ٹھپا یا بٹن


کہاوت، ضرب المثل، محاورات، حکایت اور اکھان کسی بھی زبان میں ہوں، ان کے پس پردہ اہل فکر و دانش کے سالہا سال کے مشاہدات و تجربات مضمر ہوتے ہیں۔ گویا پل دو پل کی بات نہیں ہوتی بلکہ یہ نصف صدی کے قصوں کے سر و اسرار سے جنم پذیر ہوتے ہیں۔ ایسے ہی انگریزی زبان میں ایک محاورہ ہے کہ seven days are too much in politics۔ اس محاورہ کا عملی اطلاق حالیہ ملکی سیاسی صورت حال میں پی ٹی آئی کی حکومت کے اس عمل میں دیکھنے میں ملا جس میں عمران خان کی حکومت نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال اور اوورسیز کو ووٹ دینے کے حق کا ترمیمی بل منظور کروا کے دکھایا۔

یہ ترمیمی بل پی ٹی آئی حکومت 032 اور 221 کے فرق سے منظور کروانے میں کامیاب قرار پائی۔ متذکرہ انگریزی محاورہ پیش کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ابھی چند روز قبل کی ہی بات ہے کہ جب تمام حالات و واقعات اور سیاسی حالات اپوزیشن کے حق میں دکھائی دینا شروع ہو گئے تھے۔ کیونکہ حزب مخالف کی صفوں میں اتحاد و یگانگت، ان کے چہروں کی مسکراہٹوں، بیانات اور انداز گفتار سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہو پا رہا تھا کہ اگر ایسی صورت حال میں حکومت ای وی ایم اور اوورسیز کا بل پارلیمنٹ میں پیش کرتی ہے تو تو یہ ان کی سیاسی موت بھی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ مخالفین کا یہ خیال تھا کہ ان کے پاس اس وقت سیاسی نمبرز زیادہ ہیں اور پارلیمنٹ میں جب کبھی بھی کوئی بل یا قانون پاس کروانا ہو اس کے لئے یہ نمبرز بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔

ویسے گزشتہ چند روز سے حزب مخالف کی طرف سے جیسے بیانات ملکی سیاست میں چل رہے تھے ان سے تو اندازہ لگانا کسی بھی ذی شعور کے لئے مشکل نہیں تھا کہ ملکی سیاسی فضا ایک بار پھر سے اپوزیشن کے حق میں چلتی دکھائی دینا شروع ہو چکی تھی۔ کیسے کیسے سیاسی بیانات پڑھنے اور سننے کو مل رہے تھے، جیسے کہ میاں صاحب نے معافی مانگ لی ہے، بس وہ اس بات پر مضر ہیں کہ انہیں چوتھی بار وزیر اعظم بنایا جائے، گیٹ نمبر چار سے عندیہ مل چکا ہے، چھوٹے اور بڑے میاں ایک ہی سیاسی پیچ پر وغیرہ وغیرہ۔ لیکن

یونہی مشترکہ پارلیمنٹ میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور اوورسیز کو ووٹ ڈالنے کے حق کا ترمیمی بل بابر اعوان کی طرف سے مشترکہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں پیش کیا گیا، تو حزب مخالف کے رویے اور شور و ہنگامہ سے مجھے غلام علی کی وہ غزل یاد آ گئی کہ

ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے ڈاکا تو نہیں ڈالا چوری تو نہیں کی ہے

اب آتے ہیں ای وی ایم اور اوورسیز ووٹنگ کی طرف، کیونکہ اصل مسائل تو کسی بھی قانون اور بل کی منظوری کے بعد اس کے اطلاق پر منظر عام پر آتے ہیں۔ جیسے کہ ای وی ایم اور انٹرنیٹ ووٹنگ کا اطلاق الگ الگ کیسے ممکن ہو گا۔ الیکشن کمیشن اس پر عمل پیرائی کو تیار بھی ہے کہ نہیں، کیونکہ الیکشن کمیشن وہ ادارہ ہے جو کہ انتخابات کے عمل کو عملی جامہ پہناتا ہے۔ اور پھر بل کی منظوری کے بعد اپوزیشن کی طرف سے جس طرح کے بیانات سننے کو مل رہے ہیں کیا ایسی سیاسی صورت حال میں ممکن ہو پائے گا۔ کیونکہ بلاول نے کہا ہے کہ ہم ابھی سے آئندہ الیکشن کو نہیں مان رہے، یا پھر معاملہ کو عدالت میں لے جایا جائے گا۔

بطور سیاسیات کے طالب علم کے میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ مشترکہ پارلیمنٹ سے جو بل یا قانون ایک بار پاس ہو جائے اور اس پر صدر مملکت دستخط اور مہر ثبت کر دے تو ان کے خلاف جانا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ کیونکہ جو بل یا قانون پارلیمنٹ میں منظور ہو جائے اسے پھر پارلیمنٹ میں ہی رد و قبول کیا جا سکتا ہے۔ یہ بات بلاول بھی جانتے ہیں۔ لہذا عوام کو بے وقوف بنانے کی بجائے، اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں، اپنی پارٹی کو سیاسی طور پر مضبوط کریں، ووٹنگ میں اضافہ کریں، الیکشن میں جائیں، اپنی جیت کو ممکن بنائیں اور پھر پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت سے کسی بھی قانون کے رد و قبول کو عمل میں لائیں۔ لیکن یہ سب تب ممکن ہو گا جب ان کی حکومت آئے گی۔ فی الحال سیاسی صورت حال بتا رہی ہے کہ

نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی

کیونکہ حالیہ سیاسی صورت حال سے تو ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ تیل اور رادھا دونوں پی ٹی آئی کے احاطہ و کنٹرول میں ہے۔ مہابت کے ہاتھ میں اگر چابک ہو گا تو ہاتھی بھی اسی کی بات مانتا ہے۔ لہذا یہ بات ماننے میں اپوزیشن کو کوئی عذر نہ ہو نا چاہیے کہ اس وقت سیاسی مہابت عمران خان ہے۔ اب رہی بات عدالت میں جانے کہ تو عدالت کا تین رکنی پینچ پہلے ہی ووٹنگ مشین کے استعمال کے حق میں اپنا فیصلہ سنا چکا ہے۔ یہ بات سب سیاسی حلقے جانتے ہیں، جب سبھی یہ بات جانتے ہیں تو پھر بلاول کے علم میں یہ بات کیوں نہیں ہے؟

بالفرض اگر وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے بھی ہیں تو عدالت اپنے ہی فیصلہ کے خلاف کیونکر جائے گی۔ اب رہ جاتی ہے بات الیکشن کمیشن کی، کیونکہ یہ وہ ادارہ ہے جس نے ملک میں انتخابات کے عمل کو صاف شفاف بنانے میں اپنا آئینی کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ معاملہ پہلے بھی الیکشن کمیشن کے پاس جا چکا ہے اور اس ادارہ نے اپنے تحفظات بھی پیش کر دیے ہیں۔ اور وہ یہ ہیں کہ ووٹنگ مشین کے اطلاق کے لئے وقت بہت کم ہے۔ کیونکہ اتنے قلیل وقت میں ووٹنگ مشین کے اطلاق کو ممکن نہیں بنایا جا سکتا۔ لیکن بات سیدھی سی ہے کہ جب میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی، یعنی جب عدالت فیصلہ سنا دے اور حکومت کم وقت میں بھی ووٹنگ مشین کے اطلاق کی حامی بھر لے تو الیکشن کمیشن کیا کرے گا۔

اگر بین الاقوامی سیاسی و معاشی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو پوری دنیا ٹیکنالوجی کی طرف منتقل ہوتی جا رہی ہے۔ نہ جانیں ہمارے سیاستدانوں کا میا مسئلہ و معاملہ ہے کہ انہیں جدیدیت سے گھبراہٹ ہو رہی ہے۔ ہر سیاستدان کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اگر اس حکومت سے کوئی کمی کوتاہی رہ جاتی ہے تو آنے والی حکومت کو آئندہ الیکشن میں انہیں دور کرنا چاہیے۔ اس طرح جمہوری عمل سے ملک میں بہتری اور سیاسی استحکام ممکن ہو سکے گا۔ اگر ایسا نہیں تو ہمیں مان لینا چاہیے کہ اب ٹھپا نہیں بلکہ بٹن کام کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments