دور حاضر اور وقت


وقت کیا ہے؟ کیا صرف گھڑی کی سوئیوں کے چلتے رہنے کا نام وقت ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ہم اپنے وقت کو دنوں، مہینوں اور سالوں کا اندازہ گھڑی اور کلینڈر کے ذریعے کرتے ہیں۔ دن کے اوقات ہم گھڑی دیکھتے ہوئے گزارتے ہیں دنوں اور مہینوں کو کلینڈر دیکھتے ہوئے، لیکن دراصل وقت ان سب سے الگ بڑی ہی اہمیت کا حامل ہے یہ ہم سب جانتے ہیں۔ کہ یہ ایک لمحہ جو گزر گیا دوبارہ کبھی واپس نہیں آ سکتا یہی وقت کی سب سے بڑی اور گہری حقیقت ہے۔

دن مہینے سال گزرتے جاتے اور دوبارہ کبھی بھی واپس نہیں آتے انسان کے ساتھ صرف یادیں رہ جاتی ہیں۔ کہتے ہیں اچھا وقت بہت جلدی گزر جا تا ہے اور برا وقت بہت مشکل سے جب کہ گھڑی کی رفتار دونوں صورتوں میں ایک ہی ہوتی ہے۔ البتہ ہمارے ذہن کی رفتار کم ہو جاتی ہے۔ کیونکہ اس وقت انسان پریشانی کے عالم میں ہوتا ہے۔ لیکن وقت کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اچھا ہو یا برا گزر ضرور جا تا ہے ایک جگہ ٹھہرتا نہیں اگر یہ ٹھہرتا تو ہم انسانوں کے لیے پریشانی کا بڑا سبب بنتا یعنی دنیا میں خوشگوار انسان ہمیشہ خوش رہتے اور غموں میں مبتلا ہمیشہ غمگین لیکن یہ خدا کا بہترین نظام ہے۔ کہ وہ ایک ہی حا لت میں اپنے بندوں کو اکیلا نہیں چھوڑتا۔ ہر مشکل کے بعد آسانی اور آسانی کے بعد مشکل کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ ہم بات کر رہے ہیں وقت کی جو ایک ہی رفتار سے گزرتا ہے لیکن اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ اس وقت کو کس طرح گزارا جائے؟

ہماری زندگی کا آئینہ وہی دکھاتا ہے جیسا کہ ہم نے اپنے اوقات کا استعمال کیا ہو تا ہے۔ اور یہ کہاوت مکمل طور پر ہر اس انسان پر ثابت ہو جاتی ہے کہ ”انسان وہی کچھ کاٹتا ہے جو کچھ اس نے بو یا ہوتا ہے۔“ اپنے اعمال کے میدان سے لے کر اخلاقی میدان تک وہی نتیجہ پاتا ہے جو وہ تیار کرتا ہے۔

اور ہر عمر کا انسان اسے اپنے شوق و معمول کے مطابق استعمال کر نا پسند کرتا ہے۔ لیکن ہم مسلمان قوم اس کو صرف شوق اور معمول کے مطابق نہیں گزار سکتے اپنی عمر کے مراحل کے مطابق اس کا صحیح استعمال کرنا ہر بندہ مومن پر بحیثیت فرض عائد ہو تا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پر پانچ وقت کی نماز فرض کی اور ہر نماز کا وقت مقرر کیا۔ کیوں کہ اسی نماز کے مقررہ اوقات سے مذہب اسلام ہمیں وقت کی پا بندی اور اس کی اہمیت کا سبق دیتا ہے، کہ دنیا میں آنے کے بعد وقت کی اہمیت و ضرورت کو سمجھنا کتنا اہم ہے۔

کیو نکہ انسانی حیات کے ادوار ہوتے ہیں اور ہر دور کو عبور کرتا ہوا انسان ایک شعور کی عمر تک جا پہنچتا ہے۔ اور جب وہ اپنی شعوری عمر کے چالیسویں حصہ تک پہنچتا ہے تب اس پر زندگی کے حقائق کھلنے شروع ہوتے ہیں۔ اور یہ بھی ہر کسی پر انکشاف نہیں ہوتے بلکہ جو لوگ غور و فکر کرتے ہیں، اور اقوال کی گہرائی وگیرائی کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں لو گوں کو پرکھتے ہیں، ذہنوں کو پڑھتے ہیں۔ جب زندگی کی اصل تصویر سامنے آتی ہے اور سمجھ میں آتا ہے کہ حقیقتاً زندگی کیا ہے۔

ہم نے اس کو کیا سمجھا اپنے وقت کو کیسے گزارا اگر بہتر استعمال کیا ہے تو آپ کے وجود اور عہدے سے خودبخود اس کا انکشاف ہو جائے گا۔ اگر بہتر استعمال نہیں کیا تو اس کا بھی مظاہرہ ہو جائے گا۔ دنیا وی اعتبار سے تو ہمیں سب بتاتے ہیں کہ دنیا بنانے کے لیے کیا کیا تدابیر کر نی چاہیے اپنے وقت کو کس طرح کار آمد بنانا چاہیے، لیکن مذہبی اعتبار سے اس کا صحیح استعمال کم ہی سامنے آتا ہے۔ جبکہ ہمارا مذہب سب سے پہلے اس کی اہمیت و افادیت کا انکشاف کرتا ہے۔

اگر دنیا وی معمولات کو اہمیت دینے بجائے ہم اپنی نسلوں کو دین کی اہمیت و افادیت سے رو شناس کرائیں نماز کی اہمیت اور اس کا پا بند ہو نا سکھائیں تو دنیا وی اعتبار سے وہ خود بخود اوقات کے پا بند ہو جائیں گے۔ لیکن اب ہماری آ نے والی نسلیں سوشل میڈیا کے بیجا استعمال کی وجہ سے بہت سے خطرات میں گھرے جا رہی ہیں۔ آنے والی نسلوں کو ان خطرات سے کیسے محفوظ رکھا جائے یہ آج کے دور کا بڑا سوال بن گیا ہے۔ کیا آنے والا دور ہماری نسلوں کے لیے بہتر ثابت ہو سکے گا یا نہیں۔

یہ سوال مو جودہ دور کے والدین کے لیے بڑا غور طلب مدعا بن گیا ہے۔ اور ساتھ ہی والدین پر ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے، کہ آیا وہ اپنی اولاد کی پرورش صرف سوشل میڈیا کے ذریعے کر رہے ہیں یا پھر اپنے دین سے بھی متعارف کرا رہے ہیں۔ اگر ہماری نسلوں میں سوشل میڈیا کے استعمال کی زیادتی رہی تو ان کی مکمل حفاظت ممکن نہیں یہی وجہ ہے کہ دور حا ضر میں والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری دہری ہو جاتی ہے۔ وہ اپنی نسلوں کو کونسے راستے پر چلنے کی تلقین کر رہے ہیں۔

اگر اس پر آشوب دور کے خطرات سے بچنا ہے تو ہمیں اپنی نسلوں کو دنیاوی اعتبار کے ساتھ ساتھ دینوی اعتبار سے بھی تیار کرنا ہو گا مذہبی حوالے سے اپنی نسلوں کی تربیت لازمی کرنی ہوگی۔ تب ممکن ہے کہ آنے والے دور میں اپنے بچوں کو تھوڑا محفوظ کر سکیں۔ اللہ رب العزت ہماری نسلوں کو حفظ و امان کے دائرے میں محفوظ رکھے۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments