داخلی سلامتی کا چیلنج


پاکستان کی داخلی سلامتی کا چیلنج ایک بڑا سنجیدہ نوعیت کا سوال ہے۔ کیونکہ جو بھی ریاست ترقی کرتی ہے یا اپنی ساکھ کو داخلی یا خارجی سطح پر قائم کرتی ہے تو اس کا ایک مضبوط پہلو داخلی سلامتی کا چیلنج ہوتا ہے۔ داخلی سلامتی کا تعلق محض قومی سیکورٹی پالیسی تک ہی محدود نہیں ہوتا بلکہ عملی طور پر یہ ریاست اور شہریوں کے درمیان ایک مضبوط، مربوط اور شفاف عمرانی معاہدہ کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا ریاستی و حکومتی سمیت ادارہ جاتی نظام جس انداز سے چلایا جا رہا ہے اس سے ریاست یا حکومتوں کا چیلنج کم نہیں بلکہ زیادہ شدت اختیار کر رہا ہے۔

عمومی طور پر داخلی سلامتی کے چیلنج سے نمٹنے کا اہم اور موثر طریقہ بتدریج یا تسلسل کے ساتھ مختلف شعبہ جات میں اصلاحات کا عمل ہوتا ہے۔ جمہوری یا سیاسی نظام کی بڑی کامیابی کا دار و مدار بھی اصلاحات کے ایجنڈے سے جڑا ہوتا ہے۔ کیونکہ حالات، واقعات اور تجربات کی بنیاد پر ہونے والی اصلاحات جن میں پالیسی، قانون سازی یا عملدرآمد کا نظام ہوتا ہے وہی کامیابی کی کنجی ثابت ہوتا ہے۔

پاکستان کی داخلی سلامتی کا مسئلہ محض کسی ایک جماعت یا حکومت سے جڑا نہیں ہوتا یہ ایک مکمل ریاستی جامع پیکج ہے جس میں ریاست، حکومتی یا سیاست یا انتظامیہ سے جڑے افراد یا ادارے ہی مل کر کوئی مشترکہ حکمت عملی کے تحت آگے بڑھ کر داخلی سلامتی کے مسئلہ کو یقینی بنا سکتے ہیں۔

پاکستان کا جو داخلی بحران ہے اس کا علاج کسی بھی صورت میں سیاسی تنہائی میں ممکن نہیں اس کے لیے جو جامع حکمت عملی یا فہم و فراست، تدبر اور گہری سوچ و فکر درکار ہے اس کا فقدان بھی ہمارے مسائل کو بڑھا رہا ہے۔ سیاسی سطح پر جو بڑے پیمانے پر محاذ آرائی جس کی بنیاد کسی کے سیاسی وجود کو قبول نہ کرنا، ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام نہ ہونا، سیاسی وضع داری اور رواداری کا فقدان، الزامات اور گھٹیا منفی سیاست اور حکومتوں کو منفی انداز میں بنانے یا ختم کرنے کے کھیل نے عملی طور پر ملک میں سیاسی عدم استحکام اور سیاسی انتشار کو زیادہ بڑھادیا ہے۔ لیکن سیاسی جماعتیں اور قیادتیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے کچھ نئی مثبت سیاست کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔

سب سے اہم مسئلہ حکمرانی یا گورننس کے بحران کا ہے۔ بدقسمتی سے ریاستی و حکومتی یا سیاسی سطح پر ہم حکمرانی کے تناظر میں دنیا کے تجربات سے سیکھنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔ دنیا زیادہ سے زیادہ سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات کی تقسیم کو یقینی بنا کر مقامی حکومتوں کے نظام کو اپنی اہم سیاسی ترجیحات کا حصہ بنا کر عام لوگوں کے مسائل کے حل کو اپنی ترجیحات کا حصہ بناتی ہیں۔ لیکن پاکستان کی سیاسی قیادت بظاہر جمہوری سیاست کا واویلا تو مچاتی ہے مگر مرکزیت پر مبنی نظام اور زیادہ سے زیادہ اختیارات کو ایک سطح تک محدود کرنے کو سوچ سے آزاد ہونے کے لیے تیار نہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ لوگوں میں ریاست یا حکومت کے تناظر میں جو بڑی خلیج یا بداعتمادی بڑھ رہی ہے اس کی بڑی وجہ حکمرانی کے نظام کی عدم شفافیت اور عام آدمی کے مفادات کی کمزوری سے جڑا ہوا ہے۔

یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ ہمارا انتظامی، قانونی اور پولیس کا ڈھانچہ مفلوج ہو گیا ہے یا یہ واقعی اپنی اہمیت کم کرچکا ہے۔ لیکن جس انداز سے یہ طاقت ور طبقات یا ادارے اصلاحات کے ایجنڈے میں رکاوٹیں کھڑی کر کے حکومت اور فیصلہ ساز لوگوں کو ایسی اصلاحات سے دور رکھتے ہیں جو ان کے مفادات کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتی ہیں۔ ویسے بھی کمزور اور چند ووٹوں یا اتحادی جماعتوں کی بنیاد پر کھڑی حکومتیں بڑی تبدیلی یا اصلاحات کے عمل میں وہ نتیجہ نہیں دے سکتیں جو ریاستی ضرورت بنتا ہے۔

ہماری سیاسی ضرورت ایک مضبوط سیاسی نظام اور حکومت سے ہی وابستہ ہے اور اسی کی طرف ہمیں پیش رفت کرنا ہوگی۔ سیاسی نظام میں بڑی اصلاحات کرنا ہوگی اور یہ کام روایتی طرز کی سیاست یا پہلے سے موجود نظام میں ہلکے پھلکے پیچ ورک کی بنیاد پر ممکن نہیں۔ ہمیں Out of Box جاکر کچھ نئی سوچ بچار کرنا ہوگی۔ کیونکہ جو سیاست یہاں چلائی جا رہی ہے وہ طبقاتی مفادات کی عکاسی بھی کرتی ہے اور نجی ملکیت یا سرمائے کی بنیاد پر چلائے جانے والی سیاسی جماعتیں یا نظام عملاً حقیقی جمہوریت کے تقاضوں کے منافی ہے۔ بالخصوص ہمیں روپے، پیسے یا دولت کی بنیاد پر چلائی جانے والی سیاست کے آگے ایک مضبوط بندھ باندھنا ہو گا کیونکہ اس سے سیاست اور جمہوریت دولت کی مرہون منت بن گئی ہے جو خود حقیقی سیاست اور جمہوریت کی دشمن ہے اور اس سے جمہوریت طاقت ور طبقات کے دائرہ کار تک ہی محدود رہے گی۔

ریاست یا حکومت اپنے نظام میں اصلاحات کو بنیاد بنانے کی بجائے روزمرہ اور انسانی حقوق سے جڑے بنیادی حقوق جن کی آئین سمیت ریاستی نظام ضمانت دیتا ہے اس پر توجہ دینے کی بجائے نجی شعبوں میں ریاستی نظام کو دینا لوگوں کی زندگیوں کو اور مشکل بنا رہا ہے۔ کیونکہ یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ ریاست، حکومت سمیت ادارہ جاتی نظام ریگولیٹ کرنے کے نظام میں مکمل ناکام نظر آتی ہے۔ نجی ادارے جن میں تعلیم اور صحت جیسے بنیادی ادارے بھی شامل ہیں وہاں ہونے والی لوٹ مار کی جوابدہی کے کے لیے کوئی تیار نہیں اور لوگوں کو جان بوجھ کر نجی شعبہ کے رحم و کرم پر ڈالنا بھی خود ایک بڑے ظلم کی نشاندہی کرتا ہے۔

نجی شعبہ کو ضرور مراعات دی جائیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ ریاست اور حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پبلک شعبہ کی دیکھ بھال بھی اس انداز میں کرے کہ لوگ ان سے استفادہ حاصل کرسکیں اور یہ اسی صورت ممکن ہو گا جب ریاست و حکومت ایک طاقت طبقات کی نمائندگی کرنے کی بجائے عام اور کمزور آدمی کے ساتھ کھڑی ہو۔ اس کے لیے بڑی ترجیح پولیس اور عدالتی نظام کی اصلاحات اور غیر معمولی تبدیلیوں کو اپنا ایجنڈا بنانا ہو گا۔

معاشی نظام میں توازن پیدا کرنا، دوسروں پر کم سے کم انحصار کرنا اور معاشی پالیسیوں میں بڑے طاقت ور طبقات کے مفادات کے مقابلے میں عام آدمی کے معاملات پر زیادہ توجہ دینا، حکمرانی کے نظام کو سادہ اور کم خرچ کرنا، آسائشوں پر مبنی حکمرانی کا نظام اور بلاوجہ کی حکمرانی کے نظام میں شان و شوکت کو ختم کر کے خود بھی اپنا ریاستی و حکومتی خرچ کم کریں اور دوسروں کو بھی ترغیب دیں کہ وہ اپنے معاملات کا خود سے بھی داخلی احتساب کریں۔

ایک اچھی اور ذمہ دار ریاست یا حکومت بروقت اور ضرورت کے تحت فوری فیصلے کرنے اور ان کی مینجمنٹ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اسی بنیاد پر ہماری ریاست اور حکومت کو آگے بڑھنا چاہیے۔ داخلی مسائل سے نمٹنے کے لیے ہمیں صرف ووٹ کی عملی سیاست سے باہر نکل کر کچھ بڑا کرنے کی صلاحیت بھی پیدا کرنی چاہیے۔ ہمیں ریاست کے نظام کی شفافیت کے لیے پورا ایک بڑا روڈ میپ درکار ہے جو سب فریقین کی مدد سے تیار ہو، تاکہ اس کی ملکیت یا اونر شپ سب لے سکیں۔

داخلی محاذ پر ہمیں ایک بڑی سیاسی کمٹمنٹ اور یکسوئی انتہا پسند عناصر چاہے وہ سیاسی، لسانی، مذہبی یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر طاقت اور بندوق کے زور پر ریاست کی رٹ کو چیلنج کریں تو ان کے خلاف ریاستی پالیسی میں کوئی تضاد اور الجھن نہیں ہونی چاہیے۔ کیونکہ ریاست کے اندر کسی بھی قسم کی متبادل ریاست کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ کیونکہ یہ مسئلہ محض داخلی ہی نہیں بلکہ خارجی محاذ پر بھی ہمارے لیے بدنامی کا سبب بنتا ہے۔

ریاست اور حکومتوں کا سمجھوتہ ان معاملات میں ریاست کی داخلی سیاست کے مقدمہ کو کمزور کرتا ہے۔ اسی طرح اس تاثر کی بھی نفی کرنا ہوگی کہ ہم انتہا پسند جماعتوں کی پس پردہ سرپرستی کر کے ان کو اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہیں۔ داخلی سیکورٹی کے تناظر میں ہمیں بڑی توجہ اپنے علاقائی ممالک سے بہتر تعلقات پر دینی ہوگی۔ سیاسی اور عسکری قیادت کا یہ بیانیہ کہ اب ہماری پالیسی میں ٹکراؤ اور تضادات یا کسی کی جنگ میں بلاوجہ حصہ بننے کا عمل یا ہم تنازعات سے زیادہ تعلقات کی بہتری میں آگے بڑھیں گے درست حکمت عملی ہے۔ ان کے بقول اس وقت اولین ترجیح علاقائی معاشی تعلقات کو بہتر بنانا اور بالخصوص بھارت سے بہتر تعلقات شامل ہیں۔ ہمیں اس تاثر کو دنیا میں اجاگر کرنا ہو گا کہ ہم علاقائی معاملات میں دوستی کے فریق ہیں اور سب سے بہتر تعلقات چاہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments