! وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا


آلودگی کے تدارک کے لیے گلاسگو میں جاری اجلاس کو دیکھ کر یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے مارچ سنہ 1739 میں نادر شاہ کا لشکر دلی کی طرف سیل رواں کی طرح آ رہا تھا اور دلی کے حکمران ”ہنوز دلی دور است“ کہہ رہے تھے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ محض وقتی اقدامات کے ذریعے اس آنے والے طوفان کے آگے بند باندھ سکتا ہے تو یہ اس کی خوش فہمی ہے۔

اس اجلاس میں ہندوستان اور چین وغیرہ نے کوئلے کے استعمال کے خاتمے کے لیے سنہ دو ہزار پچاس کی بجائے سنہ دو ہزار ستر کی تاریخ کروا دی۔ دیگر ملکوں نے بھی اپنے کاروباری مفادات کی وجہ سے اس کی حمایت کی لیکن کوئی یہ نہیں سوچ رہا کہ یہ ہماری موجود اور آنے والی نسل کی زندگی کا معاملہ ہے۔ یعنی اس صدی کے شروع میں پیدا ہونے والے اس وقت ستر سال اور سنہ دو ہزار بیس میں پیدا ہونے والے پچاس سال کے ہوں گے۔ یعنی یہ کوئی اتنی دور کی بات نہیں ہے۔ ہمارے فیصلے آنے والی نسل پر اثر انداز ہوں گے۔

ہماری زمین کی مثال ایک جزیرے کی ہے اور اس جزیرے کی طرف طرح طرح کی بیماریاں اور آفات آ رہی ہیں بلکہ بہت ساری تو آ چکی ہیں جن کا ہم مشاہدہ بھی کر رہے ہیں۔ یہ کیوں اور کہاں سے آ رہی ہیں اس کا تو کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن یہ پتا ہے کہ یہ اس دنیا کو تباہ کرنے کی نیت سے آ رہی ہیں۔ دوسری طرف زمین کے باشندوں کی وہ مثال ہے کہ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر جھکائے بیٹھے ہیں یا پھر بغداد کی تباہی سے قبل مینڈک کے بارے میں بحث و مباحثے کی طرح فروعی معاملات میں الجھے ہوئے ہیں۔

کم از کم پچھلے چند دہائیوں سے ماحولیاتی سائنس دان لوگوں کو مسلسل خبردار کر رہے تھے۔ لیکن کوئی توجہ نہیں دے رہا تھا۔ اب تو لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے گھروں میں رہ کے اس دھویں سے بچ جائیں گے لیکن جیسا کہ دہلی اور بیجنگ وغیرہ کی آلودگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ آلودگی سے کہیں چھٹکارا نہیں۔ ابھی کل ہی بھارتی سپریم کورٹ نے حکومت کو حکم دیا ہے کہ جس طرح کرونا کے تدارک کے لیے لاک ڈاؤن لگایا گیا تھا اسی طرح آلودگی کم کرنے کے لیے بھی لاک ڈاؤن لگایا جائے۔

دلی میں آلودگی کی وجہ سے سکول کالج ایک ہفتے کے لیے بند کر دیے گئے ہیں۔ یادش بخیر ہمیں سنہ دو ہزار یا دو ہزار ایک میں ماہنامہ ”گلوبل سائنس“ کراچی میں شائع ہونے والے ایک مضمون کا عنوان رہ رہ کر گاہے بگاہے یاد آتا ہے۔ عنوان تھا ”کیا جنوبی ایشیاء پر بھوری کہر کا راج ہو گا؟“ اس میں دلی اور بیجنگ وغیرہ کے ماحول کے بارے میں وہی خدشات ظاہر کیے گئے تھے جو آج ہم اپنی آنکھوں سے اس کہر یا سموگ کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔

ہم جس چھوٹے سے شہر میں رہتے ہیں، وہاں بھی آلودگی اپنے جوبن پر آ رہی ہے۔ زیادہ نہیں کچھ ہی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ موسموں میں ایک خاص طرح کی ترتیب ہوا کرتی تھی لیکن اس وقت موسموں میں توازن ہماری آنکھوں کے سامنے بگڑ رہا ہے۔ ماحول میں اتنی آلودگی ہے کہ سانس لینا محال ہو رہا ہے۔ کچھ سالوں پہلے بہار یا خزاں یا سردی کی آمد سے لطف اندوز ہوتے تھے، اب یہ موسم ناقابل برداشت سے ہوتے جا رہے ہیں۔ اس آلودگی سے دیگر عجیب بیماریاں پھیل رہی ہیں۔

کرونا کی وجہ سے ماسک اور سینی ٹائزر وغیرہ کے استعمال سے ہونے والی آلودگی اس کے علاوہ ہے۔ ہم ابھی تک تو کوئی ایک سو سال پہلے علاج دریافت ہونے کے باوجود ٹی بی پر تو قابو نہیں پا سکے ہیں تو اس دور جدید کی بیماریوں پر قابو پانے میں کتنا عرصہ لگے گا۔

عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اگر انسان ورزش کرے تو اسے دل کا دورہ پڑنے کا امکان کم ہو جاتا ہے لیکن پچھلے چند دنوں میں آپ پاکستان کے مقامی کرکٹ مقابلوں کے دوران دو دنوں میں دل کا دورہ پڑنے سے دو کھلاڑیوں کی موت کی خبر پڑھ ہی چکے ہوں گے۔ اب یہ کھلاڑی جوان و صحت مند بھی تھے اور اتنی طاقت رکھتے تھے کہ کرکٹ جیسا پر مشقت کھیل کھیل اپنی جسمانی ورزش بھی کر رہے تھے لیکن اس کے باوجود کھیل کی مشقت ان کا دل نہ برداشت کر سکا۔

یہ اور اس قسم کے دیگر واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ بیماریوں کے حملہ کرنے کا انداز بھی تبدیل ہو رہا ہے۔ اور اس حوالے سے سب سے زیادہ شبہ ماحولیاتی آلودگی پر ہی جاتا ہے۔ لیکن بہت سے لوگ اپنی دولت چلے جانے کے لالچ میں اب بھی ماحولیاتی تبدیلیوں سے انکاری ہیں۔ اس حوالے سے ایسے افراد کے بظاہر تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ان کی جاہلیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ موسموں میں اتنی واضح تبدیلیوں کے باوجود کہتے ہیں کہ کچھ نہیں ہو گا۔

یا جب سخت آلودگی پھیل جائے گی تو تب دیکھیں گے۔ حالانکہ زمین پر زندگی کا یہ نظام لاکھوں کروڑوں سالوں کے ارتقاء کے بعد موجود حالت میں آیا ہے۔ اب اگر ہم زندگی کے عناصر کی اس ترتیب کو بکھیر دیتے ہیں تو اسے دوبارہ ترتیب میں آنے کے لیے کم از کم بھی کئی ہزار سال درکار ہوں گے۔ تو ذرا سوچیے کہ انسان اس دوران کہاں جا کر رہے گا۔ اگر دیگر سیاروں کی بات کی جائے تو فی الحال ہماری زمین کے اردگرد ایسا کوئی سیارہ نہیں ہے جہاں زندگی موجود ہو۔

اور پھر سوچیے کہ اگر کسی دوسرے سیارے پر زندگی موجود ہو تو کیا یہ ضروری ہے کہ وہاں کے باشندے ہمیں اپنے پاس رکھنا چاہیں گے اور کیا وہ ہمارے ساتھ ویسا ہی سلوک نہیں کریں گے جیسا آج ہم ایک سے دوسرے ملک جانے والے تارکین وطن کے ساتھ کرتے ہیں؟ اور کیا یہ ضروری ہے کہ وہاں ہمارے رہنے کی گنجائش موجود ہوگی۔ ایسی صورت میں اگر ہم ان سے زیادہ جدید ٹیکنالوجی رکھتے ہوں گے تو دوسرے سیاروں پر یا تو ہمیں ان کے ساتھ ویسا ہی ظلم کرنا پڑے گا جیسے یورپی اقوام نے امریکہ کے اصل ریڈ انڈین باشندوں کے ساتھ یا آسٹریلیاء کے قدیم باشندوں کے ساتھ کیا تھا اور یا پھر ہماری داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔

اور اگر ایسے ظلم کے بعد ہمیں وہ سیارہ میسر آ جائے تو ہم وہاں بھی ایسی ہی آلودگی پھیلائیں گے یا اسے صاف ستھرا رکھنے کی کوشش کریں گے؟ تو اگر ہم اسے صاف ستھرا رکھنے کی کوشش کریں گے تو یہ کام اپنی زمین سے کیوں نہیں ہو سکتا۔ ویسے تو ماحولیاتی تبدیلیوں کا انکار کرنے والے سائنس اور علم کو بہت مانتے ہیں، نت نئی اشیاء اور نت نئے طریقہ علاج اور سہولیات کو استعمال کرتے ہیں لیکن جب بات ماحولیاتی تبدیلی کی آتی ہے تو یہ سائنس کا انکار کرتے ہیں۔

ہمارے یہاں تو لوگوں نے بچت کرنا کناں گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کو بھی لباس بنا لیا ہے کہ ہر موقعے کے لیے الگ گاڑی رکھنا ضروری ہوتا ہے۔

اس کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ زیادہ تر عوام تعلیم یافتہ نہیں ہیں یا زیادہ شعور نہیں رکھتے۔ لیکن جو لوگ تعلیم یافتہ ہیں ان کی ذمہ داری ہے کہ دیگر لوگوں کو سمجھائیں کہ ماحولیاتی سونامی تیزی سے ان کی طرف بڑھی چلی آ رہی ہے اور وہ فضاء کو آلودگی سے بچانے کے لیے جتنی کوشش کر سکتے ہیں، کریں۔ یہاں پر فیض کے شعر میں تحریف کے ساتھ

جسم و زباں کی موت سے پہلے
جو کرنا ہے کر لے
اس وقت تو لوگوں کو اگر ایک فرلانگ دور جانا پڑتا ہے تو بھی گاڑی پر آلودگی پھیلا کر جاتے ہیں۔

اگر حکمران اور اشرافیہ یہ کام کرنے سے انکاری ہیں تو عوام اس معاملے کو اپنے ہاتھ میں لے سکتے ہیں۔ بس کرنا صرف اتنا ہو گا کہ اگر انہیں قریبی فاصلے تک جانا ہے تو وہ پیدل یا سائیکل پر جائیں، پھر آہستہ آہستہ اس فاصلے کو بڑھاتے چلے جائیں۔ اب بھی وقت ہے، اب صحت مند لوگ تو باہر سائیکل چلاتے ہوئے جا سکتے ہیں۔ اگر لوگوں نے اس طرف توجہ نہ دی تو وہ وقت دور نہیں کہ جب صحت مند افراد باہر سائیکل چلانے کو بھی ترسیں گے۔

یوں نہ ہو کہ یہ انکار انسان کے لیے اتنا پچھتاوا لے کر آئے کہ وہ یہ شعر دوہراتا پھرے
وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا
کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں پھر سچا شعر سنائیں کیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments