سفرنامہ پنجاب: تیرے شہر میں یوں زندگی ملی (8)


”باغوں کے شہر کی سیر“

گزشتہ رات کی ایک اچھی محفل اور عمدہ مشاعرے نے طبیعت کو شاداں و فرحاں کر دیا تھا۔ حامد انوار صاحب مرکز قومی زبان کے سربراہ ہمارے میزبان تھے اور سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے بہترین میزبانی کی۔ مشاعرے کے فوری بعد چائے کا انتظام تھا۔ ساتھ ہی ڈھیروں اقسام کے بسکٹس تھے غالباً مارکیٹ میں دست یاب ہر بسکٹ وہاں لا کے سجا دیا گیا تھا۔ چائے بہت مزے دار تھی بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ان آٹھ دنوں کے سفر میں جو سب سے مزے دار چائے میں نے پی وہ یہیں اکادمی ادبیات کے دفتر میں پی۔

دوسرے نمبر پہ روہڑی ریلوے اسٹیشن کی چائے تھی۔ رات دو بجے ریل گاڑی کچھ طویل وقت کے لیے رکی تھی۔ میں نیند سے بیدار ہوئی تھی اور اپنے کچھ ساتھیوں کو چائے پیتے دیکھ کر میں نے بھی چائے منگا لی تھی۔ وہ بھی بہت زبردست چائے تھی۔ چائے کے تذکرے سے وہ مزے کی چائے یاد آنے لگی ہیں اور دل چاہ رہا ہے کہ وہ ذائقہ دوبارہ میسر ہو۔ خیر وہ نہ سہی مگر ویسا ہی ذائقہ، ملے گا، کبھی نہ کبھی، کہیں نہ کہیں۔

اس تقریب میں آتے اور جاتے ہوئے راستے میں جتنا بھی لاہور دیکھنے کو ملا، پسند آیا۔ قریب ایک ڈیڑھ عشرے قبل کا کراچی یاد آ گیا کیسا شان دار تھا روشنیوں کا شہر عروس البلاد بالکل اسم بامسمیٰ اور اب تو لگتا ہی نہیں یہ وہ کراچی ہے جہاں زندگی گزری ہے۔ میرا یہ پہلا سفر اور لاہور آنے کا پہلا موقع تھا۔ لاہور کے بارے میں اتنا سنا تھا اسے دیکھنے کا اشتیاق تھا لیکن ہمارے پروگرام میں سب سے کم وقت لاہور کے لیے تھا یعنی محض چوبیس گھنٹے۔

پھر ہماری مصروفیات بھی تھیں۔ نجانے پھر کبھی سفر کرنے اور خاص طور پہ لاہور آنے کا موقع ملے نہ ملے۔ لاہور آنے کے لیے زیادہ وقت ہونا چاہیے تھا تاکہ روایتوں اور داستانوں کے امین اس شہر کو تسلی سے ہر زاویئے سے سنا جائے، دیکھا جائے۔ اسے اس کے خد و خال کے ساتھ پوری طرح محسوس کیا جا سکے۔ لاہور آ کے یہ تشنگی رہی اور رہے گی کہ ہم لاہور سے متعارف ہی نہ ہو سکے۔ رات کو ہوٹل آ کے ہم جلد ہی سو گئے کیوں کہ اگلا دن پھر بے انتہا مصروفیت لیے ہوئے تھا۔

یہ لاہور میں ہماری پہلی اور آخری رات تھی۔ اگلے دن علی الصبح بیدار ہو گئے کیوں کہ ہمارے پاس یہ چند ہی گھنٹے تھے۔ کسی بھی بڑے شہر کو دیکھنے کے لیے جو بہت مضبوط ثقافتی پس منظر رکھتا ہو، چند گھنٹے انتہائی ناکافی ہیں لیکن مسئلہ یہ تھا گروپ کے تقریباً سبھی افراد ملازمت پیشہ تھے اور ان کو چھٹیاں بہت مشکل سے ملی تھیں اور اتنی ہی ملی تھیں۔ مزید قیام ناممکن تھا۔ بہرحال ہم لوگ صبح قریب نو بجے انارکلی فوڈ اسٹریٹ پہ ناشتہ کرنے چلے گئے۔

حلوہ پوری اور پائے نان منگوائے گئے۔ حلوہ پوری تو بہتر تھی لیکن پائے دیکھ کے بے حد مایوسی ہوئی۔ نہ رنگ نہ ذائقہ نہ ہی وہ مہک جو پائے کے سالن میں ہوتی ہے۔ ہر سالن کی ایک خاص خوشبو ہوتی ہے جو اس کے ذائقے کو منفرد بناتی ہے۔ ناشتہ کر کے چائے پی اس ذائقہ غنیمت تھا۔ پھر ہم نے داتا دربار کا رخ کیا۔ ہمارے گروپ کے کچھ ارکان نے سفر کے آغاز میں داتا دربار آنے کا پروگرام بنالیا تھا۔ کل مشاعرے سے ہی ہمارے کچھ ساتھی ہم سے رخصت ہو گئے تھے۔

سحر علی اپنا کلام سنا کے کراچی جانے کے لیے ائرپورٹ روانہ ہو گئی تھیں ان کی پرواز شام کی تھی۔ آئرین کے بھائی لاہور میں رہتے ہیں۔ ان کے بچوں کو تو آئرین کے بھائی نے گاڑی بھیج کے دوپہر کو ہی بلا لیا تھا۔ آئرین اور زیفرین کو مشاعرے کے بعد آئرین کے بھائی کی گاڑی اکادمی ادبیات کے دفتر لینے آ گئی تھی۔ ثریا وقار سلکیاں میں ہی ہم سے رخصت ہو گئی تھیں۔ ان کی بھانجی جو سرگودھا میں رہائش پذیر ہے، اس نے آ کر انھیں لے جانا تھا۔

یوں ہمارا گروپ اب تقریباً آدھا رہ گیا تھا۔ داتا دربار پہ فاتحہ خوانی کے بعد ہم لوگ قریب ایک اور دربار پہ گئے جو کہ داتا صاحب کے مرید خاص کا ہے۔ ان مزاروں پہ حاضری دے کے مینار پاکستان گئے۔ بہت سرسبز جگہ ہے۔ وسیع اور ہری بھری۔ ایسی ہریالی کہ دیکھ کے آنکھوں میں تراوٹ آ گئی۔ ہم صبح کے وقت وہاں پہنچے تھے تو شاید اس لیے وہاں زیادہ لوگ نہیں تھے۔ وہاں مسافروں کی تفریح طبع کے لیے ٹرین نما گاڑیاں ہیں۔ ہم نے بھی اس کی سواری کی اور بہت لطف لیا۔

وہاں سے بادشاہی مسجد کا رخ کیا جو پیدل فاصلے پر تھا۔ یہ سب جگہیں قریب قریب واقع ہیں تفریح کے لیے آنے والوں کو یہ آسانی ہے کہ یہاں آ کر وہ دو تین جگہوں پہ جا سکتے ہیں۔ بادشاہی مسجد جا کے بھی تصویری سیشن ہوا۔ صائمہ کی دوست رابعہ الربا6 کو، جو نثر نگار ہیں، جب معلوم ہوا کہ ہم لوگ مینار پاکستان آئے ہوئے ہیں تو وہ بھی ہم سب سے ملنے وہیں آ گئیں۔ ہم لوگ اس وقت بادشاہی مسجد میں تھے جب صائمہ رابعہ کو لیے چلی آئیں۔

رابعہ بہت خوش اخلاق ہیں سب سے ایسے ملیں جیسے برسوں کی شناسائی ہو۔ پھر رابعہ ہمارے ساتھ ساتھ رہیں۔ بادشاہی مسجد سے نکل کے ہم لوگ شاہی قلعے آ گئے۔ وہاں بھی کچھ وقت گزارا۔ ان عمارتوں کو دیکھ کر خیال آ رہا تھا کہ صدیوں پہلے بھی یہاں چہل پہل ہوتی ہوگی ان عمارتوں نے کیا کیا کچھ نہ دیکھا ہو گا۔ وہ لوگ جو یہاں ہوتے ہوں گے۔ وہ ان سنگلاخ عمارتوں میں کیسے زندگی گزارتے ہوں گے۔ وہ ان میں کس طور رہتے بستے ہوں گے۔

ان کی خوشیاں ان کے غم ان کے دکھ سکھ بھلا کیا ہوں گے۔ موسم یہاں اپنی کیا چھب دکھاتے ہوں گے۔ ان گلیوں ان علاقوں کے مکین مختلف موسموں کا لطف کیسے لیتے ہوں گے۔ یہاں گرمیاں کس رنگ میں آتی ہوں گی۔ برسات کا کیا رنگ ہوتا ہو گا۔ سردیاں کس طور یہاں ڈیرہ جماتی ہوں گی۔ بہار کس انداز میں جلوہ افروز ہوتی ہوگی۔ خزاں کیسے زرد پتوں کی شال اوڑھ کے چلی آتی ہوگی اور یہاں کے مکین۔ وہ کیسے ان موسموں کا استقبال کرتے ہوں گے۔

میرے ساتھی قلعے میں گھوم پھر کے تصویریں بنوا رہے تھے اور میں قلعے کی برجی کی ایک منڈیر پہ بیٹھی یہ سب باتیں سوچ رہی تھی اور تصور میں خود کو اسی دور میں محسوس کر رہی تھی۔ اپنے آپ کو انھی لوگوں کے ساتھ چلتے پھرتے دیکھ رہی تھی جو کبھی یہاں کے مکین تھے۔ نجانے کب تک میں انھی خیالات میں کھوئی رہتی اگر ہمارے ساتھی علی کوثر مجھے بلانے نہ آ جاتے۔ انھوں نے آواز دے کر مجھے چونکا دیا کہ گروپ لیڈر صائمہ نفیس تمام ساتھیوں کو بلا رہی ہیں۔ میں بھی ان سوچوں کو ذہن سے جھٹک کے اٹھ کھڑی ہوئی اور اس طرف چل دی جہاں دیگر لوگ جمع تھے۔

(جاری)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments
%d bloggers like this: