وفا کا راہی


*جو نگاہ خرد میں ہوں انمول
ایسے موتی محیط دل سے اچھال
میرے نزدیک شاعری کیا ہے
حسن الفاظ اور حسن خیال

گذرتا وقت جہاں انسانی زندگی میں بدلاؤ لاتا ہے وہاں شعر و ادب بھی نئے سانچوں میں ڈھلتے ہیں۔ یہی سب اردو شاعری کے ساتھ بھی پیش آیا۔ روایات کی زنجیروں میں جکڑی اردو شاعری آہستہ آہستہ بغاوت و انقلاب کے پھریرے اڑانے لگی ہے جکڑ بندیوں سے آزاد ہو کر آزادی کی راہوں پر چل نکلی ہے۔ اردو کے کلاسیکی شعراء نے شاعری کو جو آن بان عطا کی وہ وقت کے ساتھ ساتھ حالات ماحول اور تغیرات کے خوشگوار تجربات سے ہم آہنگ ہوتی نئی منزلوں کی طرف رواں دواں ہے۔ اردو شاعری میں صرف ہیئت کی سطح پر نہیں بلکہ اسلوبیاتی سطح پر بھی تبدیلیاں آئی ہیں۔

ضلع لیہ اہل دانش و حکمت کی سرزمین ہے۔ یہاں کے باسیوں کی نمایاں کارکردگی کا اندازہ تمام شعبہ ہائے زندگی کے ساتھ ساتھ فنون لطیفہ اور شعر و ادب پر دسترس دیکھ کر بخوبی ہوجاتا ہے۔ یہاں کے باسی اپنے ذہنوں میں اپنی زمین جیسی زرخیزی اور دلوں میں دریائے سندھ کی وسعت اور گہرائی رکھتے ہیں۔

ریاض راہی کی شاعری کی کئی جہتیں ہیں۔ وہ ترقی پسند تحریک سے متاثر ہیں اور ادب کا بنیادی فریضہ طبقاتی شعور کو اجاگر کرنا سمجھتے ہیں۔ کسانوں اور مزدوروں کے حق میں اور استحصالی نظام کے سخت خلاف ہیں

*صرف محنت سے درخشاں ہے جمال ہستی
دست مزدور پہ کیوں ہے میری بیعت سمجھو

”دیدہ بے خواب“ ریاض راہی کا نیا مجموعہ خیال ہے۔ راہی اپنے اردگرد جو کچھ دیکھتے ہیں اسے اپنی شاعری میں بیان کر دیتے ہیں۔ وہ انسان دوست کتاب دوست آدمی ہیں۔ راہی کے کلام کی بڑی خوبی موضوعات کا تنوع ہے۔ وہ نہایت خوبصورتی سے مختلف موضوعات کو منظوم کرتے ہیں۔ ریاض راہی کے کلام میں حسن کا خیالی یا تصوراتی رجحان نہیں ملتا وہ حقیقت کے شاعر ہیں الفاظ کا محتاط چناؤ انہیں حساس اور دردمند انسان ثابت کرتا ہے۔ روایتی اردو شاعری میں محبوب کا تصور شاعر کے لیے غم کا باعث بنتا ہے مگر راہی وہ خوش بخت شاعر ہیں جو محبوب کے ہاتھوں سے بنی چائے سے لطف اندوز ہوتے ہیں

*خوش نصیبوں کو دل و جان سے بھائے چائے
اے خوشا بخت! وہ میرے لیے لائے چائے

ثنائے ربی اور محبوب ربی کے ذکر خیر سے شروع ہونے والا مجموعہ غزلوں نظموں فردیات قطعات کے ساتھ ساتھ آل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی محبت سے لبریز ہے۔ وطن اور اہل وطن کی محبت اور دوستوں کا خلوص بھی راہی کے کلام کا موضوع ہے۔

انسان اپنی تمام تر خطاؤں کے باوجود رب کائنات کے سامنے اس یقین کے ساتھ سربسجود ہوتا ہے کہ وہ غفور الرحیم ستار العیوب ہے

ائے خدائے مہرباں! تیرا سہارا ہے بہت
شان غفاری کہاں اور پر خطا راہی کہاں
خدائے بزرگ و برتر نے اس کائنات کو اپنے حبیب کے لیے آراستہ و پیراستہ کیا
*کون و مکاں کو آپ نے بخشا ہے اعتبار
اور رونق حیات کا ساماں بھی آپ ہیں

انسان جس جگہ رہتا ہے اس کی محبت اس کے رگ و پے میں خون کے ساتھ ساتھ دوڑتی ہے۔ اپنے علاقے سے گہرا تعلق فطری امر ہے اور لیہ تو ایسا شہر ہے جو کہیں سے بھی آیا یہیں کا ہو رہا

*یہ سندھ کے دریا کے کنارے ہوا آباد
اور شرق میں تاحد نظر تھل کی ہے بنیاد
پابند روایات تو ہے فکر میں آزاد
گویا یہ حقیقت میں ہے مجموعہ اضداد
فطرت کے دھنک رنگ سے سرشار ہے لیہ
ایثار و محبت سے ثمر بار ہے لیہ

وطن اور اہل وطن سے محبت کرتا شاعر جب آستینوں میں خنجر چھپائے کچھ دوست نما چہرے دیکھتا ہے تو جواب میں تلوار اٹھانے کی بجائے ایک دوست کی طرح محبت سے سمجھاتا ہے

*تم نے غیروں سے نبھائی تو ملی رسوائی
اپنی مٹی سے اب اے دوست وفا کر دیکھو

ریاض راہی کی شاعری کلاسیکیت اور جدیدیت کا نیا رنگ لیے ہوئے ہے جو خوب صورت تشبیہات و استعارات سے سجا ہے۔ راہی بلند آہنگ نہیں دھیما اور نپا تلا لہجہ رکھتے ہیں۔ وہ پرسکون انداز میں اپنی بات قاری تک پہنچاتے ہیں۔ ان کی شاعری میں کیف آور اور اثر انگیز غنائیت اور موسیقی ہے۔ انداز دھیما اور دلگداز ہے اور لب و لہجہ پرسوز و شیریں۔ وہ چھوٹی بحر میں بھی انسانی جذبات کو نہایت خوبی سے بیان کرتے ہیں

* پتھر دل روئی کا گالہ
ہم کو پڑا اس شخص سے پالا

ریاض راہی کی شاعری کا کلاسیکی انداز انہیں شاعری کی روایت سے جوڑے رکھتا ہے وہ اسی سادگی سے محبوب کا ذکر کرتے ہیں جو اردو شاعری کی خوبصورتی ہے

*اب رمز و کنایہ میں آزار کہا جائے
ان کے خم ابرو کو تلوار کہا جائے
ان نین کٹوروں سے پیتے ہیں مے الفت
کیا خوف جو راہی کو مے خوار کہا جائے
روایتی عاشق صابر نہ ہو تو سلسلۂ عشق سے باہر سمجھا جائے گا
*پوچھو نہ مجھ سے حسن قناعت کی برکتیں
قطرہ میری نگاہ میں قلزم ہے آج کل
*ببول راہ بھی احسان کرتے ہیں مسافر پر
کبھی خار مغیلاں کی ضرورت ہوہی جاتی ہے
*زندگی موت کی علامت ہیں
اور کیا چیز ہیں فراق و وصال

شاعر اپنے عہد سے براہ راست متاثر ہوتا ہے وہ حالات و واقعات پر صرف نظر نہیں رکھتا بلکہ آواز بھی بلند کرتا ہے۔ تیسری دنیا کے مسائل اور ان کی حل سے صرف نظر کرنا ارباب اختیار کا شیوہ رہا ہے جس کا ردعمل اردو شاعری کا انقلابی رنگ ہے۔ راہی بھی ایسے انقلاب کی راہ دیکھتے ہیں جس میں عوام عزت و وقار سے جی سکیں۔

* اتار مسند شاہی سے اب ستم گر کو
تری ہے قوت بازو بہت موثر کھینچ
اب انقلاب زمانہ کا ہے پیام یہی
بسوئے دار و رسن گردن ستم گر کھینچ
* اب صبح نو کو سیاہ رات کھا گئی
آزادی وطن کا پھریرا اداس ہے

معاشرے میں پھیلے معاشی اور مذہبی استحصال بے ایمانی اور نفرت کو ختم کرنا ان کی خواہش ہے وہ جمہور کی حکمرانی چاہتے ہیں

*سیل جمہور سے بچتا نہیں تخت شاہی
جب کبھی تیغ بہ کف پیر و جواں بولتے ہیں
*عوام برسر پیکار تخت شاہی سے
نظام زر ہوا جاتا ہے اب خس و خاشاک

راہی کی شاعری کا ایک عنصر مارکسیت بھی ہے۔ بھوک ننگ افلاس جرائم استحصال بیماری عدم مساوات سامراجیت سرمایہ داریت اور ظلم و بربریت کے خلاف ان کی شاعری میں غم و غصہ نظر آتا ہے۔ مارکسزم کا۔ موضوع محنت کش طبقہ اور اس سے جڑے مسائل ہیں۔ نظام سرمایہ داری میں غریب مزدور طبقے کے لوگ کولہو کے بیل کی طرح پستے ہیں۔ تجوری کی سفاکیت مزدوروں کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیتی ہے۔

* نظام زر کا انوکھا یہ جبر ہے راہی
امیر شہر کی خاطر غریب مرتا ہے
آئے خواجگی سنا ہے کہ مزدور کا لہو
تیرے چراغ شب کو۔ فراہم ہے آج کل
*کچھ کے لیے دنیا میں بہت عیش جہاں ہیں
اور کچھ کو میسر نہیں اک نان جویں بھی
*میرے لیے سرو چراغاں کا ہے سماں
عشرت کدوں میں آ مری غربت تلاش کر
*محنت کشوں کے ہاتھ میں ذلت ہے بھوک ہے
یہ کیا جو اہل زر ہو وہ عزت مآب ہو

معا شی و سما جی نا انصافی کسی بھی معاشرے کو گھن کی طرح کھا جاتی ہے اور اس معاشرے میں محنت کش کم اور بھکاری زیادہ ہونے لگتے ہیں

*ہر طرف بھوک پیاس ہے سائیں
پھیلتا جا رہا ہے دست سوال
اور جس معاشرے میں عدل و انصاف اور برابری ہو وہاں امن ہوتا ہے
*اصول عدل اگر ہوں سماج میں یکساں
کسی سے جرم کا پھر ارتکاب کیسے ہو

زمانہ ہمیشہ قیامت کی چال چلتا آیا ہے۔ یہاں ہر دور میں ابن الوقتی کا چلن ر ہا ہے اس بات کا احساس راہی کو بھی ہے کہ کس طرح لوگ اپنے اغراض و مقاصد کے لیے اپنے پیاروں کو بھی دھوکہ دے جاتے ہیں

*نہ شکوہ سنج ہو گرگٹ کی نیرنگی سے اے ناداں
کہ ابن الوقت لوگوں سے سیاست ہو ہی جاتی ہے
*کیوں ہو رہا ہے محفل یاراں میں تو خجل
دامن پہ داغ تہمت و غیبت تلاش کر
*آب و ناں کے لیے ناموس گنواتے ہیں جب
مقتدر کے لیے جب پیراں مغاں بولتے ہیں

یہی بشر جب مقام بشریت پر فائز ہو تو مقام پیمبر پر متمکن ہوتا ہے یہ بشر ہی ہے جو سدرۃ المنتہیٰ سے بھی آگے کی خبر لاتا ہے

*ہے میری دسترس میں سب خدائی
زمیں کیا آسماں کیا کہکشاں کیا
*جو نور بصیرت کو اب عام کرے ہر سو
اس مرد قلندر کو اوتار کہا جائے
*ہے فقط اوصاف سے دنیا میں انساں کا
وقار
عظمت سر بھی رہے پیش نظر دستار بھی
*آئینہ دل کا نہیں شفاف تو کچھ بھی نہیں
دوستو! دیر و حرم بھی سبحہ بھی زنار بھی

مذہب زمانہ قدیم سے انسانی ذہن کی تشکیل کرتا آیا ہے۔ مطلب پرستوں نے مذہب کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ ریاض راہی کی شاعری میں روایتی مذہبی بیانیے کی مخالفت نظر آتی ہے وہ جنت کی راحتوں اور حور و پری کے قصوں میں الجھنے کی بجائے انسان سے محبت کے قائل ہیں

*انساں کی محبت سے میں سرشار ہوں راہی
انداز لبھائے مجھے کیا حور و پری کا

راہی مذہب کے سیاسی استعمال سے بیزار نظر آتے ہیں۔ مذہب کے نام پر کشت و خون نے انسان کے دکھوں میں اضافہ ہی کیا ہے *مذہب کے نام پر بھی بہایا گیا لہو

کعبہ ملول ہے تو کلیسا اداس ہے
*اب جس کی خدائی میں کہیں بھوک نہ دیکھوں
میں قریہ بہ قریہ وہ خدا ڈھونڈ رہا ہوں
*یہی اثاثہ ہے مسلم کا اس زمانے میں
کہ اب ہے پائنچا ٹخنوں پہ جیب میں مسواک
نئی تہذیب کے فریب ہرطرف بازو پھیلائے کھڑے ہیں اور انسان تیزی سے رنگ بدلتی

دنیا میں تنہا ہوتا جا رہا ہے اس بات کا احساس راہی کو بھی بخوبی ہے رنگ بدلتی دنیا اقدار سے دور ہو رہی ہے

*کتنا شب ناک سویرا ہے نژاد نو کا
ان کی آنکھوں میں جھلک دیکھ سرابوں جیسی
*مسجود کائنات تھا جو علم سے کبھی
تزئین بزم جہل وہ آدم ہے آج کل

انسانی ذہن کا ارتقاء اسے عمل پر ابھارتا ہے۔ تغیر زمانے کی خوبصورتی ہے۔ عمل تخلیق بامقصد ہو تو انسانی قدم خلاؤں کی خبر لاتے ہیں۔ علم عمل اور جستجو انسانی وصف ہیں۔ ریاض راہی کیونکہ استاد بھی ہیں اور شاعر بھی اس لئے وہ زندگی کو سائنسی و علمی نظر سے دیکھتے ہیں

*وہ انفجار کا لمحہ تو اک قیامت تھا
مگر اسی کے تعامل سے کائنات بنی
*نہ ہو حسن عمل جب تک مسلسل
کریں گے ورد و تسبیح و اذاں کیا
*آدم کو علم عالم اسماء دیا گیا
گویا ہیں ہم حقیقت اشیاء لئے ہوئے
*وصال و ہجر و گل و عندلیب و صید فگن
خرد افروز ہیں یہ سب علامتیں کیا کیا
نور بصیرت ہو تو بصارت بھی نئی نئی دنیائیں تلاش کر لیتی ہے
*ہو زمیں تنگ تو کیا وسعت افلاک تو ہے
عزم نو لے کے چلو معنی ہجرت سمجھو

ٹیکنالوجی کی ترقی پر تمام انسانیت خوش تھی اور اسے ترقی و کامیابی کی معراج سمجھا جا رہا تھا آج اسی ٹیکنالوجی نے انسان کو اپنے بس میں کر لیا ہے۔ فن اور فنکار کی قدرومنزلت گھٹ گئی ہے اور میڈیا پر صرف اداکاروں کا قبضہ ہے

*اب داد صرف شعر و سخن پر کہاں ملے
شاعر کو چاہیے وہ اداکار بھی تو ہو
*آج تصویریں مقدم ہو گئیں تحریر پر
علم و دانش کا ذریعہ تھا کبھی اخبار بھی

ریاض راہی کی شاعری میں معانی کے کئی جہاں پنہاں ہیں۔ اپنے پڑھنے والوں پر یہ معاملات مختلف انداز میں اترتے ہیں۔ راہی اپنے مضامین میں توازن برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ وہ ایک درویش انقلابی ہیں جو اپنی فکر میں آزاد ہو کر بھی روایات و اقدار سے باہر نہیں نکلتے۔ ان کا نعرہ مستانہ تو ہے دیوانہ نہیں۔ ان کی للکار میں جذب

ہے مگر وہ مجذوب نہیں۔ وہ شر کی نقاب کشائی کرتے ہوئے خیر کا دامن تھامے رکھتے ہیں۔ وہ سماجی بد صورتیوں پر قلم اٹھاتے ہوئے خوبصورتیوں کو نظر انداز نہیں کرتے۔ ان کی شاعری امید کی شاعری ہے وہ سماجی معاشی اور معاشرتی ناہمواریوں پر دکھی ضرور ہیں نا امید نہیں۔

چند اشعار دیکھئے
*صدمات بہت جھیلے ہیں دنیا میں بشر
نے
ناکافی تلافی کو ہے فردوس بریں بھی
*انا کا قہر ہو یا وسوسوں کا زہر قاتل ہو
دلوں میں جب اتر جائے عداوت ہو ہی جاتی ہے
*زینت دار ورسن پھر کوئی منصور ہوا
رسم بے باک یہ زندہ ہے پرانی تو نہیں
*چمن میں پھول پہ جیسے اترتی ہے شبنم
خیال شعر بھی دل پر یونہی اترتا ہے
*نقش و نگار دست و پا اپنے لہو کا ہے صلہ
خون جگر کے سامنے رسوا ہوئی حنا کہ یوں
*زمیں کے چاک پہ کب سے پڑا ہوا ہوں میں
ستم تو یہ کہ کوئی دست کوزہ گر بھی نہیں
*عالمی گاؤں کنایہ ہے سنہری جال کا
الحذر! حربہ نیا ہے اب یہ استحصال کا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments