پاکستان: عدالتی اصلاحات کی ایک بار پھر بازگشت، مگر اس میں رکاوٹیں کیا ہیں؟


کراچی — پاکستان کے شہر کراچی کے علاقے حسن اسکوائر کے قریب کے رہائشی امین علی گزشتہ آٹھ ماہ سے منشیات اور غیرقانونی اسلحہ رکھنے کے الزام میں سینٹرل جیل کراچی میں قید ہیں اور ان کے خلاف مقدمہ شہر کے ضلع شرقی کی ایک مجسٹریٹ عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔

آٹھ ماہ گزر جانے کے باوجود بھی پولیس کی تفتیش مکمل نہیں ہو سکی ہے اور نہ ہی کیس کی کارروائی کا باقاعدہ آغاز ہوا ہے۔​

دیہاڑی دار ہونے کی وجہ سے امین کے اہلِ خانہ کی اتنی استطاعت نہیں کہ وہ وکیل کرسکیں جو ان کا مقدمہ عدالت میں لڑ سکے۔​

پولیس کی تفتیش مکمل نہ ہونے اور چالان کی غیرموجودگی میں اکثر پیشیوں پر انہیں صرف اگلی تاریخ ملتی ہے اور انہیں ابھی تک اپنے اوپر عائد الزامات کا عدالت میں دفاع کا موقع بھی نہیں مل سکا ہے۔​ اس صورتِ حال میں ان کے اہل خانہ بھی پریشانی کا شکار ہیں۔

یہ کہانی صرف امین علی کی نہیں بلکہ ملک کے طول و عرض میں قائم عدالتوں میں ایسے کئی کیسز مل سکتے ہیں جن کا طے ہونا مہینوں نہیں بلکہ برسوں سے التوا کا شکار ہے۔​

اس میں فوجداری اور دیوانی مقدمات حتیٰ کے دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں میں زیرِسماعت مقدمات تک سب شامل ہیں۔​

پھر چاہے وہ کراچی میں سال 2006 کے دوران نشتر پارک میں ہونے والے بم دھماکے میں پچاس افراد کی ہلاکت کا مقدمہ ہو یا سال 2007 میں سابق وزیرِاعظم بینظیر بھٹو کی وطن واپسی پر ریلی میں ہوئے دھماکے کا کیس، ان جیسے کئی مقدمات عدالت کے سامنے حل طلب ہیں۔

عدالتوں میں 21 لاکھ مقدمات زیرِ التوا، ججز کی ایک تہائی آسامیاں خالی

پاکستان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کے حالیہ اجلاس کے دوران ملک کی عدالتوں سے متعلق اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ ملک میں اس وقت 21 لاکھ سے زائد مقدمات زیرِ التوا ہیں۔ جب کہ صرف سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیرِ سماعت مقدمات کی تعداد پچاس ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔​

سینیٹ میں حکومت کی جانب سے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر کی عدالتوں میں تین ہزار 67 ججز کی آسامیاں ہیں جن میں سے ایک ہزار 48 ججز کی آسامیاں خالی ہیں۔​

سینیٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے سینیٹر​ مشتاق احمد خان نے کہا کہ دستور کا آرٹیکل 37 ڈی کہتا ہے کہ ریاست فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کے لیے بندو بست کرے گی۔ لیکن عدالتوں میں کیسز کا بیک لاگ انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ کا باعث بن رہا ہے۔

ان کے بقول بعض اوقات تو کیسز کا فیصلہ ہونے میں تیس، تیس سال لگ جاتے ہیں۔ مظلوم اور کمزور طبقات بالخصوص خواتین کے ساتھ شدید نا انصافی ہو رہی ہے۔ ان کے خیال میں کیسز میں التوا کا سب سے زیادہ فائدہ ملک کی اشرافیہ اور مافیاز کو ہوتا ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگر بات ججز کی مراعات اور سہولیات کی جائے تو پاکستان دنیا کے صفِ اول کے ممالک میں شامل ہے۔​ جب کہ انصاف کی فراہمی میں پاکستان آخری نمبر کے ممالک میں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک جج کی صرف پینشن چھ سے سات لاکھ روپے کے قریب ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی ملک میں انصاف ہوتا ناپید دکھائی دیتا ہے۔ انصاف نہیں ہو گا تو بدامنی اور اضطراب بڑھے گا۔

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ملک میں اعلیٰ عدالتوں کا دروازہ سونے کی چابی سے کھلتا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ توہینِ عدالت کی آڑ میں کہیں ہماری اعلیٰ عدلیہ خود تو مقدس گائے نہیں بن گئی؟

سینیٹر مشتاق خان نے مطالبہ کیا کہ ججز کی تعداد بڑھائی جائے۔ خالی آسامیاں پر کی جائیں اور صبح کے علاوہ شام کے اوقات میں بھی ججز کی شفٹ شروع کی جائے۔​ اس کے علاوہ کیسز کی شنوائی میں ٹیکنالوجی کا استعمال زیادہ سے زیادہ کیا جائے جب کہ ججز کی ٹریننگ کو یقینی بنایا جائے۔

اس دوران ایوان میں موجود دیگر سینیٹرز نے بھی اپنی آرا پیش کرتے ہوئے ملک میں عدالتی اصلاحات اور متعلقہ قوانین میں تبدیلیوں کا مطالبہ کیا۔

‘عدالتی اصلاحات نہ کرنے کے سب ہی ذمہ دار ہیں’

پاکستان میں عدالتی نظام میں اصلاحات کی باتیں کافی عرصے سے جاری ہیں البتہ اس کے واضح نتائج کم ہی نظر آئے ہیں۔​

سپریم کورٹ کے وکیل اور سندھ بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین حیدر امام رضوی ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ ملک میں عدالتی نظام میں اصلاحات متعارف نہ کرانے کے سب ہی ذمے دار ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے ملک میں اس بارے میں قانون سازی نہیں ہوسکی۔ سول پروسیجر کوڈ 1908، کریمنل پروسیجر کوڈ 1898 کا ہے۔ یعنی ہم اب بھی کم و بیش 120 برسوں پرانے قوانین کے سہارے چل رہے ہیں۔ دوسری جانب بھارت اور بنگلہ دیش میں ان قوانین میں اس قدر اصلاحات لائی گئی ہیں کہ ان کی ہیت بھی تبدیل ہو چکی ہے۔

‘جھوٹے مقدمات کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے’

حیدر امام رضوی کے خیال میں ملک میں اس وقت بھی 70 فی صد سے زائد مقدمات ایسے ہیں جو من گھڑت الزامات کے تحت قائم کیے جاتے ہیں۔​ اس طرح کے مقدمات کی جب تک حوصلہ شکنی نہیں کی جائے گی تب تک عدالتیں زیادہ بوجھ تلے دبی رہیں گی۔

ان کے بقول ایک جانب یہ حال ہے تو دوسری جانب کریمنل مقدمات میں پولیس کی تفتیش کے نظام میں اب تک کوئی بہتری نہیں لائی جاسکی ہے۔ اسی وجہ سے حقیقیی طور پر حقوق سے محروم افراد کمزور تفتیش کی بنیاد پر عدالتوں میں اپنا حق حاصل نہیں کر پاتے۔

حیدر امام کہتے ہیں کہ مسائل صرف یہی نہیں بلکہ عدلیہ کے ججز کی تربیت میں بھی کمی ہوتی ہے۔ ججز آزادانہ طور پر کام نہیں کرتے بلکہ وہ ایک تنخواہ دار ملازم کے طور پر کام کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ پراسیکیوشن یعنی استغاثہ کے لیے بھی تربیت کا کوئی بہتر انتظام موجود نہیں ہے۔ ایسی صورتِ حال میں بھلا کیسے بہتری کی امید رکھی جاسکتی ہے۔

قانونی ماہرین کے خیال میں اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تقرریوں کے شفاف طریقۂ کار کو اب تک وضع نہیں کیا جاسکا ہے۔

ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ججز کے تقرر کے لیے اہلیت اور معیار کے بجائے ذاتی پسند اور ناپسند پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ اس لیے عوام کو انصاف کی فراہمی یقینی بنانے اور اس اہم ادارے پر عوامی بھروسہ قائم رکھنے کے لیے پورے نظامِ انصاف میں فوری تبدیلیاں نا گزیر ہو چکی ہیں جس کے لیے پارلیمان کو بھی اپنا کردار کرنا ہو گا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی بہتر بنانا ہو گی اور پھر ججز کی تربیت بھی بہت اہم ہے۔

پاکستان قانون کی بالادستی والے ممالک کی فہرست میں نچلے نمبروں پر

حال ہی میں سامنے آنے والی ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کی قانون کی بالادستی کی فہرست میں پاکستان 139 ممالک کی فہرست میں 130 ویں نمبر پر رہا ہے۔

پاکستان گزشتہ کئی برس سے اس فہرست میں مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔

رپورٹ تیار کرنے والے ادارے کے مطابق ممالک کی درجہ بندی کرنے کے لیے آٹھ عوامل کو شامل کیا گیا ہے جن میں حکومتی طاقت میں رکاوٹیں، بدعنوانی کا خاتمہ، حکومت میں شفافیت، بنیادی انسانی حقوق، امن و عامہ، قوانین کا اطلاق، سول اور کریمنل نظام انصاف کو شامل کیا گیا ہے۔

اس رپورٹ کے مندرجات کے مطابق پاکستان میں سب سے کم اسکور امن و عامہ، بنیادی حقوق، قوانین کے اطلاق اور نظامِ انصاف سے متعلق شعبوں میں رہا ہے۔ اس درجہ بندی کے مطابق پاکستان جنوبی ایشیا کے خطے میں سوائے افغانستان کے تمام ممالک سے نیچے رہا ہے۔

‘فوجداری قوانین میں اصلاحات کے لیے مسودے پر کام جاری ہے’

دوسری جانب وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف بیرسٹر ڈاکٹر فروغ نسیم کہتے ہیں کہ فوجداری قوانین میں اصلاحات کے لیے مسودے پر کام جاری ہے۔ اس کے لیے تمام مجوزہ ترامیم پر مشتمل جامع دستاویزات کابیبہ کو ارسال کردی گئی ہیں۔

وفاقی وزیر کی جانب سے وائس آف امریکہ کو بھیجی جانے والے تفصیلات کے مطابق​ قوانین میں 225 مرکزی اور 644 ذیلی ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔ جن کا مقصد فوجداری انصاف کے نظام میں مکمل طور پر اصلاحات لانا ہے۔

ان قوانین میں کوڈ آف کرمنل پروسیجر کے علاوہ پاکستان پینل کوڈ، قانونِ شہادت، کنٹرول آف نارکوٹکس، ریلوے ایکٹ، پاکستان پرزنز رولز اور دیگر قوانین بھی شامل ہیں۔

وفاقی وزیر کے مطابق ان قوانین میں ترامیم کے حوالے سے تمام متعلقہ محکموں، وکلا، این جی اوز، انسانی حقوق کے وکلا، چاروں صوبوں اور اٹارنی جنرل کے دفتر کے نمائندے سے بھی مشاورت کی گئی ہے۔

فروغ نسیم کا کہنا ہے کہ اگر یہ ترامیم منظور ہو جاتی ہیں تو یہ فوجداری انصاف کے نظام میں ایک بہت بڑا انقلاب ہو گا۔ ان ترامیم کے ذریعے ایف آئی آر درج کرانے کا ایک مؤثر اور تیز ترین طریقہ کار متعارف کرایا جا رہا ہے۔

ان کے بقول ان ترامیم کے ذریعے مقدمات کے زیرِ التوا ہونے کی تعداد میں ایک بڑی حد تک کمی آ سکے گی۔ اس کے علاوہ مقدمات کی پیروی کرنے کے وقت میں بڑی حد تک کمی لائی جا سکے گی۔ جب کہ پولیس کی عوام کے ساتھ مبینہ زیادتی کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا اور شواہد اکٹھے کرنے میں مزید بہتری اور تیزی لائی جا سکے گی۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments