ملکی سیاسی منظر نامہ


پاکستان کے سیاسی منظرنامہ میں حزب اختلاف کی تمام جماعتیں بشمول پی ڈی ایم کافی سرگرم، متحرک اور فعال نظر آتی ہے۔ اگرچہ تحریک عدم اعتماد کی سیاسی گونج بھی سننے کو مل رہی ہے مگر بظاہر لگتا ایسا ہے کہ اصل مقصد فوری انتخابات کا ہے۔ کیونکہ حزب اختلاف کی کچھ جماعتوں کا موقف ہے کہ ہمیں اپنی توجہ تحریک عدم اعتماد کے مقابلے میں نئے انتخابات تک مرکوز رکھنی چاہیے۔ نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز، فضل الرحمن فوری انتخابات جبکہ پیپلز پارٹی پنجا باور مرکز میں عدم اعتماد کی تحریک کو بنیاد بنا کر حکومت یا وزیر اعظم کی تبدیلی کی حامی ہیں۔ یہ ہی وہ بنیادی نقطہ ہے جس کو بنیاد بنا کر حزب اختلاف حکومت پر بڑا دباؤ پیدا کر کے اسے دفاعی پوزیشن پر لاکر اسے مجبور کیا جائے کہ وہ فوری انتخابات کا راستہ اختیار کرے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ دنوں میں حکومت کو مختلف معاملات جس میں بالخصوص معاشی صورتحال اور مہنگائی کے معاملات شامل ہیں اس پر کافی دباؤ کی سیاست کا سامنا ہے۔ حکومتی سطح پر بھی یہ اعتراف موجود ہے کہ حکومت کا بڑا مسئلہ حزب اختلاف کی جماعتیں نہیں بلکہ معاشی سطح پر موجود مشکلات اور مہنگائی کا عمل زیادہ خطرناک ہے۔ حکومت کو اس بات کا بھی اندازہ ہے کہ معاشی صورتحال اور مہنگائی کو بنیاد بنا کر ہی عملاً حزب اختلاف کی جماعتیں حکومت کو پسپائی کی طرف دھکیلنا چاہتی ہیں۔

اس لیے حکومت اور حزب اختلاف دونوں نے عملی طور پر سیاسی محاذ پر ایک دوسرے کے خلاف سیاسی لنگوٹ کس لیے ہیں۔ اس لیے جو لوگ اس نقطہ کو سامنے لا رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں دونوں سیاسی فریقین یعنی حکومت اور حزب اختلاف میں بداعتمادی کم ہو سکتی ہے، ممکن نہیں۔ آنے والے دنوں میں ہمیں سیاسی سطح پر ایک بڑی محاذ آرائی کے امکانات واضح طور پر نظر آرہے ہیں جو خود حکومت کے لیے اچھا شگون نہیں۔

حزب اختلاف کی جماعتوں میں اگرچہ مشترکہ جدوجہد پر دوریاں یا تضاد نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ حکومت مخالف اتحاد میں ہمیں تقسیم نظر آتی ہے۔ اگرچہ کچھ لوگ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون اور جے یو آئی میں جو دوریاں ہیں ان کو ختم کرنے اور دوبارہ پیپلز پارٹی کی پی ڈی ایم میں شمولیت کی کوشش کر رہے ہیں، مگر فی الحال ایسا ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ دونوں فریقین میں حکمت عملی پر اختلافات ہیں جو ان کو یکجا کرنے میں رکاوٹ ہیں۔

البتہ اہم بات حزب اختلاف کی جماعتوں کا پارلیمنٹ میں مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے کا سامنے آیا ہے اور اس میں شہباز شریف اور بلاول بھٹو نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ یہ دونوں راہنما بنیادی طور پر مزاحمت کی تحریک کے مخالف ہیں اور ان کا عملی خیال یہ ہے کہ ہمیں سڑکوں کی بجائے پارلیمنٹ میں دباؤ کی سیاست بڑھانا ہوگی۔ جبکہ اس کے برعکس مریم نواز، نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن لانگ مارچ یا بڑی احتجاجی تحریک کے حامی ہیں۔

حزب اختلاف کی جماعتوں کا حکومت پر دباؤ بڑھانے اور ان کو دفاعی پوزیشن میں لا کر پسپائی پر مجبور کرنے میں چار اہم حکمت عملیاں واضح طور پر نمایاں نظر آتی ہیں۔ اول حزب اختلاف کو لگتا ہے کہ حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان ایک پیچ کی کہانی عملی ختم ہو گئی ہے اور اس میں ایک بڑا سیاسی ڈیڈ لاک اور بداعتمادی کا ماحول غالب ہے۔ ایسے میں حزب اختلاف خود کو اسٹیبلیشمنٹ کے سامنے متبادل قیادت کے طور پر پیش کر کے عمران خان حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ میں خلیج کو مزید گہرا کرنا چاہتی ہیں۔

کیونکہ حزب اختلاف جانتی ہے کہ اگر کوئی واقعی حکومت مخالف تبدیلی آنی ہے تو اس میں اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت کے بغیر کچھ ممکن نہیں ہو گا۔ دوئم حزب اختلاف کی کوشش ہے کہ حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں جن میں ایم کیو ایم، جی ڈی اے سندھ اور مسلم لیگ ق کے ساتھ اپنی سیاسی قربتوں کو بڑھا کر ان کو حکومت سے علیحدہ کرنا اور حکومتی حمایت سے دست بردار کرنا شامل ہے۔ سوئم تحریک عدم اعتماد کی سیاسی چال یا سیاسی ہتھیار کو بطور سیاسی کارڈ استعمال کر کے حکومت کو 2022 میں عام انتخابات پر مجبور کرنا، چہارم محاذ آرائی اور عدم استحکام کی سیاست کو بڑھانا تاکہ حکومت اگلے ڈیڑھ برس انتخابات سے قبل حکومت محاذ آرائی ہی کی سیاست میں الجھی رہے اور کچھ ایسا کام نہ کرسکے جو اسے آنے والے انتخابات کی سیاست میں عوامی محاذ پر کوئی بڑا فائدہ نہ دے سکے۔

پنجم حزب اختلاف اپنی سیاست اور میڈیا پر جاری جنگ کی بنیاد پر عوامی رائے عامہ کے طور پر یہ تصور اور زیادہ گہرائی کی صورت میں قائم کرنا چاہتی ہے کہ یہ حکومت تاریخ کی ناکام حکومت ہے تاکہ انتخابی معرکہ میں حکومت کو ہر سیاسی اور انتخابی محاذ پر ایک بڑی سیاسی شکست کا سامنا کرنا پڑے۔ اسی کو بنیاد بنا کر میڈیا کی مدد سے اس تصور کو بھی حزب اختلاف کی بعض جماعتیں اس بیانیہ کو قائم کرنا کرنا چاہتی ہیں کہ اسٹیبلیشمنٹ بھی حکومت سے جان چھڑانا چاہتی ہے اور نئے انتخابات میں ہم ہی متبادل قیادت کے طور پر سیاسی میدان میں موجود ہیں اور ہمیں ہی اقتدار ملے گا۔

حزب اختلاف کی جماعتیں بنیادی طور پر اپنی تمام تر توجہ نئے انتخابات پر دینا چاہتی ہیں۔ ان کے خیال میں ہمیں اسٹیبلیشمنٹ پر دباؤ ڈال کر نئے انتخابات کی صورت میں اپنے لیے اقتدار کے کھیل میں نئی سیاسی صف بندی کو یقینی بنانا ہے۔ مسلم لیگ نون کی توجہ کا مرکز پنجاب، جے یو آئی خیبر پختونخوا میں مخصوص اضلاع میں انتخابی میدان میں اپنا سیاسی حصہ جبکہ پیپلز پارٹی سندھ کے بعد بلوچستان اور مرکز میں بننے والی کسی بھی حکومت میں بطور اتحادی کے طور پر پیش ہونا چاہتی ہیں۔

یہ ہی وجہ ہے کہ اہم نعرہ 2023 کے انتخابات میں شفافیت کا نعرہ ہے اور اس سے مراد ان کے لیے سیاسی بندر بانٹ میں حصہ داری ہے۔ اسی کو بنیاد بنا کر تحریک انصاف کی 2023 کے انتخابات کو اپنے حق میں کرنے کی حکمت عملی کو ناکام بنانا ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتیں ماضی کے سیاسی تجربات کی بنیاد پر یہ بات اچھی طرح سمجھتی ہیں کہ اگر ان کو کامیابی ملنی ہے تو یہ کسی سیاسی تنہائی میں ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے ان کو طاقت کے مراکز سے سیاسی خوشنودی کا حصول اور حکومت کو ایک بڑے سیاسی بوجھ کے طور پر پیش کرنا ہے۔

حزب اختلاف کو اس بات کا پوری طرح احساس ہے کہ نئے انتخابات کا راستہ ہی ان کے لیے بڑی کامیابی بن سکتا ہے کیونکہ اس کے علاوہ جو بھی تبدیلی کا عمل ہے اس میں حزب اختلاف کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے اس وقت حزب اختلاف کی تمام تر سیاست کا دائرہ کار اور توجہ کا مرکز نئے انتخابات پر ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر نئی سیاسی صف بندی بھی کی جا رہی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ حزب اختلاف کی مختلف سیاسی حکمت عملیوں پر حکومت کے پاس کیا سیاسی آپشن ہیں۔

جو چیلنجز اس وقت حکمرانی کے بحران، معاشی بدحالی، مہنگائی جیسے اہم امور پر واقعی اگلے کچھ عرصہ میں حکومتی سطح سے عوامی ریلیف دیا جا سکے گا۔ حکومت کو دو ہی بڑے چیلنجز ہیں اول معاشی صورتحال اور مہنگائی پر قابو پاکر عام آدمی کو ریلیف دینا، جو ترقیاتی منصوبے ان کے خیال میں ان کو نئے انتخابات میں سیاسی فائدہ دے سکیں گے وہ کیا اگلے ایک برس میں ممکن ہو سکیں گے اور لوگوں میں اپنا اعتماد بحال ہو سکے گا۔ دوئم اسٹیبلیشمنٹ اور حکومت کے درمیان جو بھی مسائل ہیں ان کو کیا وہ بہتر طور پر نمٹ سکیں گے اور اس تاثر کی نفی ممکن ہو سکے گی کہ ایک پیچ پر ہونے کا تاثر عملاً ختم ہو گیا ہے۔

حکومت کو عملی طور پر حزب اختلاف کی نئی سیاسی صف بندی، ممکنہ احتجاجی تحریک، لانگ مارچ، تحریک عدم اعتماد اور فوری انتخابات کے مطالبات یا حکمت عملیوں پر ایک مضبوط و مربوط سیاسی حکمت عملی اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ کام محض سیاسی نعروں اور نمائشی باتوں سے ممکن نہیں ہو گا اور نہ ہی محاذ آرائی کو پیدا کرنا ان کو کوئی بڑی کامیابی دے سکے گا۔ اس کے لیے حکومت اپنی گورننس اور اپنی سیاسی و معاشی ٹیم میں موجود صف بندی میں جو مسائل ہیں ان کو حل کرنا اور کچھ نئی تبدیلیوں کے ساتھ نئی حکمت عملیوں کی ضرورت ہے۔ لیکن کیا حکومت اپنے حق میں ایسا کچھ کرسکے گی اس پر حکومتی سطح پر زیادہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments