اب کرکٹ کی چھتری بھی گئی


بس جس طرح ستر اور اسی کی دہائی میں پاکستان کے گاؤں دیہات میں ”دبئی چلو“ کا جنون سوار تھا، ویسے ہی کچھ سماں گزشتہ ہفتوں دیکھنے میں آیا۔ ماضی میں معاشی آسودگی کی طلب تھی اور ان دنوں قوم کرکٹ کی محبت میں گرفتار رہی۔

پہاڑی علاقے ہوں یا چولستان، تھر کا صحرا ہو، پشاور، لاہور یا پھر کراچی، بچے ہوں یا بزرگ، نوجوان لڑکے ہوں یا لڑکیاں سبھی کی نگاہیں دبئی کے کرکٹ میدانوں پر جمی ہوتی تھیں۔ کرکٹ شرٹیں، جھنڈے، گلی محلوں میں ٹی وی اسکرینز، کوئی مصلے پر تھا تو کوئی شرط لگانے میں مصروف۔

ایک طرف ٹی وی اسکرین پر وسیم اکرم، وقار یونس، تو دوسرے پر انضمام تو تیسرے پر راشد لطیف، رچرڈز اور ڈیوڈ گاور جیسے ایکسپرٹ اور دوسری طرف شائقین سب کے سب ماہر۔

پچ کا برتاؤ کیسا ہو گا؟ ٹاس جیتنا کتنا اہم ہے، شام کو اوس پڑنے سے بالرز کو کتنا نقصان ہو گا؟ وغیرہ وغیرہ۔ روایتی حریف انڈیا کو شکست ہوئی تو شائقین صدقے واری، مضبوط ٹیم نیوزی لینڈ کو چت کیا تو واہ واہ کہ بس دورے کی منسوخی کا بدلہ چکا دیا ہے۔ پھر تو قطار لگ گئی اور سارے گروپ میچز میں کامیابیوں کے بعد تو بس جیسے ورلڈ کپ پاکستان کے آنگن میں ہے۔

ادھر شائقین کرکٹ کے نشے میں سرشار تو دوسری طرف لاہور شہر اور اس کے گرد و نواح میں انتہا پسند جتھوں کی اپنی اپنی تیاریاں، پگڑیاں، لاٹھیاں، بینرز، پوسٹرز۔ اسلام آباد کے گھیراؤ کی تیاریاں، جلاؤ گھیراؤ، حکومت اور ریاست کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی تیاریاں۔

ایک مرتبہ پھر تحریک لبیک کا احتجاج اور ایک مرتبہ پھر حکومت کی سانسیں بے قابو، کاٹو تو لہو نہیں، ریاست کی روح لہولہان، بس یوں محسوس ہوا، جیسے خزاں میں پت جھڑ کے بعد بے جان درخت ہو، جسے قدرت نے زندگی کے رنگوں سے محروم کر دیا ہو۔

احتجاج کا اختتام ایک مرتبہ پھر معاہدے پر ہوا لیکن اس مرتبہ یک طرفہ ہی رہا۔ یوں کہہ لیجیے کہ ارباب اقتدار نے اپنے انگوٹھے کا نشان انتہاپسندی کی سیاہی میں ڈبویا اور ”سر نڈر“ معاہدے پر ثبت کر دیا۔

ریاست کی نگاہوں میں تحریک لبیک اب کالعدم تنظیم نہیں رہی۔ سینکڑوں کارکنان جیلوں سے آزاد ہوئے، سربراہ سعد رضوی صاحب کا نام گویا ”مشکوک فہرست“ سے ”قبولیت والی فہرست“ میں اور وعدہ کہ ان کی رہائی عزت و احترام سے ہو گی۔ حکومت نے گویا اپنی ہار کا ہار تحریک لبیک کے گلے میں ڈالا، ریاست نے ماتھا چوما اور ہزاروں احتجاجی کارکنوں کو سلامتی کے حصار میں رخصت کیا۔

اسی بیچ کرکٹ شائقین ٹی وی اسکرینوں پر نظریں جمائے سیمی فائنل میں آسٹریلیا کو شکست دینے اور ورلڈکپ کی فتح کی تعبیر والے خوابوں کو اپنے ذہنوں میں سجائے بیٹھے تھے۔ ادھر کرکٹ شائقین ورلڈ کپ کی فتوحات کی خوشیوں کو سمیٹ رہے تھے تو ادھر تحریک لبیک کے ہزاروں احتجاجی کارکنان معاہدے کی کامیابی کا جشن منا رہے تھے۔

سنا ہے کہ منوں مٹھائی تقسیم کی گئی اور اپنے اپنے گھروں کو لوٹنے سے قبل ان مظاہرین نے لاہور میں غازی علم دین شہید، اپنے روحانی پیشوا اور تحریک لبیک کے بانی خادم حسین رضوی صاحب کی درگاہوں پر نذرانے چڑھائے۔

اور پھر حکومت کی جانب سے ایک اور معاہدے کی نوید سنائی گئی۔ پاکستانی طالبان، جنہوں نے کئی برس قبل قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کے بعد افغانستان کے سرحدی علاقوں میں پناہ لی تھی اور پاکستان کے خلاف دہشت گرد حملوں میں ملوث تھے۔ ماضی قریب تک ان پر الزامات کی بوچھاڑ تھی۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ”را اور افغان انٹیلی جنس کے ساتھ گٹھ جوڑ“ کے سنگین الزامات لگائے جا رہے تھے۔

پاکستانی طالبان یعنی ٹی ٹی پی کی دہشت گردی اور خونریزی کی فہرست تو اتنی طویل اور سنگین ہے کہ الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ اس نے خود ان کارروائیوں کی ذمہ داریاں قبول کی ہیں۔ سیکورٹی اہلکار ہوں یا نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی یا پھر پشاور کے اے پی ایس اسکول کے معصوم بچے، پاکستانی طالبان کے جنگجوؤں کے دامن خون میں تر ہیں، دہشت گردی سے داغدار اور ہماری دھرتی زخموں سے لہولہان رہی ہے۔

اعلان کیا گیا کہ اب پاکستانی طالبان سے ایک ماہ کی فائر بندی کا معاہدہ ہو گیا ہے۔ مذاکرات ہو رہے ہیں، ثالثی کا کردار ان پاکستانی طالبان کے ”بھائی“ افغان طالبان ادا کر رہے ہیں۔ ذرائع کا ماننا ہے کہ ثالثی میں مرکزی کردار افغان طالبان کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کا ہے۔ اس سے قبل وزیر اعظم عمران خان بیان دے چکے ہیں کہ پاکستانی طالبان کو ہتھیار ڈالنے پر عام معافی بھی دی جا سکتی ہے۔

مذاکرات کس کی مرضی منشا سے ہو رہے ہیں؟ ماضی کے دہشت گرد دراصل قوم کو مطلوب ہیں۔ خیر قوم کو اعتماد میں لینا تو کجا پارلیمنٹ میں بحث تک نہیں ہوئی۔ اس اعلان کے بعد سپریم کورٹ میں جب پشاور اسکول واقعے کی سنوائی ہو رہی تھی تو عمران خان صاحب کو طلب کیا گیا۔ انصاف کے متلاشی بچوں کے والدین احاطے میں موجود تھے۔ سنوائی کے دوران ایک جج نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہو کہا کہ ”کیا آپ ایک اور سرنڈر معاہدے پر دستخط کرنے جا رہے ہیں؟ آپ مجرمان کو مذاکراتی میز پر لا رہے ہیں؟“

کون بھول سکتا ہے سولہ دسمبر کا دن اور سال دو ہزار چودہ؟ میں نے اپنے صحافتی کیریئر میں جنگوں، تنازعات کی کوریج کی ہے اور موت کو قریب سے بھی دیکھا ہے لیکن وہ لمحات ناقابل فراموش ہیں۔ جب میں سانحے کے بعد اے پی ایس اسکول میں داخل ہوا تو بکھرے ہوئے بستے، ٹوٹی ہوئی عینکیں، جوتے، یونیفارم سب کچھ خون میں تر تھا۔ یہ تلخ حقیقتیں اور تلخ یادیں ہیں۔

تلخ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ دہشت گرد تنظیمیں، جہادی گروہ، انتہا پسند جتھے ریاست کے کاندھوں پر ماضی کی غلطیوں کا بوجھ ہیں۔ کبھی احساس ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ان سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہے اور پھر ان معاہدوں اور نرمیوں کے تسلسل سے ان تاثرات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔

بلوچ، پشتون اور سندھی قوم پرستوں کے مطالبات کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ کیا ریاست کو ان ناراض قوم پرستوں سے ہاتھ ملانا چاہیے؟ انہیں گلے سے لگانا چاہیے یا ماضی کے ”دہشت گردوں“ کو؟ یہ سرنڈر ریاست کا ہے یا انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کا؟

کیا انتہا پسندوں اور ”دہشت گردوں“ کے خلاف عام معافی کے اعلان کا منصوبہ پارلیمنٹ میں بحث کے لیے نہیں لانا چاہیے؟ کیا سکیورٹی اہلکاروں اور معصوم شہریوں کے مجرمان کو پاکستانی عدالتوں میں مقدمات کا سامنا نہیں کرنا چاہیے؟

احسان اللہ احسان نے کن شرائط پر سرنڈر کیا تھا اور کس طرح تحویل سے فرار ہو گیا؟ آج تک معمہ ہی ہے۔ آخر معاملات کو پوشیدہ کیوں رکھا جاتا ہے؟ اگر سوالات اٹھاؤ تو ”قومی مفاد“ کی قسمیں دی جاتی ہیں۔

اعتدال پسند اور پروگریسو عناصر، جو معاشرے کو انتہاپسندی کے چنگل سے آزاد دیکھنا چاہتے ہیں، وہ اسٹیبلشمنٹ اور حکمراں اشرافیہ پر تنقیدی تیر اندازی کرتے رہتے ہیں۔ جواباً ً انہیں مغرب زدہ لبرل اور فاشسٹ کے القابات سے پکارا جاتا ہے، شک کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے کہ گویا یہ عناصر مغربی دنیا کی پاکستان مخالف سازشوں میں شرکت دار ہیں۔

اس طرح درمیان میں ایک لکیر ہے، جو گہری ہوتی جا رہی ہی۔ یوں اسٹیبلشمنٹ کیا، معاشرہ کیا پوری ریاست ہی انتہاپسندی کی بھول بھلیوں میں راستہ تلاش کرتے بھٹکتی نظر آتی ہے۔ معاشرہ انتہاپسندی کے بھنور میں ہے اور لوگ اعصابی تناؤ کا شکار ہیں۔

کرکٹ ہمارے پسماندہ ملک اور مسائل کے گرداب میں پھنسے لوگوں کے لیے ایک نفسیاتی آماجگاہ بھی تصور کی جاتی ہے۔ امیر ہو یا غریب سب کرکٹ کی جگمگاتی دنیا میں خوشیاں تلاش کرتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہم آسٹریلیا سے آخری لمحات میں جیتا میچ ہار گئے۔ بقول شائقین ہم نے ورلڈ کپ گنوا دیا۔

دبئی میں کرکٹ کے میلے کا اختتام ہوا۔ ہمارے کروڑوں شائقین، جنہوں نے کرکٹ کی دنیا میں مسائل کو بھلا کر خوشیوں کی تلاش کے لیے پناہ لی ہوئی تھی۔ اب ان کی کرکٹ کی چھتری بھی گئی۔
بشکریہ ڈوئچے ویلے اردو

اویس توحید

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس توحید

اویس توحید ملک کے معروف صحافی اور تجزیہ کار ہیں ای میل ایڈریس owaistohid@gmail.com Twitter: @OwaisTohid

owais-tohid has 34 posts and counting.See all posts by owais-tohid

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments