ٹھپا یا بٹن


معروف شاعر مظفر وارثی کی شہرہ آفاق حمد کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے وہی خدا ہے ہمیشہ سے ہی پسندیدہ کلام میں شامل رہی ہے۔ بصد احترام اور مظفر وارثی سے انتہائی معذرت کے ساتھ ان کیے حمدیہ کلام کے پہلے مصرعے کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے میں تھوڑی سی ترمیم کرتے ہوئے کوئی تو ہے جو نظام مملکت چلا رہا ہے وہی ناخدا ہے سلسلہ گفتگو آگے بڑھاتے ہیں۔ بھیڑوں کے بھٹکتے ہوئے ریوڑ ہوں یا پھر سمندر کی لہروں کے رحم وکرم پر بے سمت سفر کرتی ہوئی کشتی ہو کو جو راہ چلتا ریوڑ کو ہانکنا شروع کردے یا کشتی کی پتوار سنبھال لے اس کو اپنے ناخدا ہونے کا زعم اس وقت تک رہتا ہے جب تک ریوڑ کو بھیڑیے کھا نا جائیں یا پھر کشتی منجھدار میں نہ پھنس جائے۔

یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ قائد ملت کے قتل کے بعد مملکت کے طاقتور ایوانوں میں اقتدار کے حصول کے لیے وہ کھیل کھیلا گیا کہ اگر ان کہانیوں کو سچائی کے ساتھ بیان کرنا شروع کر دیا جائے تو دستار کی بساط ہی کیا پھر تو شاید ہی سر بچ سکے۔ آزادی کے بعد کی پہلی دہائی نے فیصلہ کر دیا کہ سیاسی قیادت نا صرف نا اہل ہے بلکہ کرپٹ بھی ہے۔ پہلے مارشل لا میں ایبڈو کا قانون سامنے آیا اور اچھے اچھے احتساب کے نام پر یا تو سیاست سے نا اہل ہو گئے یا پھر حوالات میں قید کر دیے گئے۔ احتساب چلتا رہا اور ساتھ ساتھ آمریت بھی پروان چڑھتی رہی۔ ایک دہائی اس تجربے کی نذر ہوئے اور بات وہیں پر پہنچی جہاں سے کہانی شروع ہوئی تھی۔ فیلڈ مارشل کو فیلڈ سے آنے والے گستاخانہ نعروں کے سبب اقتدار چھوڑنا پڑا۔

آزادی کے بعد کی پہلی دو دہائیوں میں ہم نے جمہوریت سے آمریت کا سفر طے کر لیا۔ دونوں تجربے ناکام رہے نا ہم جمہوری بن سکے نا ہی ہمیں آمریت راس آئی۔ مدعا یہ کہ نا گھر کے رہے نا گھاٹ کے رہے۔ اس سے پہلے کہ کسی نئے تجربے کی طرف جاتے بدنصیبی یہ کہ ملک ہی ٹوٹ گیا۔ با امر مجبوری اقتدار عوامی منتخب قیادت کو منتقل کیا۔ ملک کو پہلا متفقہ آئین ملا اور اسی آئین کے تحت امور مملکت سرانجام پانا شروع ہوئے۔ جمہوری دور میں سوائے آئین کے کوئی مقدس و محترم نہیں ہوتا۔

آئین کے دائرہ کار کے اندر ہر فرد اور ادارہ جواب دہ ہوتا ہے۔ سوال شروع ہوئے تو جواب کسی کے پاس نہیں تھے۔ اگر تھے بھی تو ان سویلینز کو جواب کون دیتا ہے۔ لہذا سویلین وزیراعظم کو دار پر لٹکا کر واضح پیغام دیا گیا کہ جمہوریت میں آزادی وہی ہوگی جس کی اجازت دی جائے گی۔ اس سے زیادہ کی خواہش کا انجام دیکھ لیں

ایک بار پھر ملک محفوظ ہاتھوں میں چلا گیا۔ جمہوری شر انگیزیوں کو لگام ڈال دی گئی۔ عوام کے جمہوری حقوق کے نام پر بلند ہونے والی ہر فتنہ پرور آواز کو دبا دیا گیا۔ حاکم کا نیا بیانیہ جاری ہوا کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے۔ ضیائی ظلمت کے عہد میں سوچنے پر پابندی، بولنے پر پابندی، جس نے پابندی توڑی کوڑے اس کا مقدر ہوئے۔ مگر آفرین ہے کہ بولنے والے بولتے رہے۔ بقول فیض صاحب کے یونہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق اور خلق الجھتی ہی رہی۔ چند سر پھر شوریدہ سر باطل سے کہاں دبنے والے تھے سو جان پر کھیل گئے مگر مصلحت کے نام پر خاموش نہیں ہوئے۔ یہ عہد بھی زور دار دھماکے کے شور کے بعد خاموش ہو گیا۔ مگر خلق خدا کا شور بڑھتا گیا آوازیں بلند ہوتی گئیں اور اتنی بلند ہوئیں کہ اقتدار دے کر ہی جان چھوٹی۔

88 سے 99 تک چار جمہوری حکومتیں محلاتی سازشوں کا شکار ہوئیں۔ ملک و قوم کی ایک دہائی ضائع ہو گئی۔ اب باری تھی آمریت کی اور 2008 تک آمریت ماضی کے مقابلے میں ایک نئے روپ میں سامنے آئی مگر یہ تجربہ بھی حسب روایت ناکام رہا۔ اب جمہوریت کے دس سال تھے اور ملک کی دو بڑی جماعتوں کی گردن پر انگوٹھا رکھ کر مدت پوری کرنے دی گئی۔ اس دباؤ کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان جمہوری دس سالوں میں بھی عام آدمی کے مسائل ختم تو درکنار کم بھی نہیں ہوئے۔ جمہوریت اور آمریت کے تجربے بار بار ناکام ہوئے تو سوال پیدا ہو گیا کہ اب کیا ایسا کیا جائے کہ کچھ تو حالات بہتر ہوں۔ اس بار تو باری بھی آمریت کی تھی۔ لہذا ایک ایسا نظام لانے کا فیصلہ کیا گیا جس کی پانچ سالہ کارکردگی پر ایک اور نئے نظام کی بنیاد رکھی جانی تھی۔

حکمرانی کا ایک ایسا پراجیکٹ تیار کیا گیا جس نے بہرحال کچھ نا کچھ تبدیلی لے آنی تھی۔ اس کے لیے مختلف سیاسی شخصیات کی ساکھ کو تباہ و برباد کر دیا گیا۔ کچھ جیلوں میں کچھ نا اہل جبکہ کچھ کو کے انتخابی نتائج میں دھند چھائی رہی۔ مطلوبہ تعداد پوری کر کے تبدیلی لانے والے مسیحا کو اقتدار سونپا گیا۔ ریس میں گھوڑا چھوڑ دیا گیا۔ اور یہیں پر غلطی کا اندازہ ہوا کہ ریس کے لیے غلط گھوڑے کو چن لیا گیا۔ نتیجہ یہ کہ حالات پہلے سے بھی ابتر ہو گئے۔ تبدیلی کے نام پر بہت کچھ تبدیل ہوا مگر سفر واپسی کا ہی رہا۔ حالات دگرگوں ہوتے گئے۔ اور صورتحال یہ ہے کہ حالات جلد ٹھیک ہونے کے آثار بھی نہیں ہیں۔

تو سوال یہ ہے کہ اب ہو گا کیا تو اس کا جواب سابق صدر آصف علی زرداری نے دیا کہ حکومت اپنی مدت پوری نہیں کرے گی۔ بالفرض حکومت چلی بھی جاتی ہے تو کیا نئی حکومت معاملات کو سنبھال سکے گی تو یہ فی الفور ہونا ناممکن ہے۔ جتنا بگاڑ آ چکا ہے اس کو ٹھیک کرنے میں کئی سال لگ جائیں گے۔ عام آدمی کی حالت مزید ابتر ہوتی جائے گی۔ سفید پوش طبقے کے مزید برے دن آنے والے ہیں۔ غربت کی سطح سے نیچے رہنے والوں کے لیے پہلے ہی لنگر خانے اور پناہ گاہیں تعمیر ہو چکی ہیں۔

بالفرض آئندہ عام انتخابات میں ای وی ایم استعمال بھی ہوئی تو بھی عام آدمی کے حالات بہتر نہیں ہونے والے۔ لہذا اب ٹھپا ہو یا بٹن حالات نہیں بدلنے والے۔ تو پھر حالات کیسے بدلیں گے؟ حالات اس وقت بدلیں گے جب اپوزیشن حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے مزاحمت کرے گی اور ڈیل کے لالچ میں ڈھیل دینا بند کردے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments