دبئی ماڈل اور ہمارا اسلام
یہ تقریباً 2004 کی بات ہے۔ دبئی کا موجودہ حکمران شیخ محمد جرمنی کی تعمیراتی کمپنی کے ساتھ میٹنگ میں مصروف تھا۔ بڑی سی میز پر کئی نقشے پھیلے ہوئے تھے۔ جرمنی سے تعلق رکھنے والے انجینئرز شیخ محمد کو ساری تفصیلات سے آگاہ کر رہے تھے کہ کس طرح دبئی کو مستقبل میں ایک جدید اور ترقی یافتہ شہر میں تبدیل کر دیا جائے گا۔
شیخ محمد نے ان انجینئرز سے پوچھا کہ کتنا عرصہ لگے گا۔ انہوں نے بتایا کہ 2030 تک ہو جائے گا۔ شیخ محمد نے جواب دیا یہ تو بہت عرصہ ہے اور مجھے یہ سارے منصوبے جلدی چاہیے۔ انجینئرز نے شیخ محمد سے سوال کیا کہ آپ کو اتنی جلدی کیا ہے۔ شیخ محمد نے جواب دیا کہ میں اپنی زندگی میں اپنی قوم کو یہ سب دینا چاہتا ہوں۔
دبئی آج کہاں ہے، کیسا شہر ہے، آپ سب کو معلوم ہے۔ یہ ہوتا ہے حکمرانوں کا وژن، ان کی لگن، ان کا مقصد۔ صحرا کو نخلستان بنا دیا گیا۔ آج دبئی کا مقابلہ دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ شہر سے کیا جا سکتا ہے۔ یہاں دنیا کے تقریباً 80 ملکوں کے لوگ بستے ہیں جو مختلف مذاہب کے ماننے والے اور مختلف رسم و رواج سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔ یہاں نہ کبھی کسی فرقے میں لڑائی ہوتی ہے اور نہ ہی ایک دوسرے کی مسجدوں، مندروں اور چرچ پر حملے۔
ہر محلے میں مسجد ہے۔ ہر شاپنگ مال میں نماز پڑھنے کی جگہ الگ سے ہے۔ نماز پڑھنے کے لیے ملازمین کو باقاعدہ وقفہ بھی دیا جاتا ہے۔ رمضان المبارک کے مہینے میں کھانے پینے کی جگہیں بند ہوتی ہیں۔ رمضان المبارک کے آغاز سے ہی کھجور، پھل اور دیگر اشیاء کی قیمتیں بہت کم ہو جاتی ہیں اور سیل پر آپ کو بہت معیاری سامان مل جاتا ہے۔
دوسری جانب دبئی میں غیر ملکی باشندوں کے لئے حرام جانور کا گوشت، مشروب مغرب اور دیگر تفریح کے لوازمات بھرپور طور پر بھی موجود ہیں۔ یہاں اسکرٹ پہن کر گھومنا یا بکنی میں ساحل پر نہانا عام بات ہے۔
کوئی خاتون کسی بھی لباس میں ہو کسی کی مجال نہیں ہے کہ کوئی فقرہ کسے یا اس کو ہراساں کرے۔ دیر رات کو کوئی بھی مرد یا عورت بلا کسی خوف و خطر کے کہیں بھی آ جا سکتی ہے۔ لڑکی نے مختصر سے مختصر لباس پہنا ہوا ہو لیکن ہمارے پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور بھائی کے جذبات نہیں مچلتے کیوں کہ وہاں کے حکمرانوں نے اپنی عوام کو تحفظ فراہم کر دیا ہے، سخت قانون اور اس کی عمل داری کی شکل میں۔ جذبات تو صرف ملک منافقستان میں مچلتے ہیں اور مچلے بھی کیوں نہ جب اس ملک کا وزیراعظم کہتا ہو کہ مرد روبوٹ نہیں ہے، عورت چھوٹا لباس پہنے گی تو ہراساں ہو گی۔
دبئی اب ایک ٹاپ سیاحی مقام بن چکا ہے۔ دبئی کے ہوٹلوں کے کلبز مشہور ہیں جہاں سیاحوں کو مشروب مغرب سے لے کر اور مساج پارلر تک سب سہولیات میسر ہیں۔ یہاں کے کلبز میں غیر ملکی لوگ ڈالر اور درہم اڑاتے ہیں، زندگی کا مزہ لیتے ہیں اور جب صبح اٹھتے ہیں تو وہ ہر کسی کو مسکرا کر صبح بخیر کہتے ہیں۔ زندگی ان کو اچھی لگتی ہے۔ اب وہ نہ کسی لڑکی پر فقرہ کسے گا، نہ اس پر اپنی نظریں جمائے گا اور نہ ہی کسی کو ہراساں کرے گا۔
میں نے ہمیشہ ان کاموں میں پڑے ہوئے لوگوں کو با اخلاق اور دوسروں کی مدد کرنے والا پایا ہے جبکہ دوسری جانب ان کاموں پر توبہ توبہ کرنے والے لوگوں کو انتہائی مغرور، حاسد اور فرسٹریشن کا شکار پایا۔
ایک دفعہ ایک فقیر مسجد کے باہر بیٹھ گیا۔ لوگ نماز پڑھ کر نکلتے، اس کو معاف کرو کہتے، کچھ دھتکارتے بھی اور اپنی منزل کی طرف چل پڑتے۔ فقیر مایوس ہو کر پھر شراب خانے کے سامنے بیٹھ گیا۔ یہاں جو شراب پی کر نکلتا وہ کچھ نہ کچھ اس فقیر کو دیتا اور کہتا کہ ہمارے لئے دعا کرنا، ہم بہت گنہگار ہیں۔ اس دن اس فقیر کو زندگی کی سب سے بڑی حقیقت پتا چلی کہ جس گناہ سے تمہارے دل میں احساس ندامت پیدا ہو، وہ اس نیکی سے بہتر ہے جس کو کرنے سے تمہارے اندر غرور آ جائے۔
خیر واپس دبئی کی طرف آتے ہیں۔ دبئی میں فرسٹریشن نہیں ہے۔ لوگ جھنجھلاہٹ کا شکار نہیں ہیں۔ یہاں کرکٹ کا ورلڈ کپ ہو رہا ہے جو ہمارے ملک میں ہونا چاہیے تھا۔ یہاں کی ہوائی جہاز کمپنی دنیا کی سب سے اچھی ائر لائن ہے جو کبھی ہماری تھی۔ یہاں امریکہ، یورپ، روس اور لندن کے مشہور فن کار اپنے فن کا مظاہرہ کرنے آتے ہیں اور ان کے شوز مکمل طور پر بک جاتے ہیں۔ یہاں ہر طبقے کے انسان کے لئے تفریح کے ذرائع موجود ہیں۔
میں سوچتا ہوں کہ ہم لوگ دبئی ماڈل پر کیوں نہیں چل سکتے۔ لوگوں کو اپنی مرضی سے مسجد، مندر اور چرچ جانے کا حق حاصل ہو۔ ہمیں اپنے ملک میں مذہبی کشادگی کو بڑھانا ہو گا۔ لوگوں کی نجی زندگی کی ویڈیو بنا کر پھیلانا، ہمیں اس سے بچنا ہو گا۔ دو لوگ آپس میں خلوت میں پیار کریں تو یہ گناہ تو ہو سکتا ہے لیکن جرم نہیں۔ اور گناہ کا معاف کرنا یا سزا دینا اللہ رب العزت کا کام ہے، ہمارا نہیں۔
یقین مانیں دو چار کلبز، مساج پارلر، مندر اور چرچ بن جانے سے اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔ ہاں اسلام کو اگر خطرہ ہے تو وہ ہماری منافقت، جھوٹ، ریا کاری، دھوکا، فریب اور مکر سے ہے لیکن ہمارا معاشرہ پتا نہیں کیوں صرف شراب نوشی اور کلب میں ڈانس کرنے کو ہی اخلاقی پستی سمجھتا ہے۔
- یہ قوم سنجیدہ کب ہو گی؟ - 03/04/2024
- جہاز ڈوب رہا ہے! - 28/02/2024
- اور شراب پینے والی ٹیم جیت گئی! - 22/11/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).