سفرنامہ پنجاب: تیرے شہر میں یوں زندگی ملی (9)



”سوئے شہر نگاراں“

ہم صبح ناشتے کے بعد سے سیر کے لیے مینار پاکستان، بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ گئے تھے وہاں سے واپسی دوپہر تقریباً ایک بجے ہوئی۔ ان جگہوں کا ایک بہت خوش گوار تاثر تھا جو کتنی ہی دیر ذہن پہ طاری رہا۔ دل نہیں چاہ رہا تھا کہ وہاں سے واپسی ہو لیکن مسئلہ یہ تھا کہ شام کی ٹرین سے واپسی تھی۔ اگر لاہور میں مزید قیام ہوتا تو بہت دیر بلکہ رات تک وہیں بیٹھی رہتی اور ان عظیم الشان در و دیوار سے وہ کہانیاں سنتی رہتی جو خاموش صدا کی صورت ہواوٴں میں تحلیل ہوجاتی ہیں جیسا کہ امجد اسلام امجد کے الفاظ میں ;

” ہوا کے سنگ ہوا کی امانتیں بھی گئیں“

ان کہانیوں کو سننے کا موقع پھر شاید ہی ملے۔ میں نے جانے کے لیے قدم بڑھائے تو یوں لگا کہ یہ عمارت مجھے روک رہی ہو یہ کہہ کر

”یہ جدائیوں کے رستے بڑی دور تک گئے ہیں
جو گیا وہ پھر نہ لوٹا، میری بات مان جاوٴ
(فراز)
لیکن رکنا ممکن نہیں تھا سو میں بھی جواباً فراز کا یہ شعر دہراتی ہوئی آگے بڑھ آئی۔
”وہ کہانیاں ادھوری جو نہ ہو سکیں گی پوری
انھیں میں بھی کیوں سناوٴں، انھیں تم بھی کیوں سناوٴ ”

ہوٹل آ کے سب لوگ اپنے اپنے سامان کی سمیٹا سمیٹی اور اپنی اپنی تیاریوں میں لگ گئے۔ مجھے گھر کے لیے لاہور سے کچھ سوغات لے جانا تھی۔ میں نے قریبی بازار کا رخ کیا۔ میرا ارادہ تھا کہ یہاں کی مشہور نان خطائیاں لے جاوٴں لیکن معلوم ہوا وہ دکان خاصی دور نیلا گنبد میں واقع ہے۔ ہمیں تین بجے ہوٹل چھوڑ دینا تھا چناں چہ قریب کی ایک بیکری سے جو اس علاقے کی بہت اچھی بیکری بتائی گئی تھی، ان کی سب سے اچھی سوغات لی۔ میں نے ان کے کچھ بیکری آئٹمز چکھے جو مجھے قطعی پسند نہ آئے حالاں کہ بیکری میں موجود سبھی لوگ کئی چیزوں کے لیے بتا رہے تھے کہ وہ بہت پسند کی جاتی ہیں۔

ایمان داری سے موازنہ کیا جائے تو کراچی میں ایک عام سی بیکری میں بھی چیزیں زیادہ مزے دار ہوتی ہیں۔ بہرحال گھر کے لیے کچھ تو لینا تھا کیوں کہ میں پہلی مرتبہ سفر پہ نکلی تھی وہ بھی گھر والوں کے بغیر۔ جس دن سے پنجاب آنے کا پروگرام بنا تھا اور میں نے گھر کے بچوں سے پوچھا کہ واپسی پر ان کے لیے کیا لاوٴں تو بچوں نے بیک زبان ایک ہی فرمائش کی ”چاکلیٹ“ ۔ چاکلیٹ سے ان کا والہانہ عشق ناقابل بیان ہے۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے علاقے کے ایک اچھے سپر اسٹور جا پہنچی۔

یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ہم جہاں بھی گئے لوگوں نے جو پہلی بات کی وہ یہ کہ آپ لوگ کراچی سے آئے ہیں؟ صبح مزار پہ بھی یہ ہی بات ہوئی تھی۔ ہم لوگ پرس وغیرہ کی تلاشی دے کے اندر کی طرف بڑھے تو لیڈی سرچرز آپس میں پنجابی میں ایک دوسرے سے کہنے لگیں یہ کراچی سے آئی ہیں۔ کتنی پیاری ہیں یہ۔ ہم لوگ ان کا یہ تبصرہ سن کے مسکرا دیے۔ میں نے شرارتاً پلٹ کے ان سے پوچھ لیا کیا آپ نے ہم سے کچھ کہا؟ وہ مسکراتے ہوئے بولیں ہم تو آپ کی تعریف کر رہے ہیں کہ آپ لوگ کتنی پیاری لگ رہی ہیں۔

ہم سب نے ایک مسکراہٹ کی صورت ان کا شکریہ ادا کیا۔ اسٹور کے مالک نے بھی پہلا جملہ یہ ہی کہا آپ کراچی سے آئی ہیں؟ میں نے جواباً پوچھا آپ کو کیسے معلوم؟ انھوں نے کہا کراچی کے لوگوں کا انداز ہی الگ ہوتا ہے خاص طور پہ گفتگو کا طریقہ۔ سن کے خوشی ہوئی کہ ہم الگ ہی پہچانے جاتے ہیں۔ خیر بچوں کی فرمائش کے مطابق ان کے لیے ہر قسم کی دست یاب چاکلیٹس لیں۔ پھر ہوٹل کا رخ کیا۔ کچھ ہی دیر میں ہوٹل سے اسٹیشن کے لیے نکلے۔

ہماری مطلوبہ گاڑی آنے میں اگرچہ وقت تھا لیکن ہم لوگ کچھ پہلے اس لیے نکلے تھے کہ یہ اجنبی شہر ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم لوگ بھٹک جائیں۔ وقت سے پہلے جائے مقصود پہ پہنچنا مناسب ہوتا ہے۔ ہم سب اسٹیشن پہنچے۔ آئرین زیفرین بھی مع بچوں کے وہیں آئے۔ کراچی کینٹ پہ ہمارا کاروان پرجوش تھا لیکن واپسی کا سفر قدرے مختلف تاثر کا حامل تھا۔ جہاں ہم سب کو گھر جانے کی خوشی تھی وہیں اتنے اچھے دوستوں کا ساتھ چھوٹنے کا افسوس بھی تھا۔

ان آٹھ دنوں میں ہم لوگوں نے ایک دوسرے کے ساتھ بہت پرلطف وقت گزارا تھا۔ اب یہ ساتھ چھوٹنے پہ ہر کوئی افسردہ سا تھا۔ پلیٹ فارم پہ سب نے ایک جگہ اپنا سامان رکھ دیا۔ گاڑی اپنے مقررہ وقت یعنی پانچ بجے آ گئی۔ ہم لوگ سوار ہوئے اور اپنی سیٹوں پہ جا بیٹھے۔ کچھ ہی دیر میں ریل گاڑی نے پلیٹ فارم چھوڑ دیا۔ میں اس مرتبہ بھی کھڑکی کے ساتھ بیٹھی تھی اور پہلے کی طرح باہر کے مناظر اپنے فیس بک فرینڈز کو براہ راست دکھاتی جا رہی تھی۔

مجھے تو یہ مناظر بھی اپنی طرح اداس محسوس ہوئے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے یہ بھی ہم سے کہہ رہے ہوں کہ اتنی جلدی نہ جاوٴ۔ ابھی تو کچھ کہا سنا نہیں ابھی تو بہت کچھ کہنے، سننے، محسوس کرنے کو باقی ہے۔ جانا تو بہرحال تھا۔ ہمارے ہم سفر، جو کراچی سے سفر کے آغاز پر ہی ہلہ گلا کرنے لگے تھے۔ پورے سفر میں ہم لوگوں نے گانے گا کے اپنے ساتھیوں کا ہی نہیں بلکہ پوری بوگی کے مسافروں کا بھی دل بہلائے رکھا، اس مرتبہ سب خاموش سے تھے۔

شام سات بجے گاڑی ساہیوال اسٹیشن پہ رکی۔ اب چوں کہ دن چھوٹے ہو رہے تھے تو ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے خاصی رات ہو گئی ہے۔ سب نے ناشتے دان کھول لیے ۔ ہمارے گروپ کے مرد حضرات ہر اسٹیشن پہ ضرور اترتے۔ ساہیوال اسٹیشن پہ نان اور گرم گرم کباب فروخت ہو رہے تھے۔ کچھ ساتھیوں نے وہ خریدے۔ رابعہ الربا6 کباب، چپاتیاں اور چٹنی بطور زاد سفر دے گئی تھیں۔ آئرین کے بھائی کے گھر سے روٹیاں اور مزے دار سی مرغ کڑاہی سفر کے لیے ساتھ کردی گئی تھی۔

سب نے مل جل کے یہ کھانے کھائے۔ پھر جلدی سونے کے لیے لیٹ گئے۔ واپسی کا سفر زیادہ تر سوتے ہوئے ہی گزرا۔ صبح بیدار ہوئے۔ ناشتہ وغیرہ کر کے محفل جمی۔ میرا شکوہ یہ ہوتا ہے کہ سب مشاعرہ گرما لیتے ہیں لیکن نثر کوئی نہیں سنتا۔ صائمہ نفیس نے یہ شکوہ سنا تو کہا نثر بھی سنی جائے گی چناں چہ کلام شاعر بزبان شاعر سننے کے بعد مجھ سے افسانچے سنے گئے۔ اس مرتبہ بھی دیگر مسافر ہمیں بغور سن رہے تھے۔ ایک سامع نے ہم بات کی اور ہماری تحریروں کی تعریف کی۔

پھر انھوں نے حیدرآباد اسٹیشن سے انگور خرید کے ہم لوگوں کو دیے۔ ہم لوگوں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ حیدرآباد آیا تو ہم سب الرٹ ہو گئے۔ یوں لگا جیسے اپنے گھر کی قریبی گلی میں پہنچ گئے ہیں۔ کچھ ہی دیر میں گاڑی کراچی کی حدود میں داخل ہوئی۔ کراچی کی حدود تو اب لامتناہی ہوتی جا رہی ہیں۔ یوں لگتا ہے کچھ عرصے میں کراچی آس پاس کی مضافاتی آبادیوں کو خود میں ضم کر لے گا۔ کراچی کے قریب آتے ہی گاڑی کی رفتار کم ہو گئی بلکہ کسی کسی جگہ تو زیادہ دیر کے لیے رک بھی گئی۔

ہم لوگ گاڑی کی سست رفتاری پہ بے چین ہو رہے تھے لیکن کر بھی کیا سکتے تھے۔ خدا خدا کر کے کراچی کینٹ اسٹیشن آیا۔ مجھے تو کم از کم یہ ہی محسوس ہوا کہ جیسے اپنے گھر کی برابر والی گلی میں آ گئے ہوں۔ یہ بات قابل تعریف ہے کہ ہمارے گروپ کے مرد حضرات نے اس پورے سفر میں سب خواتین کا بہت خیال رکھا۔ میرا سامان یعنی ایک درمیانہ ہینڈ کیری اور بیگ زیادہ تر علی کوثر نے ہی رکھوایا یا خود اٹھایا۔ اسی طرح زیفرین اور شبیر نازش نے اپنے گھر والوں کے ساتھ ساتھ ہم سنگل خواتین کے بھی کام کیے۔

سچ ہے اتنا اچھا گروپ تھا کہ ہمیں لگ رہا تھا جیسے ہم سب ایک ہی خاندان کے فرد ہیں۔ ہم اسٹیشن پہ اترے تو سب نے ایک دوسرے کو بہت گرم جوشی سے خدا حافظ کہا۔ کہا سنا معاف کروایا اور رابطے میں رہنے، ملتے رہنے کے وعدے وعید ہوئے۔ وہاں سے سب اپنے اپنے گھروں کو ہو لیے ۔ آٹھ دن بعد ہم اپنے شہر لوٹے تھے لیکن لگ یوں رہا تھا جیسے نجانے کتنے وقت واپسی ہوئی ہے۔ سچ ہے گھر جیسی جگہ کوئی نہیں۔ شاید پھر کبھی موقع ملے ایسے اچھے دوستوں کے ساتھ سفر کرنے کا، شاید کہ ہو پھر کبھی ایسا، شاید۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments