لمبے بال رکھنا گناہِ کبیرہ ہے!



جس معاشرے میں کوا غیر مسلم ہو وہاں لمبے بال رکھنا بھی عیب تصور ہوتے ہیں، اور اس تصور کے مصور کوئی اور نہیں معاشرے کے سیانے لوگ ہی ہو سکتے ہیں، لیکن کیا پتا یہ تھیوری مولویوں نے پیش کی ہو۔

زرا سن لیں جی پھر لوگ کہتے ہیں ہم مولویوں کی نہیں سنتے،

کہتے ہیں کہ لمبے بالوں کا چیر اگر درمیان سے نکالنا جائے اور پھر سر کے اوپر، ایک خاص قسم کی ٹوپی پہنی جائے تو وہ زلفیں کہلاتی ہیں جو جائز ہیں، لیکن دوسری طرف جس نے ایک طرف سے چیرا نکالا ہوا ہو، اور سر کے اوپر ٹوپی بھی نہیں پہنی ہوئی، تو وہ بال اسلام میں جائز تو ہیں لیکن مولویوں کے ہاں یہ اوباش لڑکوں کی علامت ہے اس لئے جس کو بھی ایسے روپ میں دیکھا جائے گا، اسے نٹ کہا جائے گا، اور اس کے ساتھ ایک عدد ڈھول لینے کا مشورہ بھی دیا جائے گا۔

ایسے حالات میں کون بالوں کو شتر بے مہار چھوڑ دے؟ لیکن میرے جیسا انسان جو حبیب جالب کی انقلابی سی شاعری کا مداح ہو، اور معاشرتی رویوں سے باغی ہو، وہ کہاں؟ ایسی پابندیوں کو مانے گا، وہ تو ایسی تمام دیو مالائی تعبیرات کو اٹھا کر ردی میں بیچ دے گا، اور ان پیسوں سے ”مرونڈہ“ کھا لے گا، ”مرونڈہ“ جس کی رے کے اوپر پیش ہے، پنجاب میں کھانے کے لئے کم اور مثال کے طور پر زیادہ استعمال ہوتا ہے، اس لئے میں آج کل سردی کے موسم میں دوبارہ بال لمبے رکھنے کا سوچ رہا ہوں، یہ سوچ کا لفظ احتیاطاً استعمال کیا ہے ورنہ بال تو گھوڑے کی پونچھ جتنے بڑے ہو چکے ہیں،

لیکن اب ایک بار پھر معاشرے کی آنکھیں میرے اوپر تھم سی گئی ہیں، ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے، اور پہلے بھی ہم ہی غلط ٹھہرائے گئے تھے، اور امید ہے، اس بار بھی ایسا ہی ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے، لیکن انجام ماضی جیسا نہیں ہو گا، کیونکہ اب کی بار ہم مکمل باغی ہو چکے ہیں،

ماضی میں جائیں، تو معاشرے کی چبھتی تنقید اور گھر والوں کی ناک بچانے کے چکر میں میں نے اپنے لمبے انتہا کے خوبصورت بالوں کو کٹوا دیا تھا، لیکن اب کی بار ہم سوچ رہے ہیں کہ دفاع تھوڑا جاندار ہونا چاہیے، لیکن اس بار ہم باغی بھی آخری درجے کے ہیں فرق نہیں پڑتا، کون کیا کہ رہا ہے، لیکن ہمارا دین اور اخلاقیات کچھ اور ہی سبق دیتے ہیں۔

دین میں مردوں کے لئے جائز حد تک لمبے بالوں کی کوئی ممانعت نہیں ہے، لیکن معاشرے میں اسے بے ہودگی شمار کیا جاتا ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک چیز کو دین مرد کے لئے جائز کہ رہا ہو، وہ کندھوں سے اوپر تک بال رکھنے کا حق دار ہے، چیر درمیان سے ہو یا کسی ایک طرف سے یہ دین کا موضوع ہی نہیں ہے، اور سر پر ٹوپی بھی ہو، یہ بھی دین کا موضوع نہیں ہے، تو پھر کیوں؟ لوگوں کو پابند کیا جا رہا ہے۔

کہتے ہیں اخلاقیات کی حدوں لمبے بالوں کی اجازت دے دیں، تو کوئی حرج نہیں، اب یہ اخلاقیات دین سے ٹکر لے گیں؟

یعنی اخلاقیات کب سے دین میں غلطیاں نکالنے لگے؟ یہ اخلاقیات کا مسئلہ نہیں ہماری اپنی انا کا مسئلہ ہے، میں جس معاشرے کا حصہ ہوں، یہ جاہلوں کی آماج گاہ ہے، اخلاقیات کی حدوں بھی ایسی طے کر لی ہیں کہ اخلاق خود دور بیٹھا ہنس رہا ہے، معاشرہ خود کو دین سے بھی زیادہ مہذب سمجھتا ہے، یہ ایسے ہی ہے کہ آج تک ہمارے گھر والوں نے مجھے کالے کپڑے نہیں پہننے دیے، حالانکہ دین کہیں بھی منع نہیں کرتا، یہ تو بس ہمارے گھر والوں کے مکتب فکر کے ہاں شاید ممنوع ہے، جسے وہ شریعت کہتے ہیں۔

کہتے ہیں بندہ کملا لگتا ہے، ماں باپ کی عزت کو نقصان ہوتا ہے، گھرانے کی تربیت پر شک ہوتا ہے، ذات کی عزت پامال ہوتی ہے، برادری میں ناک کٹ جاتی ہے، بندہ ناچیز سوال پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہے؟ ،

کہ خدارا صرف اتنا بتا دیں، یہ کس ناک کی بات ہو رہی ہے؟ کیا یہ وہی ناک ہے جس کو انہیں لوگوں نے بنایا ہے، جن کی وجہ سے اب یہ کٹ جائے گی!

اس معاشرے کی اخلاقیات صرف وہ ہیں جو دوسروں پر مسلط کی جا سکیں، اپنے لئے تو رائٹس کا لیبل لگا کر وہ ساری ناک جن کے کٹ جانے کا خطرہ ہوتا ہے بچا لیتے ہیں صرف ہمارے جیسے شریف، معاشرے کے حصار میں جینے والے اپنی ناک بچانے کے چکر میں، اپنی خواہشات کا گلا کاٹ کر کوڑے میں بھی پھینکا گوارا نہیں کرتے، حالانکہ جی ہم اپنے لئے رہے ہیں، لیکن حق پورا معاشرہ جتا رہا ہے، ماں باپ بھی اولاد کو غلام سمجھ کر حکم مسلط کر دیتے ہیں، صرف اور صرف اس لئے کہ لوگ کیا کہیں گے؟

لوگ یہی کہیں گے، کہ فلاں کے بچے نے مراثیوں جیسے بال رکھے ہوئے ہیں، تو کیا ہو گیا؟ مراثی انسان نہیں ہیں، ذات برادری سے باہر نکلیں، زیادہ زیادہ یہی کہ لیں کہ یہ آپ نے اپنے بچے کی کیا تربیت کی ہے؟ تو کہ لینے دیں یہ کون سی گولی ہے، جو لگتے ہی آپ مر جائیں گے، الٹا بچوں کا دفاع کریں، کہیں تربیت کو وہ کسی کی ماں بہن کو چھیڑ رہا ہے؟ گالیاں نکالتا ہے؟ یا جھوٹ بولتا ہے؟ یا پھر شراب پیتا ہے؟ یقین مانیں معاشرے کے پاس ایسے کسی بھی سوال کا جواب نہیں ہو گا، کیونکہ وہ اچھائی نہیں دیکھتا، معاشرہ ہمیشہ برائی دیکھتا ہے، کیونکہ ہمارا یہ معاشرہ تو ایک گند ہے، اور ایسا گند جس میں سفید فام کپڑوں والے پر کیچڑ اچھالا جائے گا ورنہ کیچڑ میں سب ویلے کھڑے کھڑے گل سڑ جائیں گے، تنقید معاشرے کی سانسیں ہے، وہ سانس نہیں لے گا تو مر جائے گا۔

ماں باپ بچوں کا دفاع نہیں کریں گے تو پھر روز کوئی نہ کوئی آپ کے بچوں پر باتیں کرے گا، اور آپ معاشرے کے سیانے لوگوں کی باتوں میں آ کر بچوں پر وہ تمام چیزیں مسلط کریں گے تو معاشرہ چاہتا ہے، لمبے بال تبھی تو اس معاشرے میں گناہ ہے، مولوی ٹوپی کی وجہ سے اور زلف کا لیبل لگا کر بچ جاتے ہیں، ہم جو مولویوں کے حلیے سے تنگ ہیں ٹوپی نہیں پہنتے، ہمارے لئے زلفیں حرام ہے، بلکہ سخت نا پسند عمل ہے، اور اس گناہ کی معافی کے لئے ٹنڈ کروا لیں، اور صبح دوپہر، شام زیتون کے تیل سے مالش کریں،

اور ایسا کرنا بھی گناہ کے معاف ہونے کے لئے ضروری نہیں ہے، یہ ایسا گناہ ہے ساری زندگی معافی مانگتے رہیں، کیونکہ یہ گناہ مولویوں اور معاشرے کے سیانے لوگوں نے معاف کرنا ہے، بندہ ناچیز تو پہلے بھی یہ گناہ کر چکا ہے، اب دوسری بار پھر وہی گناہ کرنے جا رہا ہے، سیانے کہتے ہیں، کہ جو لمبے بالوں کے گناہ سے واقف ہو اور پھر بھی اس کی طرف مائل ہو اور پھر وہ کر بھی لے تو اس کے لئے کوئی معافی نہیں۔ ۔ یہاں تک کہ وہ گنجا نا ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments