انصاف کیا صرف قبر میں ہے؟


یہ واقعہ میں نے چھٹی یا ساتویں جماعت میں سنڈے میگزین میں پڑھا تھا۔ اخبار کا نام یاد نہیں کیونکہ دو نامور جرائد گھر آتے تھے اور دونوں ہی پڑھے جاتے تھے۔ ماجرا کچھ یوں ہے کہ ایک صاحب نے جو غالباً صحافی تھے، سیالکوٹ سے اپنی تحریر بھیجی تھی۔ اس تحریر کا موضوع قبر کے عذاب پر مبنی تھا۔ لکھنے والے کی نیت پر شک کر رہی ہوں نہ کہانی میں دیے جانے والے سبق کی نفی کرنا چاہتی ہوں۔ ان کی کہانی میں اپنے الفاظ میں لکھ رہی ہوں۔

مجھے ایک جگہ جنازے پر جانا پڑ گیا۔ مرحوم ضعیف تھے جن کی طبعی موت واقع ہوئی۔ ان کی تدفین کا وقت ہوا تو میت جب لحد میں اتاری اور قبر پر مٹی ڈالی جانے لگی تو قبر کے اندر سے ہڈیاں چٹخنے کی آوازیں آنے لگیں۔ ایسے معلوم ہوتا تھا کہ زمین میت کو اپنے اندر کھینچ رہی تھی، آواز کی شدت زیادہ تھی جب ہی موقع پر موجود تمام افراد نے سنی اور توبہ تائب شروع کردی۔ ہڈیاں ٹوٹنے کی آواز  نے رقت طاری کر رکھی تھی۔ خوف اور دہشت سے لوگ قبر سے دور ہٹنا شروع ہو گئے، کسی نے آگے بڑھ کر دیکھنے کی جرآت تک نہ کی۔ واپسی پر مجھے بے چینی تھی اور تجسس ہو رہا تھا کہ آیا مرحوم نے ایسا کون سا گناہ کیا ہو گا کہ عذاب الٰہی کا اس طرح حقدار ٹھہرا۔ میں نے کچھ روز بعد مرحوم کی بیوہ سے ملاقات کی ٹھان لی تاکہ کچھ تو معلوم ہو سکے کہ ماجرا کیا تھا۔

ایک روز میں بیوہ سے ملنے ان کے یہاں گیا۔ ان کی اور ان کے شوہر کی زندگی بارے سوالات کیے ۔ مجھ پر جو حقیقت آشکار ہوئی میں بتانے سے قاصر ہوں۔

بیوہ کی رودار ان کی زبانی سن لیجیے۔

”میری والدہ کا میرے بچپن میں انتقال ہو گیا تھا۔ میں ماں باپ کی اکلوتی ہی اولاد تھی۔ ہمارے گھر میں اور کوئی دوسرا فرد بھی نہیں تھا تو میں اکیلی ہی تھی۔ والدہ کے انتقال کے بعد میرے والد نے مجھے آ کر یہ بتایا کہ اب سے میں ان کی بیوی ہوں، جیسے امی ان کی بیوی تھیں۔ کچھ عرصے بعد ہی ہم نے آبائی گاؤں چھوڑ دیا اور نئے شہر آ کر آباد ہو گئے۔ وہ میرے والد تھے، پھر شوہر بن گئے۔ پہلے میں ان کی بیٹی تھی۔ لے پالک نہیں، ان کا اپنا خون۔ پھر میں ان کی بیوی بن گئی تو اب ان کی بیوہ“ ۔

ہمارے بہت سے ہمیں ناپسند کرنے والے دوست احباب کو لگتا ہے کہ جنسی تشدد کوئی نئی ایجاد ہے۔ ان کے نزدیک، اول تو یہ ہوتا نہیں جس طرح مجھ جیسے لوگ اس کو پیش کرتے ہیں۔ دوسرا کہ یہ اتنی بڑی تعداد میں نہیں ہوتا، تیسرا یہ سب جدید دور کے شیطانی شاخسانے ہیں جو صرف ملک و قوم اور روایات کو بدنام کرنے کے مقصد سے نکالے جاتے ہیں۔ چوتھا، یہ سب نامحرموں سے بے پردگی کا نتیجہ ہے۔

اس بیٹی نے نجانے والد سے کم عمری کون سی بے پردگی کی ہوگی جو اس کو تاعمر سزا ملی، یہ بات لکھنے والے نے تحریر نہیں کی تھی مگر سچ یہی ہے کہ جنسی تشدد ہر پدرسرانہ معاشرے اور دور میں ہوتا رہا ہے۔ پاکستان کے ہر صوبے میں ایف آئی آرز اور پولیس رپورٹس ہزاروں کی تعداد میں گھریلو یا معلوم جنسی تشدد جو بیٹیوں / بھانجیوں /بھتیجوں / چچا و ماموں زاد اور دیگر قریبی رشتے دار خواتین اور کم عمر بچے بچیوں کے خلاف ہوتا ہے موجود ہیں۔ اس نوعیت کا جنسی تشدد/ریپ دنیا بھر میں سب سے کم درج ہوتا ہے۔ پدرشاہی نظام میں خواتین اور بچوں کی ذمہ داری مردوں پر ہوتی ہے اور اگر خاندان کا سربراہ یا دیگر افراد اس میں ملوث ہوں تو معاملات کا منظر عام پر آنا ناممکن ہی رہتا ہے۔ ایک اجنبی کے خلاف مقدمہ لڑنا اپنے خلاف مقدمہ لڑنے سے کئی گنا آسان ہے۔

جنسی تشدد کا کوئی نام تھا نہ اس کی کوئی آواز۔ جنسی تشدد کی شناخت اور گونج آج بھی بہت کم ہے۔ ایک ایسا انسانیت سوز جرم جو کہ عام ہے مگر اس کا تذکرہ نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ معاشرہ خود اس میں کس طرح ملوث ہے۔ اس پر گفتگو اس قدر کم تھی کہ لوگ اس پر بات کرنے والوں کی نیت پر شک، کردار میں نقص اور متاثرین کے تکلیف کو ان کا جرم ثابت کرنے پر تلے ہیں۔ صرف آج سے دو برس قبل، عورت مارچ لاہور کے ایک بڑے پوسٹر پر ایک متاثرہ لڑکی نے اپنے سگے نانا کے ہاتھوں کم عمری میں جنسی تشدد کا نشانہ بننے پر تحریر لکھی تو لوگوں نے عورت مارچ کو نانا اور نواسی کے رشتے کی توہین کے الزامات دینا شروع کیے ۔

چند لوگوں نے متاثرہ خاتون کو اپنے نانا کے ساتھ تعلق استوار کرنے پر بے حیائی کی توہمات لگائی، آیا جیسے وہ لڑکی اپنی تکلیف نہیں، خوشی بیان کر رہی ہو۔ جبکہ حقیقت اس کے مکمل برعکس تھی۔ ایک لڑکی جو اپنے ساتھ ہونے والے جرم پر اپنے ہی گھر میں آواز نہیں اٹھا سکتی تھی، اس نے خاموشی سے دنیا کو اپنے مجرم کا بتایا تھا۔ جس کو کبھی ریاست گرفتار کرسکے گی نہ معاشرہ کسی ایسے مرد کی نفی کرے گا۔

ہمارے ملک میں جنسی تشدد کی جب جب بات ہوتی ہے، وہ اجنبی ریپ کے گرد ہی رہ کر تھم جاتی ہے۔ اکثر صرف حیا کی خاطر سرے سے ریپ یا زیادتی کی خبریں نشر نہیں کی جاتی اور اگر نشر بھی ہوں تو ان میں زیادہ تر اجنبی ریپ کی خبریں ہی نشر کی جاتی ہیں۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں بچوں اور لڑکیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے جنسی تشدد ان کے اپنے گھروں اور رشتے داروں کے گھروں میں ہوتا ہے۔ پاکستان میں اس کے اعداد 66 ٪ تک جاتے ہیں۔ خواتین اور بچے اپنے ہی خون کے رشتے داروں کے ہاتھوں زیادہ غیر محفوظ ہیں جتنے کسی اجنبی سے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں منظر عام پر آنے والے جنسی جرائم کے واقعات میں اجنبیوں کے ہاتھوں جنسی تشدد کی شرح بائیس فیصد ہے۔ جنسی تشدد خالصتاً طاقت کا وہ جرم ہے جو موقع اور محل کم اور کمزور کی بے بسی زیادہ دیکھتے ہیں۔

بچوں اور کم عمر بالغ لڑکیوں کو اس بات کا ادراک نہیں ہوتا کہ جنسی زیادتی اور پیار کرنے میں فرق کیا ہے۔ گھر اور رشتے داروں کے ہاتھوں متاثرین زیادہ کمزور اور بے بس محسوس کر سکتے ہیں۔ ایسے واقعات خاندان کے اندر کی بات سمجھ کر دبانا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ اگر کبھی رپورٹ ہو بھی جائیں تو صلح کے دروازے اکثر ادارے بند نہیں ہونے دیتے یا خود متاثرہ بچوں اور خواتین کے خاندان کے مرد ورثاء لین دین کر کے عزت و ناموس کے نا پر بات ختم کر دیتے ہیں۔

میرا سوال ابھی بھی وہی ہے کہ آج سے پندرہ برس قبل یا اس سے پہلے یہ بات کیونکر اہم نہ تھی کہ زانی مجرم چاہے کوئی بھی ہو اپنا یا پرایا، اس کے جرم کی سزا ہم قبروں میں ہی کیوں تلاش کرتے ہیں؟ انصاف دلانا اس قدر کٹھن یا بے معنی ہے کہ مجرم کی طبعی موت کا انتظار کیا جائے؟ جنسی تشدد کو حیا کا مسئلہ بنا کر اس پر کیوں چپ رہا جائے؟ کیا متاثرین قیامت کے منتظر رہیں؟ ان کی زندگیوں میں ان کو انصاف پہنچانا اتنا غیر اہم ہے تو اخلاق، اقدار، تہذیب کے نام نہاد ادارے بھی ڈھا دیے جائیں جہاں ایک متاثرہ خاتون یا طفل جنسی درندے کو دنیا کے سامنے للکار نہیں سکتے، اس کی عاقبت اپنے ہاتھوں سے لکھ نہیں سکتے یا اس کو کیفر کردار تک پہنچتا نہیں دیکھ سکتے۔

ایک زندہ انسان کی بے بسی کی معراج یہی ہے کہ اس کا مجرم اس کی آنکھوں سامنے منڈلاتا پھرے؟ ایک مظلوم، بے آواز عورت اور بچے کو اپنے ہی مجرم کے روبرو زندگی اسی حالت اور اذیت میں گزارنی پڑے، جہاں اس پر ہوتے ظلم کو ظلم کا نام نہ دیا جا سکے بلکہ اسی کی کردار کشی اور شخصیت سلبی ایک معمول ہو؟ ایک زندہ مظلوم کی زندگی مانند لحد تو بنانے میں نظام اور اس کی بنیادیں اپنا پورا کردار نبھاتی ہیں، مگر ان کو یہی ریت اور رواج یقین دلاتا ہے کہ دنیا میں نہ سہی قبر میں ضرور انصاف ہو گا۔

اس واقعہ میں دیا جانے والا سبق یہی ہے کہ جو یوں گھریلو جنسی تشدد کرتا ہے وہ اللہ کی پکڑ میں ضرور آتا ہے۔ بے شک ہر ظالم ضرور اللہ کی لاٹھی کا نشانہ بنتا ہے۔ ہمیں بس یہ بتایا جاتا ہے کہ ظالم انصاف کے کٹہرے میں ضرور آتا ہے۔ خدا کرے کہ انصاف اور تحفظ دینے والے اس قدر مضبوط ہوں کہ ظالم قبروں سے پہلے دنیا میں عین مظلوم کی آنکھوں سامنے انصاف پائیں، اس ظلم و جبر کا حساب دیں جو طاقت اور گھمنڈ کے زور پر روا رکھتے آئے ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments