کیا قائد اعظم اور مودودی صاحب کے نظریات ایک جیسے تھے؟


حال ہی میں محترم الطاف حسن قریشی صاحب کا ایک کالم ” اسلامی ریاست قائد اعظم کے عالی شان تصورات ” کے نام سے ہم سب پر اور 12 نومبر کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا۔ اس کالم کے آغاز میں قریشی صاحب لکھتے ہیں

1949” کی طرح آج بھی کچھ تجزیہ نگار یہ تاثر دیتے رہتے ہیں کہ قائدِاعظم برِصغیر میں ایک مسلم قومی ریاست قائم کرنے کے لئے کوشاں تھے، لیکن نوابزادہ لیاقت علی خان اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اسلامی ریاست کا نعرہ بلند کر کے بہت بڑا ذہنی خلجان پیدا کر دیا تھا جس کے باعث پاکستان پس ماندگی کا شکار ہوتا گیا۔

اس کے بعد وہ کچھ حوالے درج کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ریاست کے بارے میں قائد اعظم اور مودودی صاحب کے خیالات بالکل ایک جیسے ہی تھے۔ اور دونوں ایک ہی سمت میں قوم کی راہنمائی کر رہے تھے۔ جہاں تک قائد اعظم کے نظریات کا تعلق ہے تو جیسا کہ الطاف حسن قریشی صاحب نے بھی حوالہ پیش کیا ہے قائد اعظم جب بھی اسلامی اقدار پر قائم ریاست کا ذکر کرتے تھے، اس سے ان کی مراد ایسی ریاست ہوتی تھی جو جمہوریت اور سب کے لئے برابر حقوق کی بنیادوں پر قائم ہو۔ اور اس میں کسی مخصوص مذہبی گروہ کو اجارہ داری حاصل نہ ہو لیکن کیا مودودی صاحب کے بھی یہی نظریات تھے؟ یقینی طور پر الطاف حسن صاحب نے ایک حوالہ پیش کیا ہے۔ لیکن کیا یہ ایک حوالہ مودودی صاحب کے نظریات کی مکمل ترجمانی کرتا ہے؟ اس کالم میں ہم اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے۔

اس سوال کے بارے میں کہ کیا ایک اسلامی ریاست میں کوئی غیر مسلم اہم عہدوں پر فائز ہو سکتا ہے کہ نہیں مودودی صاحب نے اس نظریہ کا اظہار کیا

رہے سول محکمے تو ان میں سے کلیدی مناصب  (Key Positions)اور وہ عہدے جو پالیسی کے تعین و تحفظ سے تعلق رکھتے ہیں بہر حال اہل ذمہ کو نہیں د یے جا سکتے۔

)رسائل ومسائل حصہ اول ص264)

مودودی صاحب کی یہ تحریر پڑھیں اور خود فیصلہ فرمائیں کہ کیا یہی قائد اعظم کے نظریات تھے۔ جنہوں نے  ایک غیر مسلم کو پاکستان کا پہلا وزیر قانون مقرر کیا تھا۔ کیا اس حقیقت سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ قائد اعظم نے 11 اگست کو یہ اعلان کیا تھا کہ آپ کا جو بھی مسلک یا عقیدہ ہو اس کا ریاست کے امور سے کوئی تعلق نہیں۔ مودودی صاحب نے تو یہ کہا تھا کہ وہ جس ریاست کا تصور پیش کر رہے ہیں، اس میں کسی غیر مسلم کو کوئی کلیدی عہدہ نہیں دیا جا سکتا۔

یہ تو واضح ہے کہ قائد اعظم پاکستان کے لئے ایک جمہوری نظام چاہتے تھے لیکن کیا مودودی صاحب بھی یہی چاہتے تھے؟ یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ جمہوری نظام میں جو جماعت اکثریت حاصل کرے وہی حکومت کرتی ہے۔ اس کے برعکس مودودی صاحب اپنی مشہور کتاب “مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش ” کے حصہ سوئم میں مودودی صاحب یہ نظریہ پیش کرتے ہیں۔

جو جماعتیں کسی طاقتور نظریہ اور کسی جاندار اجتماعی فلسفہ کو لے کر اٹھتی ہیں وہ ہمیشہ قلیل التعداد ہی ہوتی ہیں اور قلت تعداد کے باوجود بڑی بڑی اکثریتوں پر حکومت کرتی ہیں۔ روسی کمیونسٹ پارٹی کے ارکان کی تعداد اس وقت صرف 32 لاکھ ہے اور انقلاب کے وقت اس سے بہت کم تھی مگر اس نے 17 کروڑ انسانوں کو مسخر کر لیا۔ مسولینی کی فاشسٹ پارٹی 4 لاکھ ارکان پر مشتمل ہے اور روم پر مارچ کرتے وقت 3 لاکھ تھی مگر یہ قلیل تعداد ساڑھے چار کروڑ اطالویوں پر چھا گئی۔ یہی حال جرمنی کی نازی پارٹی کا ہے۔

)مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوئم ص 45)

ظاہر ہے کہ اس میں مودودی صاحب  کسی جمہوری نظام کا نظریہ پیش نہیں کر رہے۔ بلکہ وہ یہ نظریہ پیش کر رہے ہیں کہ ایک قلیل تعداد کا گروہ صالحین مسولینی کی  فاشسٹ اور ہٹلر کی نازی پارٹی کی طرح زبردستی اقتدار پر قبضہ کر کے اکثریت پر حکومت کرے گا۔ کیا قائد اعظم نے یہی نظریات پیش کئے تھے؟

جب قائد اعظم کی قیادت میں مسلم لیگ پاکستان کا نظریہ پیش کر رہی تھی، مودودی صاحب بھی ان نظریات کے مقابل پر اپنے نظریات پیش کر رہے تھے۔ اس مرحلہ پر انہوں نے ان الفاظ میں قائد اعظم اور مسلم لیگ کے ممبران کو یاد کیا

مگر افسوس لیگ کے قائد اعظم سے لے کر چھوٹے مقتدیوں تک ایک بھی ایسا نہیں جو اسلامی ذہنیت اور اسلامی طرز فکر رکھتا ہو اور معاملات کو اسلامی نقطہ نظر سے دیکھتا ہو۔ یہ لوگ مسلمان کے معنی و مفہوم اور اور اس کی مخصوص حیثیث کو بالکل نہیں جانتے۔

[مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوئم ص30]

اگر مودودی صاحب اور قائد اعظم کے بنیادی نظریات بھی ایک ہوتے تو مودودی صاحب کو یہ لکھنے کی ضرورت نہ پیش آتی ہے کہ ان لوگوں کو تو یہ بھی نہیں علم کہ مسلمان کسے کہتے ہیں۔ غیر مسلم تو ایک طرف رہے، مودودی صاحب نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ مسلمانوں کی کثرت رائے پر حکومت چلا کر بھی اسلامی حکومت قائم نہیں کی جا سکتی۔ وہ تحریر کرتے ہیں

یہ انبوہ عظیم جس کو مسلمان قوم کہا جاتا ہے اس کا حال یہ ہے کہ اس کے 999 فی ہزار افراد نہ اسلام کا علم رکھتے ہیں، نہ حق و باطل کی تمیز سے آشنا ہیں نہ ان کا اخلاقی نقطہ نظر اور ذہنی رویہ اسلام کے مطابق تبدیل ہوا ہے۔۔۔۔ان کی کثرت رائے کے ہاتھ میں باگیں دے کر اگر کوئی شخص یہ امید رکھتا ہے کہ گاڑی اسلام کے راستے پر چلے گی تو اس کی خوش فہمی قابل داد ہے۔

[ مسلمان اور موجودی سیاسی کشمکش حصہ سوئم ص107]

اور جب پاکستان بن گیا اور قائد اعظم اپنی طویل جدوجہد کے بعد اپنی زندگی کے آخری دن گذار رہے تھے۔ اس وقت مودودی صاحب نے یہ بیان دیا

دوسرے یہ کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں اس وقت زمام کار ہے، اسلام کے معاملے میں اتنے مخلص اور اپنے ان وعدوں کے بارے میں جو انہوں نے قوم سے کئے تھے اتنے صادق ہوں کہ اسلامی حکومت قائم کرنے کی جو اہلیت ان کے اندر مفقود ہے اسے خود محسوس کر لیں اور ایمانداری کے ساتھ یہ مان لیں کہ پاکستان حاصل کرنے کے بعد ان کا کام ختم ہوگیا ہے اور یہ کہ اب یہاں اسلامی نظام تعمیر کرنا ان لوگوں کا کام ہے جو اس کے اہل ہوں۔

[رسال و مسائل حصہ اول ص 334 و 335]

اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے کہ قائد اعظم اور مودودی صاحب کے نظریات بالکل ایک تھے؟ اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مودودی صاحب کے نزدیک قائد اعظم اور مسلم لیگ کی قیادت کو چاہیے تھا کہ وہ یہ تسلیم کر لیں کہ اب ہم اس قابل کہاں کہ ملک کو اسلامی نظریات کے مطابق چلائیں۔ اب ان کا یہ فرض تھا کہ وہ اقتدار ایک مخصوص مذہبی طبقہ کے سپرد کریں اور یہ کہتے ہوئے رخصت ہو جائیں کہ ہمارا کام تو صرف پاکستان بنانا تھا۔ اب اس کو چلانے کا م ان کے سپرد ہونا چاہیے جو کہ پاکستان کے قیام کی مخالفت کر رہے تھے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments