آئے نہیں ہیں، لائے گئے ہیں


لانے والے بڑے اہتمام سے لاتے ہیں اور آنے والے خراماں خراماں چلے آتے ہیں۔ حکومت نے عددی اکثریت کے بل پر سب بل منظور کروا لیے۔ عددی اکثریت کو یقینی بنانے کے لیے کیا ”بندوبست“ کیا گیا؟ یہ معاملات عموماً مؤرخ کا قلم آنے والی دہائیوں میں رقم کیا کرتا ہے۔ یا پھر کسی آشنائے راز کا ضمیر، کار دنیا سے فراغت کے برسوں میں اچانک جھرجھری لیتا ہے اور نئی پود ماضی کے ارباب بست و کشاد کے کارنامے سن کر سر دھنتے ہوئے دل کو دلاسا دیتی ہے کہ جو ان کے دل پر گزرتی ہے، کبھی اسے بھی کوئی رقم کرے گا۔

آر۔ ٹی۔ ایس بیٹھ گیا تھا۔ عین موقع پر اگر ای۔ وی۔ ایم کو بھی شرارت سوجھی تو جانے اس بار اقتدار کا ہما کس کے سر جا بیٹھے۔ کیونکہ کوچۂ اقتدار میں کوئی بھی ”بندوبست“ دوامی نہیں۔ جشن فتح منانے والے آج بہرحال اپنی جیت کا لطف اٹھانے میں حق بجانب ہیں۔

اوورسیز پاکستانیوں کا ووٹ کا حق سر آنکھوں پر، مگر حق رائے دہی کے استعمال کے موقع پر سوشل میڈیائی مثبت رپورٹنگ پر مکمل انحصار کی بجائے اگر وہ پاکستان میں موجود اپنے عزیز و اقارب سے معلوم پڑنے والے زمینی حقائق کو بھی کچھ اہمیت دیں تو شاید درست فیصلہ کرنے میں آسانی ہو۔ شنید ہے کہ ووٹر لسٹوں کی تیاری کا حق آئین الیکشن کمیشن کو تفویض کرتا ہے اور اسے نادرا کے سپرد کر دینا خلاف آئین ہے۔ اب دیکھیے اس بل کی منظوری کو اپوزیشن چیلنج کرتی یا الیکشن کمیشن خود یہ قدم اٹھاتا ہے۔ مگر ”مینج“ کرنے والے فقط ووٹر لسٹوں ہی کے محتاج کہاں ہیں؟

چاہے اپوزیشن ہو یا حکومت، اصل حقائق کو عوام کے سامنے رکھنے کی ذمہ داری مشترکہ ہے۔ اگر حکومت اپنے راندۂ درگاہی کے زمانے میں کلبھوشن یادو کے معاملے پر غداری غداری کھیلتی رہی، تو کیا اپوزیشن پر لازم ہے کہ وہ بھی جواباً غداری کے فتوے لگانے کی روش کو برقرار رکھے۔ عالمی عدالت انصاف کا ایسے قیدیوں کو اپیل کا حق دینے کا فیصلہ سب کے سامنے ہے۔ پاکستان عالمی کمیونٹی کا ایک رکن ہونے ہے ناتے عالمی عدالت انصاف کے فیصلوں کی پابندی کرنے کا پابند ہے۔

جیسے کہ ہم فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کی تاب نہیں رکھتے، بعینہ ایسے ہی ہم عالمی اداروں کے فیصلوں سے سرتابی کر کے عالمی برادری میں اپنا حقہ پانی بند کروانے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ویسے بھی تازہ خبر یہ ہے کہ امریکہ پھر سے اپنا یار ہے اور اس پر جاں نثار ہے۔ فرانس کے سفیر سے یاد آیا کہ قوم کو سعد رضوی کی رہائی مبارک ہو۔ تماشا جاری ہے اور تماشا کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے، کہ پردہ کب گرے گا، کب تماشا ختم ہو گا۔ کیونکہ ابھی جانے مزید کتنے شعبدے مداری کی زنبیل سے برآمد ہونے کو بے تاب ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments