صحافیوں پر حملے کرنے والے ملزمان ہی دھندلے کیوں؟


تاریخ میں یہ بات شواہد کے ساتھ موجود ہے اور میں نے بذات خود ان تمام باتوں کا مشاہدہ بھی کیا ہے کہ پاکستان کی سر زمین پر بسنے والے چند شر پسند عناصر قوم تک سچ پہنچانے والے صحافیوں کے سخت دشمن ہیں اور وہ مختلف وارداتوں کے ذریعے صحافیوں کی زبانوں کو کاٹنا اور گلے کو دبانا چاہتے ہیں تاکہ قوم کو مسلسل اندھیرے میں رکھا جائے اور ملک کی املاک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جائے اور ہر طرف نا انصافی کے بادل چھائے رہیں، لوگ در بدر کی ٹھوکریں کھاتے رہیں اور صحافت ہمارے گھر کی لونڈی بن کر رہ جائے۔ ان تمام مشکلات کو دیکھنے اور سہنے کے باوجود چند باضمیر صحافیوں نے اپنے پیشے کو عبادت سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہونے کو بہتر سمجھا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ کیسے ان بہادر صحافیوں کو گولیاں مار کر اور جسمانی تشدد کر کے موت کے گھاٹ اتارنے کی کوشش کی گئی۔

انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان، عراق، میکسیکو اور فلپائن کے بعد چوتھے نمبر پر ہے جہاں چند برسوں میں 138 صحافیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ حالیہ رپورٹ میں انہوں نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ مئی 2020 سے لے کر اپریل 2021 تک صحافیوں کو مختلف طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا اور ان پر حملوں میں 40 فیصد تک اضافہ دیکھنے کو ملا اور صرف اسی ایک، ڈیڑھ سال کے دوران 150 سے زائد صحافی مختلف طرز کے حملوں کی زد میں آئے جس کی وجہ سے تحریک انصاف کی حکومت میں پاکستان اظہار رائے کی عالمی تنزلی کا شکار ہو کر 142 سے 145 ویں درجے تک پہنچ گیا ہے اور اس ناکامی میں براہ راست موجودہ حکومت کے چند شر پسند عناصر کا ہاتھ ہے جو صحافیوں کی زندگیوں کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔

حالیہ دنوں میں اسلام آباد پولیس نے سپریم کورٹ میں صحافیوں کے تشدد اور ان کے ملزمان کی گرفتاری کے حوالے سے ایک رپورٹ جمع کروائی ہے جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم اور صحافی اسد طور پر حملہ کرنے والے ملزمان کے چہرے شفاف نہیں بلکہ دھندلے ہیں جس کی وجہ سے ملزمان کی شناخت میں مشکلات پیش آ رہی ہیں اور نادرا بھی اس کیس میں ملزمان کی شناخت میں اس طرح فرائض انجام نہیں دے رہا جس طریقے سے اس نے ماضی میں ہونے والے واقعات میں انجام دیے تھے۔

یہاں پر آپ کو ایک اہم نقطہ بتاتا چلوں کہ ان واقعات سے کچھ دنوں بعد لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں کالعدم تنظیم کے سربراہ کے گھر کے باہر خودکش دھماکہ ہوا تھا اور اس دھماکے میں ملوث عناصر کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی واضح نہیں تھی لیکن پھر بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنی پھرتیاں دیکھا کر چند دنوں میں پورے نیٹ ورک کو پکڑ لیا اور میڈیا کے سامنے اس کو بے نقاب بھی کیا۔

یہاں پر ہر شہری یہ سوال سوچنے پر مجبور ہے کہ اگر کالعدم تنظیم کے سربراہ کے گھر کے باہر خودکش دھماکہ کرنے والوں کا نیٹ ورک پکڑا جا سکتا ہے تو صحافیوں پر حملہ کرنے والوں کو قانون کی گرفت میں کیوں نہیں لایا جا سکتا؟ سینئر صحافی حامد میر کو چند سال قبل کراچی میں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا انہوں نے بھی اپنے ملزمان کو نامزد کیا لیکن قانون اس پر بھی حرکت میں نہیں آیا۔ مطیع اللہ جان کو سکول کی عمارت کے سامنے سے اغواء کر کے نامعلوم مقام تک لے جایا گیا اور اس واقعے کی واضح سی سی ٹی وی ویڈیو ہونے کے باوجود ان کے ملزمان آج تک آزاد ہیں اور عدالتیں تمام ثبوت ہونے کے باوجود فیصلہ دینے سے قاصر ہیں۔

سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم کو ان کے گھر کے نزدیک ایک پارک میں چہل قدمی کے دوران گولی ماری گئی اور وہ اس حملے میں شدید زخمی ہوئے لیکن ان کی خوش قسمتی تھی کہ وہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ان پر ہونے والے قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گئے اور اس حملے کی سی سی ٹی وی ویڈیو پوری قوم نے ملکی و غیر ملکی میڈیا چینلوں پر نشر ہوتی دیکھی لیکن بدقسمتی سے ان کے ملزمان بھی آج تک گرفت سے آزاد ہیں اور دھند کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔

اس کے بعد صحافی اسد طور کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فائز کے کیس کے حوالے سے قوم تک سچی خبریں پہنچانے کے الزام میں پہلے فون پر دھمکیاں دی گئی لیکن جب دھمکیوں سے کام نہ بنا تو اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ پر چند نامعلوم افراد نے دھاوا بولا اور انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا اور اس حملے کی سی سی ٹی وی ویڈیو بھی منظر عام پر آ گئی تھی لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں نے یہاں پر بھی دھند کا سہارا لے کر ملزمان کی گرفتاری کے لیے ہاتھ کھڑے کر دیے۔

آخر کب تک صحافی پاکستان کے اندر اپنی جان کو داؤ پر لگاتے رہیں گے؟ آخر کب تک صحافی پاکستان میں اپنی جان کو غیر محفوظ سمجھتے رہیں گے؟ آخر کب تک صحافیوں کا خون رائیگاں جاتا رہے گا؟ آخر کب تک صحافیوں کو جسمانی تشدد اور جان سے مار ڈالنے کی دھمکیاں ملتی رہے گی؟ آخر کار وہ وقت ضرور آئے گا جب دھند بھی ان کے کالے دھبوں پر پردہ ڈالنے میں ناکام ہو جائے گی اور قوم اپنے قومی مجرموں تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments