بیرون ملک پاکستانی اور حق رائے دہندگی


بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق بھی عجیب مخمصہ ہے۔ بیرون ملک پاکستانیوں میں سے جو پاکستانی شہریت ترک کر دیتے ہیں وہ تو اس بحث میں شامل ہی نہیں۔ باقیوں کو آپ دو حصوں میں تقسیم کر لیں، ایک وہ ہیں جنہوں نے دوہری شہریت اختیار کی اور امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، انگلستان اور بیلجیم میں رہائش پذیر ہیں۔ دوسرے جو عارضی طور پر روزگار کے سلسلے میں دوسرے ممالک میں آباد ہیں۔ ان کی زیادہ تر تعداد مشرق وسطی میں آباد ہے جہاں شہریت نہیں دی جاتی اور وہ دہری شہریت حاصل کرنے سے محروم رہتے ہیں۔

دہری شہریت والے پاکستانی نژاد لوگوں کی اکثریت انہی ممالک میں رہتی ہے، انہی ممالک کی زندگی اور سہولیات سے مستفیض ہوتی ہے، ان کے بچے وہاں کے سکولوں میں جاتے ہیں، وہاں کے میڈیکل سسٹم، ٹیکسز، سکولوں، شہری حکومتوں سے ان کا پالا پڑتا ہے۔ ان مسائل کے حل اور اس سے نبرد آزما ہونے کے لئے وہ اپنے اور اپنے بچوں کے لئے سکول ٹرسٹی، ممبر سٹی کونسل، ممبر صوبائی اسمبلی، ممبر قومی اسمبلی غرض کہ ہر سطح کے نمائندگان کو چنتے ہیں، ان سے رابطے میں رہتے ہیں، ان کے ذریعے اپنی آواز متعلقہ فورم تک پہنچاتے ہیں۔ کچھ قابل افراد انتخابات میں حصہ بھی لیتے ہیں۔ اسی لئے مختلف سطح پر بہت سے مغربی ممالک میں پاکستانی نژاد سیاستدان موجود ہیں۔ وہ وہاں کے پاکستانیوں کے نہیں بلکہ مقامی آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں۔

مشرق وسطی میں شہریت کا حصول ممکن نہ ہونے کی وجہ سے وہاں مقیم پاکستانی مقامی سیاسی نظام کا حصہ نہیں بن سکتے۔

اب آتے ہیں اس طرف کہ آیا ان بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا جانا ضروری ہے؟ پہلی قسم کے پاکستانی جو کہ زیادہ تر خاندانوں سمیت اور دہائیوں سے بیرون ملک آباد ہیں پاکستان کے مسائل اور قانون سازی کی بہت زیادہ ضرورت نہیں، نہ ہی انہیں پاکستان کے مسائل سے بہت زیادہ واسطہ پڑتا ہے۔ اس لئے کینیڈا یا آسٹریلیا میں مستقل رہتے ہوئے پاکستان میں ووٹ کا حق دینا بالکل غیر ضروری اور غیر فطری ہے۔ مشرق وسطی میں آباد پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد مزدوری کے لئے ان ممالک میں آباد ہے۔

ان میں سے اکثریت کے بیوی بچے پاکستان میں ہیں اور یہاں کے انتخابی نظام کا حصہ ہیں۔ ان کے لئے روٹی کمانے گئے ان کے وہاں کے مسائل کا زیادہ تر تعلق سفارت خانے سے متعلق ہوتا ہے۔ اسی لئے ہر ملک میں پاکستان کے سفارت خانے اور قونصلیٹ کام کرتی ہیں (اس میں شک نہیں کہ ان کا رویہ مقامی پاکستانیوں کے ساتھ بہت اچھا نہیں ) ۔ لیکن ساتھ ہی ان میں سے اکثریت باہر بیٹھے ملک میں اپنا نمائندہ چننے کا مطالبہ بھی نہیں رکھتی۔

یہ مطالبہ زیادہ تر ان پاکستانی نژاد لوگوں کی طرف سے سامنے آتا ہے جو باہر ممالک میں لمبا عرصہ رہنے اور ہر جائز ناجائز سہولت سے فائدہ اٹھانے کے باوجود وہاں کے سیاسی نظام میں اپنی تعلیم، اپنی عقل اور اپنے رویوں کی وجہ سے ضم نہیں ہو پاتے۔ پیسہ ضرورت سے زیادہ آ جانے کے بعد وہاں پاکستانی سیاسی پارٹیوں کے کئی کئی ونگ قائم کرتے ہیں، قونصلیٹ میں جاکر نمبرداری دکھاتے ہیں، پاکستان سے گئے سیاستدانوں کے ساتھ تصویریں کھنچوا کر اپنی دھاک (نہ جانے کس پر) بٹھاتے ہیں۔ لیکن مقصد کسی نہ کسی شکل میں چودھراہٹ قائم کرنے کی کوشش اور دولت کی نمائش کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ان میں سے زیادہ تر کو سیاست کی تاریخ، پاکستان کے وسائل اور مسائل کا چند رٹی رٹائی، سنی سنائی اور اخبار میں پڑھی پڑھائی باتوں سے زیادہ کا نہ علم ہوتا ہے نہ ادراک۔

اس میں شک نہیں کہ ان تمام پاکستانیوں کی جڑیں، جائیدادیں اور کچھ مسائل پاکستان سے ہمیشہ وابستہ رہتے ہیں۔ ضرورت ان کو انتخابی عمل میں حصہ دلوانے سے زیادہ اس امر کی ہے کہ قونصلیٹ کی سطح پر ان کی بہتری کا سامان کیا جائے۔ قونصل جنرل اور سفیر مقامی پاکستانی نژاد لوگوں کا نمائندہ بن جائے۔ عزیز دوست اور بڑے بھائی عمران علی چوہدری جو اب تک بارسلونا میں پاکستان کے قونصل جنرل ہیں اور عنقریب مشرق وسطی کے ایک ملک میں سفیر ہوں گے اس کی بہت شاندار مثال ہیں۔ جنہوں نے بابو بن کر نہیں بلکہ بڑا بھائی بن کر اس طرح بارسلونا میں مقیم پاکستانیوں کی خدمت کی کہ کوئی ممبر اسمبلی بھی کیا کرتا ہو گا۔ ساتھ ہی اسلام آباد میں بھی سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت (یا کوئی اور متعلقہ وزارت) کو فعال کیا جائے کہ وہ ان سفارت خانوں کے ذریعے آنے والے مسائل کا فوری حل تلاش کرے اور ضرورت پڑنے پر متعلقہ اسمبلی میں قانون سازی کا فریضہ بھی سرانجام دے۔ یہ بیرون ملک پاکستانیوں کے حق رائے دہندگی سے زیادہ بہتر اور ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments