لاہور کو سموگ سے بچانے کے لئے مصنوعی بارش کی تیاری


صوبائی دارالحکومت لاہور دنیا بھر میں باغوں کا خوبصورت شہر کہلاتا ہے۔ بین الاقوامی ائر کوالٹی انڈیکس کے اعداد و شمار کے مطابق سموگ کی وجہ سے جب لاہور پہلے نمبر پر آیا تو دنیا کی نظریں اس خوبصورت شہر پر لگ گئیں کہ اب کس طرح اس شہر کو سموگ سے محفوظ رکھا جا سکے گا۔ پنجاب میں سموگ اس قدر خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے کہ صوبائی حکومت کو مجبورا سموگ کو آفت زدہ قرار دینا پڑا۔ سموگ سے مقابلہ کرنے کے لئے اس وقت حکومت مختلف آپشنز پر کام کر رہی ہے۔

سموگ پر قابو پانے کے لئے ایک خصوصی اینٹی سموگ سکواڈ تشکیل دیا گیا ہے جس میں پولیس، انوائرمنٹ انسپکٹر، واسا، ایم سی ایل اور انڈسٹریز کے افسران و اہلکار شامل ہیں۔ یہ خصوصی سکواڈ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں، زگ زیگ ٹیکنالوجی استعمال نہ کرنے والے بھٹوں، سڑکوں پر کوڑا کرکٹ کے ڈھیر کو آگ لگانے، فصلوں کی باقیات کو آگ لگانے اور ماحولیاتی قوانین کی پاسداری نہ کرنے والی فیکٹریوں کے خلاف کارروائی کرنے کے علاوہ ان تمام عوامل کا سدباب کرے گی جس سے ماحولیاتی آلودگی پیدا ہو رہی ہے۔

ایک طرف زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر سموگ پر قابو پانے کی کوشش کی جا رہی تو دوسری جانب قدرتی وسائل سے مدد لینے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے۔ سموگ سے نجات کے لیے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مصنوعی بارش برسانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ملک میں پہلی مرتبہ مصنوعی بارش برسانے کا تجربہ پنجاب یونیورسٹی کے ماہرین کرنے جا رہے ہیں۔ ماہرین کی ٹیم کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر منور صابر کے مطابق یہ تجربہ ہزارہ ریجن کے پہاڑی علاقے خانس پور میں کیا جائے گا، ایک مربع کلومیٹر تک مصنوعی بارش برسانے کے اس کامیاب تجربے کے بعد انیس نومبر کو لاہور شہر میں مصنوعی بارش برسانے کا امکان ہے۔ اس طرح مصنوعی بارش سے جہاں سموگ کے خاتمہ کو یقینی بنایا جا سکے گا وہیں شہری قدرت کے اس بے موسم نظاروں سے بھی لطف اندوز ہو سکیں گے۔

دنیا بھر میں اس وقت پچاس سے زائد ممالک سموگ سے بچاؤ کے لئے مصنوعی بارشوں کا سہارا لے رہے ہیں، نہ صرف سموگ بلکہ گرمی کی شدت کو کم کرنے، خشک سالی کے خاتمہ، زراعت کی ترقی، وبائی امراض اور آلودگی پر قابو پانے کے لئے بھی مصنوعی بارشیں کیں جا رہی ہیں۔ اس وقت چین دنیا میں سب سے زیادہ مصنوعی بارش برسانے والا ملک ہے۔ چین نے مصنوعی بارش کا پروگرام سن 1958 ء میں روس کے تعاون سے شروع کیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق مصنوعی بارشیں برسانے کے پروگرام میں چین کے 35 ہزار سے زائد افراد منسلک ہیں جو دن رات مصنوعی بارشوں اور مصنوعی برفباری کے تجربات میں مصروف ہیں۔

مصنوعی بارش کے لیے ہوائی جہاز کے ذریعے بادلوں کے اوپر سوڈیم کلورائیڈ، سلور آئیوڈائیڈ اور دیگر کیمیکلز بکھیر دیے جاتے ہیں جو بادلوں میں برفیلے کرسٹلز بنانا شروع کر دیتے ہیں اس طرح بادل بھاری ہونے لگتے ہیں اور پھر بارش بن کر برسنا شروع کر دیتے ہیں۔ مصنوعی بارش کے اس عمل کو ”کلاؤڈ سیڈنگ“ کہتے ہیں۔ جس طرح کھیتوں میں بیج ڈال کر فصل حاصل کی جاتی ہے اسی طرح اب بادلوں میں بھی بیج ڈال کر بارش حاصل کی جاتی ہے اسی لئے اسے ”کلاؤڈ سیڈنگ“ یعنی بادل کو بھیجنا کہتے ہیں۔

اسی طرح دوبئی میں بھی زیادہ درجہ حرارت سے نمٹنے کے لیے مصنوعی بارشوں کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ دبئی میں ڈرونز کے ذریعے بادلوں میں بجلی خارج کی جاتی ہے، بجلی کے جھٹکوں (برقی شاکس) سے بادل اکٹھے ہو جاتے ہیں اور پھر بارش برسانے پر کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ دوبئی میڈیا رپورٹس کے مطابق کلاؤڈ سیڈنگ کے اقدامات متحدہ عرب امارات کے ڈیڑھ کروڑ ڈالرز کے پراجیکٹ کا حصہ ہیں جس کا مقصد ملک میں بارشوں کی مقدار کو بڑھانا ہے۔

اس ٹیکنالوجی کو برطانیہ کی ریڈنگ یونیورسٹی کے ماہرین نے تیار کیا۔ مصنوعی بارشوں کے لئے سائنس دان مختلف طریقے اپنا رہے ہیں جیسے برقی شاکس، نمک اور دیگر کیمیکلز کو فضاء میں چھوڑنا وغیرہ۔ کچھ عرصہ قبل تک لوگ سموگ کے نام سے ناواقف تھے اور فضاء میں موجود کالے دھوئیں کو دھند سمجھتے رہے لیکن اب ہر کوئی سموگ کو اچھی طرح جان اور پہچان چکا ہے اسے طرح اب لوگ مصنوعی بارش کے حوالے سے حیرت زدہ ہیں کی کس طرح بے موسم بارش برسائی جا سکتی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments