غیر حقیقی کردار (5)


جب میرا سکول میں داخلہ ہوا تو شمعو ایک بار پھر امید سے تھی اور اس امید کے ساتھ کہ اس بار لڑکا ہی ہو گا۔ اس مقصد کے لیے وہ اپنی بھانجی فرزانہ کے ساتھ مل کر حاجی شیر مزار پہ حاضری کی منت مان چکی تھی۔ بھانجی نے اس امید کی کرن کو زندہ رکھنے کے لیے لڑکے کا نام زوہیب حسن سوچ کر اسے ایک پرچی پہ لکھ کر قرآن پاک میں بھی رکھ چھوڑا تھا۔

زوہیب کو جب خدا نے ہماری چھت پہ پھینکا تو گھر میں خوب جشن منایا گیا۔ شمعو کا شوہر بھی زوہیب کو دیکھنے آیا، مٹھائی بانٹی، اپنے یاروں کو گھر پہ بلا کے ان کی دعوت بھی کی اور شمعو کی سیوا کرنے والی خواتین اور دائی، ماسی جٹی کو بھی خوب اناج اور میٹھا دے کر خوش کیا۔

جب یہ سب رونما ہو رہا تھا تو مجھے مرد اور عورت کا دو جنس ہونے، ہر ایک کا مختلف اقدار کے ساتھ معاشی بانٹ کا بالکل اندازہ نہ تھا اور شاید آدھی عمر سے زیادہ گزارنے کے بعد ہلکا سا احساس ہوا مگر وہ بھی میں یقین سے نہیں کہہ سکتی۔

ہمیں بس یہی بتایا گیا تھا کہ بھائی کا ہونا بہت ضروری ہے سو ہمیں بھی یہی لگتا تھا کہ بھائی کا ہونا تو واقعی ضروری ہے۔ ہم اس پہ یقین کیے بیٹھے تھے کہ بھائی ہو گا تو سب بدل جائے گا۔ کیا بدل جائے گا یہ مجھے معلوم نہیں تھا ہاں یہ ضرور معلوم ہے کہ شمعو بہت خوش تھی اور شمعو خوش تھی تو ہم کیسے خوش نہ رہتے۔

تبدیلی کا لالچ ہم سب میں بالکل ویسے ہی پایا جاتا ہے جیسے کہ ہم سب کے اندر ایک بچہ، جو کب، کس وقت جاگ جائے، پتہ ہی نہیں چلتا۔

معلوم نہیں زوہیب کے آنے کے بعد جو بدلاؤ حویلی کے بائیں جانب آنا تھا وہ آیا کہ نہیں ہاں مگر یہ ضرور معلوم ہے کہ اس کے آنے سے ہمیں ایک بہن اور مل گئی۔ شمعو زیادہ تر اسے ہمارے پرانے کپڑے پہناتی تو بالکل ہماری چوتھی بہن لگتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ماں اور بہنوں کو دوپٹہ اوڑھتے دیکھ کر، یہ شوق بھی اس نے جلد ہی پال لیا۔ جب دوپٹہ اوڑھ کر خود سے ہی باتیں کرتا کھیلتا تو ہم سب اپنی اپنی جگہ بیٹھے اسے دیکھتے اور ہنستے رہتے۔ مگر زوہیب اتنا بیوقوف نہیں تھا۔ اسے معلوم تھا کہ شمعو کے شوہر کو اس کی مردانگی ہی بھلی لگے گی۔ سو وہ بھی ہماری طرح از خود اپنی جماعت کی حیثیت اور مخالف جماعت سے گفت و شنید کے آداب جان گیا۔

جیسے ہی بولنا شروع کیا تو میرا نام مٹھو رکھ دیا اور ایسا نام رکھا کہ پھر گھر میں سبھی اسی نام سے پکارتے اور شمعو تو مرتے دم تک مجھے مٹھو ہی کہتی رہی۔

ہر چھ ماہ بعد ، شمعو جب پورے گھر کی جما کے صفائی کرتی تو سارے گھر کو پانی سے دھوتی ایسے میں وہ گھر کی ہر چیز کو جھاڑ پونچھ کر صحن میں چارپائیوں پہ رکھتی جاتی۔ ہمارے گھر میں ایک پینٹنگ تھی جو کہ ہمارے گھر جیسے علاقے سے بہت دور کسی ویران پہاڑی علاقے میں بنی ایک خوبصورت جھونپڑی اور اس کے ارد گرد سر سبز درخت اور جھاڑیوں کو لہلہاتے دکھاتی تھی اور اپنے دیکھنے والوں کو اپنا مداح کر سکتی تھی کہ وہ اپنا گھر بار سب چھوڑ کر وہاں اس ویرانے میں اکیلے رہنے کے لیے تیار ہو جائیں۔

شمعو صفائی کرتے اور میں چارپائی پہ لیٹے اس پینٹنگ کو اٹھا کر اسے دیکھتی رہتی اور اپنے تخیلاتی سفر پہ نکل جاتی جہاں میں اس جھونپڑی کی مالک ہوں اور اپنے سارے کام جھونپڑی کے ساتھ بنی گزرگاہ سے پیدل سفر کر کے کرتی اور واپس اپنے ٹھکانے پر آ جاتی اور مستقبل میں اپنے شوہر کے ساتھ اس جھونپڑی میں اپنی پوری عمر گزارنے کا عہد کرتی یہ سوچتے ہوئے کہ ہم دونوں کے لیے ایک دوسرے کی محبت ہی کافی ہو گی۔

میں سوچتی ہوں کہ میری بچپن کی تخیلاتی دنیا اس قدر تنہائی زدہ تھی کہ بچپن کی یہ یادگار مجھے خوفناک حد تک وحشت زدہ کر دیتی ہے۔

محبت کو قید کرنے کا خیال جو بچپن کی پیداوار ہے کیا صرف میرے بچپن تک محیط رہا یا عمر کے ساتھ مزید پختہ ہوا؟

میں آج تک یہ جان نہیں پائی کہ میرا محبت کا خیال اس تنہائی کا اظہار کرتی خوبصورت جھونپڑی میں کہیں ٹھہرا پڑا رہا ہے یا اس نے میرے ساتھ تینتیس سال میں اس خیال کو تجدید بخشی؟

ہاں مگر مجھے یہ معلوم پڑا کہ محبت وہ نہیں جسے قید کرنا پڑے، محبت وہ ہے جو ہر قید سے آزاد ہو کر آپ تک پہنچے۔

معلوم نہیں کہ شمعو وہ پینٹنگ کہاں سے لائی ہو گی یا شاید کسی نے اسے تحفہ میں دی ہو۔ مجھے معلوم ہے کہ گاؤں میں شمالی اطراف میں رہنے والا ایک خاندان گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے آتا تھا اور شمعو ان کے گھر بہت جاتی تھی اور جن بچوں کے ساتھ میں کھیلتی تھی، شمعو ان کے باپ کے کپڑے اپنے ہاتھوں پہ بخوشی دھوتی تھی۔

جاری ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments