیم بنائی گئی اس میں رکی پونٹنگ، سٹیو وا، ٹنڈلکر، سنگا کارا، برائن لارا، مہیندر دھونی، عمران خان، گلن مگرا، شین وارن، مارشل اورجیمز اینڈرسن کو تو شامل کیا گیا مگر سہواگ، گواسکر، میانداد، یونس خان، ایلن بارڈر، کلائیو لوئیڈ، کوہلی، جیف تھامسن، مرلی دھرن، ہیڈلی، فلنٹاف، راہل ڈراوڈ، ڈیوڈ گاور، بوتھم، گنگولی، انضمام، گرینچ، ڈیزمنڈ ہینز، جے سوریا، کپیل دیو، وسیم اکرم، وقار یونس، امبروز، ڈانلڈ، برٹ لی، ڈینس للی، گارنر، ہولڈنگ، رچرڈسن، انل کمبلے کی جگہ نہیں بن سکی۔ ابھی ہماری بحث ختم نہیں ہوئی تھی کہ ایک ایسا نام ذہن میں آیا جسے ہم یکسر بھول گئے تھے اور جس کے بغیر کرکٹ کی تاریخ ہی مکمل نہیں ہو سکتی، نام تھا سر ویوین رچرڈز۔ اس کے بعد ہم نے عالمی کرکٹ ٹیم کی تشکیل کا کام یہ کہہ کر ختم کر دیا کہ ایسی کوئی بھی ٹیم نہیں بنائی جا سکتی جس پر اجماع امت ہو۔

یہ بات اس لیے یاد آئی کہ آج اردو کی اپنی پانچ پسندیدہ کتابوں کے بارے میں لکھنے کا ارادہ تھا۔ معاشرے میں چونکہ قحط الرجال ہے اس لیے اکثر لوگ مجھ ایسے بندے سے بھی پوچھ لیتے ہیں کہ بتائیے ہم کون سی کتابیں پڑھیں۔ اب یہ سوال ایسا ہی ہے جیسے کسی کو عالمی کرکٹ ٹیم کی تشکیل کے لیے گیارہ بہترین کھلاڑیوں کا انتخاب کرنے کے لیے کہا جائے۔ اب بندہ کسے نکالے اور کسے رکھے۔ کتابوں کے انتخاب میں بھی ایسی ہی مشکل درپیش ہوتی ہے۔

ویسے آج کل ان لوگوں کا دم غنیمت ہے جو کتابوں کے بارے میں سوال پوچھ لیتے ہیں، کم از کم وہ کچھ پڑھنا تو چاہتے ہیں ورنہ یہاں تو یہ حال ہے کہ اگر کسی کو کوئی کتاب پڑھنے کو کہو تو آگے سے جواب آتا ہے کہ پوری کتاب پڑھنے کی جھنجھٹ میں کون پڑے، فی الحال آپ ہی اس کا خلاصہ بتا دیں! ایسے ہی لوگوں کے لیے میں نے اردو کی پانچ کتابوں کا انتخاب کیا ہے جو میری رائے میں ہر ایسے شخص کو پڑھنی چاہئیں جسے اردو ادب سے تھوڑا بہت شغف ہے۔ واضح رہے کہ اس میں کلاسیکی کتب اور شاعری کی کتابیں شامل نہیں۔

پہلی کتاب میری پسندیدہ یوسفی صاحب کی ’آب گم‘ ہے۔ مجھے نہیں سمجھ آتی کہ اس کتاب کو میں فکشن کے کس خانے میں ڈالوں، اسے آب بیتی کہوں، جگ بیتی سمجھوں، طنز و مزاح کے درجے میں رکھوں یا اردو ادب کی پانچ شاہکار کہانیوں کا مجموعہ کہوں۔ یہ کتاب نہ جانے میں نے کتنی مرتبہ پڑھی ہے اور ہر مرتبہ پہلے سے زیادہ لطف آیا ہے۔ اردو ادب کی لا زوال کتابوں کی کوئی بھی فہرست آپ بنا لیں، شاعری، نثر، کلاسیکی ادب، کوئی بھی پیمانہ رکھ لیں، یہ کتاب اس فہرست میں پہلی دس کتابوں میں شامل ہوگی۔

یوسفی صاحب نے اس کتاب میں کردار نگاری کے فن کو اپنے عروج پر پہنچا دیا ہے۔ یوسفی صاحب نے بشارت، قبلہ، ملا عاصی، مولانا کرامت حسین، کابلی والا، الہ دین بے چراغ، ماسٹر فاخر حسین اور مولی مجن جیسے کردار حقیقی زندگی سے اٹھائے ہیں اور ان کا خاکہ ایسا لکھا ہے کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ کوئی لکھاری آخر کیسے اتنی جزئیات کا بیان کر سکتا ہے۔ جب میں نے پہلی مرتبہ یہ کتاب پڑھی تو یوسفی صاحب کو فون کر کے پوچھا کہ کیا واقعی یہ حقیقی زندگی کے کردار تھے تو انہوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے، یہی بات انہوں نے اپنے دیباچے میں بھی لکھی ہے۔

ابھی میں نے ’آب گم‘ کو یونہی روانی میں کھولا تو ایک جملے پر نظر پڑی، ملاحظہ کریں : ”کانپور کا وہ کوتوال حد درجہ لائق۔ معاملہ فہم، اور انتہائی خلیق اور اسی درجہ بے ایمان تھا۔ صاحب، آپ راشی، زانی اور شرابی کو ہمیشہ خوش اخلاق، ملنسار اور میٹھا پائیں گے۔“ ایسے جملے جا بجا پوری کتاب میں بکھرے ہوئے ہیں۔ اس کتاب پر اگر واحد تنقید کی جا سکتی ہے تو وہ صرف یہ کہ یوسفی صاحب نے غالب کی محبت میں جا بجا اس کے شعروں کا استعمال کیا ہے اور کہیں کہیں یہ استعمال بوجھل لگتا ہے۔

میری دوسری پسندیدہ کتاب قرة العین حیدر کی ”آخر شب کے ہمسفر ہے“ ۔ ویسے تو ”آگ کا دریا“ کو ان کا سب سے بڑا ناول کیا جاتا ہے اور شاید یہ بات درست بھی ہے مگر بات چونکہ ذاتی پسند کی ہے اس لیے میں نے ’آخر شب کے ہمسفر‘ کو اپنی فہرست میں دوسرے نمبر پر رکھا ہے۔ اس ناول کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ’آگ کا دریا‘ اور ’گردش رنگ چمن‘ کے برعکس اس کی readability زیادہ ہے، آپ پہلے صفحے سے جوں جوں پڑھنا شروع کرتے ہیں تو آخر ناول ختم کر کے ہی دم لیتے ہیں۔

کردار نگاری سے زیادہ اس ناول کا پلاٹ بہت مضبوط ہے اور جس ماحول اور پس منظر میں یہ ناول لکھا گیا ہے اس کا بیان لا جواب ہے۔ قرة العین حیدر بے شک ’آگ کا دریا‘ سے پہچانی جاتی ہیں مگر ان کا یہ ناول شاید اردو ادب کے بہترین ناولوں میں سے ایک ہے۔ تیسری پسندیدہ کتاب ’پورا منٹو‘ ہے۔ یہ منٹو کے افسانوں کا انتخاب ہے جو اب تک چار جلدوں میں آکسفورڈ نے شائع کیا ہے۔ یہ انتخاب ہر قسم کی اغلاط سے پاک ہے، حتی کہ محقق نے منٹو کی زبان کی غلطیاں بھی اس میں درست کر دی ہیں۔

منٹو کے مشہور افسانے تو ہم سب نے پڑھ رکھے ہیں مگر ’پورا منٹو‘ شاید کم ہی لوگوں نے پڑھا ہو۔ اگر آپ منٹو کے یہ افسانے پڑھیں گے تو اندازہ ہو گا کہ ایک ایسا ادیب جو صرف تینتالیس برس زندہ رہا، اس قدر زیادہ تعداد میں ایسے شاہکار افسانے کیسے لکھ گیا۔ اپنے لڑکپن میں جب میں نے ’نقوش‘ کا منٹو نمبر پڑھا تھا تو اس میں منتخب افسانوں کو دیکھ کر فرض کر لیا تھا کہ یہی درجن بھر افسانے منٹو کی پہچان ہیں۔ جبکہ مجھے پتا ہی نہیں تھا کہ ’پورا منٹو‘ ہی پڑھنے والا ہے!

میری چوتھی پسندیدہ کتاب آصف فرخی کے منتخب کردہ غلام عباس کے افسانے ہیں، یہ کتاب بھی آکسفورڈ نے شائع کی ہے۔ دو سو صفحوں کی اس کتاب میں غلام عباس کے اٹھارہ افسانے شامل ہیں اور ان میں سے بعض کی کہانیاں تو ہم سب کو زبانی یاد ہیں۔ ’آنندی‘ پر بھارت میں فلم بن چکی ہے اور ان کا افسانہ ’دھنک‘ تو ایسا ہے جس پر انہیں جتنی بھی داد دی جائے کم ہے۔ آج سے چالیس پچاس سال پہلے انہوں نے مستقبل کا جو نقشہ کھینچا تھا بد قسمتی سے آج ہم اسی جگہ پہنچ گئے ہیں، ایک بہترین لکھاری ایسا ہی دور اندیش ہوتا ہے۔

مگر افسوس کہ غلام عباس کو وہ مقام نہ مل سکا جس کے وہ حقدار تھے۔ اس کتاب میں میرا پسندیدہ افسانہ ’کن رس‘ ہے۔ پانچویں پوزیشن پر تین کتابیں ہیں، تینوں ’سنگ میل‘ نے شائع کی ہیں اور میں کوشش کے باوجود بھی ان میں سے کسی ایک کو نہیں نکال پایا۔ پہلی، اشفاق احمد کی ’بابا صاحبا‘ ہے۔ یہ ایک عجیب سحر انگیز کتاب ہے، اشفاق صاحب کے اپنے خاص اسلوب میں ڈھلی ہوئی کڑکڑاتی بے باک نثر، جس کا کوئی جوڑ نہیں۔ دوسری ’مجموعہ انتظار حسین‘ ۔

اس کتاب میں انتظار صاحب کے تمام افسانے شامل ہیں، یہ ممکن نہیں کہ اردو ادب کا بیان ہو اور انتظار کے بغیر مکمل ہو سکے۔ تیسری کتاب ’مجموعہ احمد ندیم قاسمی‘ ہے۔ بہت سے لوگوں کو شاید اس کتاب کے انتخاب پر اعتراض ہو کہ جہاں عصمت چغتائی، بیدی، کرشن چندر، بانو قدسیہ، عبد اللہ حسین، ابن انشا، شفیق الرحمن، اسد محمد خان اور نیر مسعود جگہ نہیں پا سکے وہاں میں نے ندیم صاحب کو کیسے شامل کر لیا۔ دراصل ندیم صاحب کے افسانے حقیقت نگاری کی انتہا کو چھوتے نظر آتے ہیں، ویسے تو کرشن چندر بھی اس فن میں کم نہیں مگر ندیم صاحب شاید ان سے بھی کہیں کہیں بازی لے گئے ہیں۔ بقول ندیم صاحب ”میری کہانیوں کے پس منظر سے نامانوس حضرات انہیں صرف اس نظر سے پڑھیں کہ اسی سر زمین میں ایک ایسی جماعت بھی آباد ہے جو باسی روٹی اور پیاز سے پیٹ بھر کر بھی طاقتور رہ سکتی ہے۔“

کالم کی دم : جن لوگوں کو میری پسندیدہ کتابوں کے انتخاب پر اعتراض ہو وہ بے شک ان کتابوں کی جگہ کوئی سی دوسری پانچ کتابیں پڑھ لیں، لیکن پڑھیں ضرور!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments